New Age Islam
Sun May 18 2025, 06:17 PM

Urdu Section ( 9 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Holy Qur'an Repeatedly Encourages Humans to Consider the Universe around Them-Part-2 قرآن مجید نے بے شمار مقامات پر انسان کو دعوت دی ہے کہ اپنے ارد گرد پھیلی کائنات پر بھی غور کرے

ڈاکٹر اختر حسین عزمی

(دوسری قسط)

5 مئی 2023

علوم قرآن کے ماہرین نے قرآنی دلائل کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہے: (۱) دلائل عقلی (۲) دلائل نقلی ۔

دلائل عقلی کی بنیاد یہ آیت ہے: ’’عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائینگے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔‘‘  (حم السجدہ:۵۳)

امام قرطبیؒ نے آفاق و انفس کا جو مفہوم نقل کیا ہے وہ اِس طرح ہے: ’’آفاق سے مراد ہیں آسمانوں اور زمین کے اطراف میں موجود قدرت کی نشانیاں، مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات اور دن ، ہوائیں اور بارشیں، گرج چمک، کڑک، سبزہ، درخت، پہاڑاور دریا وغیرہ۔ اور،  انفس میں انسانوں کے نفسوں میں  لطیف صنعت اور عجیب و غریب حکمت کی جانب اشارہ ہے۔ ‘‘ (تفسیر قرطبی، ج ۱۵، ص ۲۴۴)۔ مولانا مودودیؒ (م: ۱۹۷۹ء) آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ آفاق ارض وسماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھائے گا، جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے، وہی برحق ہے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن ،ج۴،ص ۴۷۰)

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ(م: ۱۹۹۷ء)کے مطابق:  ’’آفاقی دلائل سے مراد کائنات میں موجود شواہد ہیں، مثلاً رات دن کا تسلسل، سورج اور چاند کی گردش، ہوائوں کے تصرفات ، پہاڑوں اور سمندروں کے عجائبات، وسائل رزق کا انتظام وغیرہ۔ دلائل انفس سے مراد انسانی نفسیات اور اس کے اندر ودیعت کردہ حقائق ومسلمات ہیں۔ ‘‘ (اصول فہم قرآن، ص۹)۔ اسی بات کو ایک جگہ یوں فرمایا: ’’زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین والوں کیلئے اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے ؟‘‘(الذاریات: ۲۰- ۲۱)

    انفسی دلائل (انسانی وجود پر مبنی دلائل): انسانوں کے اپنے اندر یہ ودیعت کردہ حقائق کیا ہیں؟ ان کی ایک مثال ملاحظہ کریں، فرمایا: ’’اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔‘‘ (القیامۃ :۲)

’نفس لوّامہ‘ کیا ہے؟ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق یہ وہ نفس ہے، جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بُری نیت رکھنے پرنادم ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ’ضمیر‘ [Conscience] کہتے ہیں: اس ضمیر میں لازماً برائی اور اچھائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے۔ اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور بُرائی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور بُرے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور جس برائی کا ارتکاب اس نے دوسروں کے ساتھ کیا ہو، اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دَبا کر خوش بھی ہو لے تو اس کے برعکس صورت میں جب کہ اُسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اس کے ساتھ کیا ہو، اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہئے۔ اب اگر انسان کے وجود میں اس طرح کے ایک نفس لوامہ کی موجودگی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ یہی نفس لوامہ ’’زندگی بعد ِموت‘‘ کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے ، کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا زندگی بعد موت کے سوا کسی صورت میں پورا نہیں ہو سکتا کہ اپنے جن اچھے اور بُرے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے، ان کی جزا یا سزا اس کو ضرور ملنی چاہیے ۔‘‘ (تفہیم القرآن  ج۶،ص۱۶۳)

اسی سورہ میں آگے یہ فرمایا: ’’ بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے ۔‘‘ (القیامۃ : ۱۴-۱۵)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے؟ اپنے آ پ کو جاننے کے لئے وہ اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اسے بتائے کہ وہ کیا ہے؟ ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکا دے سکتا ہے، لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں پیش کرکے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ وہ جس کفر یا دہریت یا شرک کا قائل ہے ، وہ درحقیقت اس کی ایمان دارانہ رائے ہے، لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں جما ہوا ہے؟ ‘‘ (تفہیم القرآن ، ج۶، ص۱۶۷)

کہیں انسان کے غرور نفس اور اللہ کے سامنے اس کی بے بسی کو یوں بیان کیا: ’’ اے انسان! کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا  اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟‘‘  (الانفطار:۶-۸)

    آفاقی  دلائل: انسان کو اپنی تخلیق اور اس کی ذات کے مختلف پہلوئوں کی طرف دعوت ِغوروفکر دینے کے ساتھ ساتھ قرآن نے بے شمار مقامات پر انسان کے ارد گرد پھیلی کائنات (آفاق) پر بھی اسے غور کرنے کی دعوت دی ہے  چنانچہ فرمایا:

’’ بے شک آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے اختلاف میں، اُن کشتیوں میں جو لوگوں کی نفع رسانی کی چیزیں اٹھائے دریائوں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے مُردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں ہرقسم کے چوپائے پھیلائے، ہوائوں کی گردش میں اور بادلوں میں جو زمین و آسمان کے درمیان پابند ہیں، عقل والوں کیلئے (بے شمار)  نشانیاں ہیں۔‘‘ (البقرہ :۱۶۴)

