پروفیسر سید محمد سلیم
22 ستمبر،2023
اللہ تعالیٰ نے انسان کو
پیداکیا اور پھر اس کو زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کیا تاکہ اُس کے حسنِ کارکردگی کی
آزمائش ہو۔ انسان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت نامہ قرآن مجید نازل
فرمایا جو انسان کو اُس کی حقیقت سے ، اس کے آغاز اور اُس کے انجام سے باخبر کرتا
ہے، اس کی گوناگوں صلاحیتوں اور استعدادوں کے لئے صحیح راہِ عمل متعین کرتا ہے اور
کامیابی اور ناکامی کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
جس طرح ایک موجد اپنی
ایجادکردہ مشین کے ساتھ ایک ہدایت نامہ اور ایک گائیڈ بک بھی دیتا ہے تاکہ اُس کی
ہدایت کے مطابق مشین کو استعمال کیا جائے اور مطلوبہ فوائد حاصل کئے جائیں ، اسی
طرح اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کیلئے یہ گائیڈ بک اتاری ہے۔ اس کی روشنی میں اور اس
کی ہدایت کے مطابق اگر انسان زندگی گزارے گا تو کامیاب اور بامراد ہوگا اور اگر اس
گائیڈ بک کو نظرانداز کرکے اور اس کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر من مانے طریقے سے
زندگی گزارے گا تو ناکام اور نامراد ہوگا۔
اِس کتاب میں بہت کچھ نہیں
بلکہ سب کچھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان صبر و تحمل کے ساتھ اس کتاب کا
مطالعہ کرے۔ راہ چلتے آدمی کو ساحل پر موتی پڑے ہوئے نہیں ملتے بلکہ موتیوں کے
لئے سمندر کی تہہ میں غواصی کرنا پڑتی ہے۔ تہہ میں غواصی کرنا ہر کس و ناکس کے بس
کی بات نہیں ہے۔
عقائد اور کلام کے نقطۂ
نظر سے علماء نے اس کتاب پر غور کیا تو اُن کی جھولی بھر گئی۔ کتنی ہی کتاب
العقائد اور کتاب الکلام تیار ہوگئیں ۔ احکام کے نقطۂ نظر سے فقہاء نے اس پر غور
کیا تو کتنی ہی کتاب الاحکام تیار ہوگئیں ۔ صوفیاء نے ریاضیات اور مکاشفات کے
نقطۂ نظرسے غور کیا تو ہر آیت میں انہیں اپنی دنیا بسی نظر آئی اور صوفیانہ
تفاسیر وجود میں آگئیں ۔ غرض کہ دلالۃ النص، اشارۃ النص اور فحوائے کلام میں ایک
لامتناہی ذخیرۂ علم مخفی ہے۔ دوسرے لوگ بھی غور و فکر کریں اور تلاش کریں تو ان
شاء اللہ وہ بھی خالی ہاتھ نہیں جائینگے، ان کی جھولی بھی بھر جائیگی۔ حضرت علیؓ
کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ’’اس (قرآن) کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔‘‘ ذیل
میں جمالیات کے نقطۂ نظر سے ہم اس کتاب پر غور کرتے ہیں :
قرآن مجید انسان کو مناظر
قدرت اور مظاہر فطرت کا مشاہدہ کراتا ہے، ان پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے
تاکہ اس پر یہ بات واضح ہوجائے کہ قدرت کا فیضان عام ہے اور افادیت کا وسیع
دسترخوان ہر چہارطرف بچھا ہوا ہے جس سے ساری مخلوق مستفید ہورہی ہے اور جس سے سارے
انسان مستفید ہورہے ہیں ۔ خالق اکبر چاہتا ہے کہ مشاہدۂ فطرت سے انسان کے اندر
افادیت کا شعور بیدار ہو اور منعم کے احسانات کا ادراک حاصل ہو ۔ اس کے بعد ہی وہ
منعم ِ حقیقی کا احسان مند اور شکرگزار بن سکتا ہے اور رب العالمین کی ربوبیت کا
اقرار کرسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اللہ نے تمہیں
تمہاری ماؤں کے پیٹ سے (اس حالت میں ) باہر نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس
نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجا لاؤ، کیا انہوں نے
پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر
اڑتے رہتے) ہیں ، انہیں اللہ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔ بیشک
اس (پرواز کے اصول) میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں ، اور اللہ نے تمہارے لئے
تمہارے گھروں کو (مستقل) سکونت کی جگہ بنایا اور تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں سے
(عارضی) گھر (یعنی خیمے) بنائے جنہیں تم اپنے سفر کے وقت اور (دورانِ سفر منزلوں
پر) اپنے ٹھہرنے کے وقت ہلکا پھلکا پاتے ہو اور (اسی اللہ نے تمہارے لئے) بھیڑوں
اور دنبوں کی اون اور اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے گھریلو استعمال اور
(معیشت و تجارت میں ) فائدہ اٹھانے کے اسباب بنائے (جو) مقررہ مدت تک (ہیں )، اور
اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کردہ کئی چیزوں کے سائے بنائے اور اس نے تمہارے
لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو
تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور (کچھ) ایسے لباس جو تمہیں شدید جنگ میں (دشمن کے وار
سے) بچاتے ہیں ، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتِ (کفالت و حفاظت) پوری فرماتا ہے
تاکہ تم (اس کے حضور) سرِ نیاز خم کر دو۔ سو، اگر (پھر بھی) وہ رُوگردانی کریں تو
(اے نبی ٔ معظم!) آپ کے ذمہ تو صرف (میرے پیغام اور احکام کو) صاف صاف پہنچا دینا
ہے، یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے
اکثر کافر ہیں ۔‘‘ (سورہ النحل: ۷۸؍تا۸۳)