اس آیت میں گیارہ چیزوں کو توحید کے حق میں دلائل کے طورپر پیش کیا گیا۔ سورئہ انعام کی آیات ۹۰؍ تا ۹۹؍ میں اللہ نے سترہ چیزوں کو اپنی توحید کے اثبات میں دلائل کے طور پر پیش کیا ہے۔ سورۂ نحل کی آیات ۳ ؍تا ۱۳؍ میں زمین و آسمان، جانوروں اور پرندوں کی تیرہ نشانیوں کو علم و حکمت رکھنے والی ذات واحد کے وجود کی کھلی دلیل قرار دیا۔ اس موضوع پر سیکڑوں آیات ہیں جو انتہائی عام فہم اور دل نشین انداز میں اللہ کی یکتائی کے اوپر قطعی دلیل ہیں اور ان سے جہاں ایک تعلیم یافتہ آدمی اپنی ذہنی وفکری رہنمائی کا سامان پاتا ہے وہاں ایک اَن پڑھ بھی ان پر جھوم اٹھتا ہے ۔

    نقلی دلائل (تاریخی واقعات پر مبنی دلائل): قرآن نے عقائد اسلام کے اثبات پر عقلی دلائل کے ساتھ نقلی دلائل بھی پیش کئے ہیں ۔

    انبیاء کی دعوت: اس کے لئے مشاہیر انبیاء کے اپنی اپنی قوم سے جو مکالمے ہوئے، ان کو بیان کیا ہے۔ تمام انبیاء کی دعوت میں ایک بنیادی بات جو مشترک ہے، وہ اللہ کی عبادت اور شرک سے اجتناب ہے:

’’اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیااور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔ ‘‘   (النحل :۳۶)

سورۂ اعراف میں حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ، حضرت صالح اور حضرت شعیب ؑ اپنی اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے ایک ہی جملے کا بار بار تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں :

’’اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ۔‘‘(اعراف : ۵۹، ۶۵، ۷۳،۸۵)

مختلف مقامات پر قرآن نے حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسٰی اور حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت بھی یہی بیان کی ہے :

’’ اور ابراہیم ؑنے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرو ۔‘‘(عنکبوت :۱۶)

اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو پہلی وحی میں یہ تاکید کی :

’’بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، پس تو میری بندگی کر۔‘‘ (طہٰ :۱۴)

’’ مسیح ؑنے کہا: اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی ۔‘‘  (المائدہ : ۷۲)

    اہلِ حق کی سیرت سے استدلال: قرآن کریم نے آزمائش میں توحید پر ثابت قدم رہنے والے اپنے اولیاء کے واقعات سے بھی استدلال کیا ہے۔ اس لئے کہ ان کا کردار بھی توحید کی حقانیت اور صداقت کی تاریخی دلیل ہے، مثلاً ’اصحاب الکہف‘ (غار والوں)کا ذکر۔ جب ان پر اپنی مشرک قوم کی اذیتیں ناقابل برداشت ہو گئیں تو وہ ہجرت کر کے ایک غار میں جا چھپے اور اللہ نے انھیں کم و بیش تین سو سال سلائے رکھا۔ یہ واقعہ اللہ کی توحید وقدرت اور موت کے بعد کی زندگی کے وقوع پر نقلی دلیل کے طور پر بیان ہوا ہے :

ہم ان (اصحاب کہف) کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیئے جب وہ اٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔اگر ہم ایسا (کسی دوسرے معبود کی بات) کریں تو بالکل بے جا بات ہوگی۔ (پھر انھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا )یہ ہماری قوم تو رب کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟‘‘ (الکہف :۱۳-۱۴)

قرآن میں ایک واقعہ ’اصحاب الاخدود‘ کے مقابل ان اولیاء اللہ کا بیان ہوا ہے، جنہوں نے ’اصحاب الاخدود‘ کے وحشیانہ مظالم کے مقابلے میں صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر عقیدۂ توحید کے برحق ہونے کی شہادت دی تھی :

’’ مارے گئے گڑھے والے۔ (اُس گڑھے والے ) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جب کہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے، اسے دیکھ رہے تھے۔ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خد ا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے، جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔ (البروج ۸۵:۴-۹)

ابن ہشام، طبرانی اورابن خلدون کے مطابق نجران (یمن ) کے یہودی باد شاہ ذونواس نے دین مسیح کے بیس ہزار پیروکار وں کو اپنا دین ترک نہ کرنے کی پاداش میں آگ میں بھرے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا۔ (تفہیم القرآن، جلد ۶ ،ص ۲۹۷-۲۹۸)

یہ واقعہ اکتوبر ۵۲۳ء میں پیش آیا تھا ۔ نزول قرآن سے تقریباً نوے سال قبل کے اس واقعہ کو قرآن نے ایک تاریخی دلیل کے طور پر نقل کیا ہے کہ اولیاء اللہ صرف اللہ کی عبادت کرتے اور غیبی امداد کیلئے اسی کو پکارتے تھے۔ (جاری)

5 مئی 2023 ،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------------------

Part: 1- The Holy Quran Uses the Most Persuasive and Natural Method of Reasoning-Part-1 وہی طرز ِ استدلال سب سے زیادہ مؤثر اور فطری ہے جو قرآن مجید نے اختیار کیا ہے

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/holy-quran-humans-universe-part-2/d/129732

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..