ایک دوسری جگہ انسانی
مرغوبات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے:
’’لوگوں کے لئے ان خواہشات
کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں ) عورتیں اور اولاد اور سونے اور
چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی
(شامل ہیں )، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے۔‘‘
(آل عمران:۱۴)
متاعِ دنیا کے ساتھ ساتھ
اُس نے انسان کو حسنِ نظر اور ذوقِ جمالیات کی دولت بھی بخش دی ۔ وہ انسان کے اندر
جمالیاتی حس کو بیدار کرنا چاہتا ہے ، وہ انسان کے اندر حسن و جمال کی قدر شناسی
پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ تب ہی تو انسان خالقِ حسن و جمال کی قدر کرے اور توقیر و
تقدیس کرے گا۔ متاعِ دنیا کے ساتھ ساتھ اُس نے زیب و زینت کا دستر خوان بھی عام
بچھا رکھا ہے۔ قدرشناس نگاہ ہو تو اُس کو ہر جگہ جمالِ فطرت دعوت ِ نظارہ دے رہی
ہے ۔ مقصود اس جنت نگاہ اور فردوس ِ گوش سے وہی ایک ہے کہ انسان خالق کی ربوبیت کا
اقرار کرے اور اس کا شکرگزار بنے:
’’اور جو چیز بھی تمہیں
عطا کی گئی ہے سو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی رونق و زینت ہے۔ مگر جو چیز
(بھی) اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ کیا تم (اس حقیقت کو)
نہیں سمجھتے۔‘‘
جس قدرت نے ہمیں زندگی دی
اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت… حسن و زیبائی کی کشش… سے
بھی ان کو مالامال کردیا جائے۔ (ترجمان القرآن، مولانا ابوالکلام آزاد)
حسن و زیبائی کا دسترخوان
کائنات میں بڑا وسیع بچھا ہوا ہے۔ ایک مسلمان جب قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو
جگہ بہ جگہ مختلف آیتیں اُس کی توجہ حسن و جمالِ فطرت اور زیبائش و آرائش کائنات
کی طرف منعطف کردیتی ہیں ، اس کو نظارۂ جمال کی قدرشناسی کی دعوت دیتی ہیں ،
ایمانی انداز میں اس کے اندر تحسین ِ جمال اور توقیر حسن کا جذبہ پیدا کرتی ہیں
اور چشم بینا میں حسن نظر کی شان پیدا کردیتی ہیں ۔
اس کی چند مثالیں ملاحظہ
کیجئے:
آسمان: کبھی وہ آیتیں
انسان کو آسمان کی وسعت میں پھیلے ہوئے تاروں کی جگمگاہٹ اور رونق کی طرف متوجہ
کرتی ہیں ، مثلاً : ’’ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے ۔‘‘
(صافات:۶)
’’ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ
کیا ہے ۔‘‘ (ملک:۵)
’’اور ہم نے آسمان میں روشن ستارے بنائے، اُن کو دیکھنے والوں کے
لئے مزین کیا ۔‘‘ (حجر:۱۶)
’’سو کیا انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی جو ان کے اوپر ہے کہ
ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور (کیسے) سجایا ہے اور اس میں کوئی شگاف (تک) نہیں ہے،
اور (اِسی طرح) ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں ہم نے بہت بھاری پہاڑ رکھے اور
ہم نے اس میں ہر قسم کے خوش نما پودے اُگائے، (یہ سب) بصیرت اور نصیحت (کاسامان)
ہے ہر اس بندے کیلئے جو (اﷲ کی طرف) رجوع کرنے والا ہے۔‘‘ (سورہ قؔ: ۶؍تا۸)
رنگینی ٔ مخلوقات: کبھی
قرآن مجید کی آیات کائنات میں پھیلی ہوئی رنگ والوان کی بوقلمونی اور نیرنگی کی
طرف توجہ مبذول کراتی ہیں ، الوان و انواع دعوت ِ نظارہ دیتے ہیں :
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے
اس سے پھل نکالے جن کے رنگ جداگانہ ہیں ، اور (اسی طرح) پہاڑوں میں بھی سفید اور
سرخ گھاٹیاں ہیں ، ان کے رنگ (بھی) مختلف ہیں اور بہت گہری سیاہ (گھاٹیاں ) بھی
ہیں ، اور انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں ، بس اﷲ
کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے
والے ہیں ۔‘‘ (فاطر:۲۷۔۲۸)
عالمِ نباتات: کبھی قرآن
مجید عالم نباتات میں رنگ و بُو کے حسین مناظر کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے:
’’بیشک ہم نے اُن تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اس کے لئے باعث ِ
زینت (و آرائش) بنایا ہے۔‘‘ (کہف:۷)
’’بلکہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور
تمہارے لئے آسمانی فضا سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس (پانی) سے تازہ اور خوش نما
باغات اُگائے؟ تمہارے لئے ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغات) کے درخت اُگا سکتے۔ ‘‘
(النمل:۶۰)
’’اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے ، پھر جب ہم اس پر پانی
برسا دیتے ہیں تو اس میں تازگی و شادابی کی جنبش آجاتی ہے اور وہ پھولنے بڑھنے
لگتی ہے اور خوش نما نباتات میں سے ہر نوع کے جوڑے اگاتی ہے۔‘‘ (حج:۵)
’’اس وقت جب کہ زمین اپنی
بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں ۔‘‘ (یونس:۲۴)
’’ کھجور اور انگور کی
بیلوں سے ہم ایک چیز پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی۔‘‘
(نحل:۶۷ )
22 ستمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism