غلام رسول دہلوی، نیو ایج
اسلام
26 اگست 2023
اہم نکات:
1. مظفر نگر کے اسکول
میں ایک مسلمان بچے کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سفاکیت، تشویشناک اور ہندوستان میں
مسلمانوں کی تذلیل و توہین ہے۔
2. اس سے ظاہر ہوتا
ہے کہ ہمارے کثیر مذہبی معاشرے میں نفرت کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ اس واقعہ سے ملک
کے مزاج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
3. کوئی تصور کر سکتا
ہے کہ اس چھوٹے بچے کو کن حالات سے گزرنا پڑا ہو گا۔ یہ بچوں کے محفوظ اور صحت مند
ماحول میں تعلیم کے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
4. ہمارے ملک کا ہر
باشعور شہری فطری طور پر اس غیر انسانی، ملک دشمن، گھناؤنے اور سراسر فرقہ وارانہ
واقعے کے خلاف آواز اٹھائے گا۔
5. نظریاتی طور پر،
یہ واضح ہے کہ سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں، مبلغین اور کارکنوں سے لے کر اسکول کے
ٹیچروں تک 'ہندوتووادی' اور ان کے ہمدرد اب ہندوستان میں بنیاد پرست اسلامی ذہنیت
کی بیج بو رہے ہیں۔
6. آر ایس ایس سے
متاثر ہندوتواوادیوں نے شاہ ولی اللہ اور دیگر روایتی مسلم فقہاء کا باریکی سے
مطالعہ یہ جاننے کے لیے کیا ہے کہ اسلامی ریاست میں ذمیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا
جانا چاہیے۔ اب وہ ہندو ریاست میں مسلمان ذمیوں کے ساتھ کم و بیش ایسا ہی کر رہے
ہیں۔
7. تاہم، جیسا کہ
کانگریس پارٹی کے سرکردہ "سیکولر" لیڈر بھی کھلے عام ہندوستان کو ہندو
ریاست قرار دیتے ہیں، اس لیے ہندوستان کو ہندو ریاست سمجھنے کے لیے صرف آر ایس ایس
سے متاثر ہندوتواوادیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
8. جو لوگ اب بھی
ہندوستان کو ایک سیکولر ریاست سمجھتے ہیں انہیں اپنے دماغ کا علاج کسی ایسے ماہر
نفسیات سے کروانے کی ضرورت ہے جو ہیلوسینیشن کے علاج میں مہارت رکھتے ہیں۔
---------
Photo: Patrika.com/ Principal of
Neha Public school in Khubbapur village, under the Mansoorpur police station
limits in Muzaffarnagar.
-----
یہ ہندوستان میں مسلمانوں
کے ساتھ سرا سر غیر انسانی سلوک ہے! مظفر نگر کے اسکول میں ایک مسلمان بچے کے ساتھ
جو کچھ ہوا ہے وہ سفاکیت ہے اور حال ہی میں اور پچھلی کئی دہائیوں میں ملک کے
مختلف حصوں میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ تعصب اور تشدد کے واقعات سے کہیں
زیادہ تشویشناک ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ
ہمارے سناتن ہندو سماج میں نفرت کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ یا اسے 'سیاسی طور پر
درست' نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ معاشرے میں پہلے سے ہی کافی مضبوط تھا جو اب
سیاست دانوں اور جنونی مذہبی رہنماؤں اور بنیاد پرست مبلغین کے حمایت یافتہ ہجوم
نے واضح کر دیا ہے۔ سناتنی اسکول کی ایک ٹیچر نے اپنے اسکول کے ہندو طلباء کو اپنے
مسلم ہم جماعت کے خلاف اس فرقہ وارانہ تشدد کے ارتکاب کا حکم دیا، یہ انتہائی
تکلیف دہ اور خطرناک ہے۔ اس واقعہ سے ملک یعنی نہ صرف سیاستدان بلکہ عوام، اساتذہ،
ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے مزاج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہندوستان میں اب
آسانی سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے اندر فرقہ پرستی اور مذہبی
تعصب بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے، جسے مظفر نگر اسکول کے واقعے کے تناظر میں صاف
طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی صحافی
اور کالم نگار، ساگاریکا گھوس نے بجا طور پر اس واقعے کو اس مشکل ترین دور کا ایک
افسوسناک حادثہ قرار دیا ہے۔ وہ ٹویٹ کرتی ہیں: "مظفر نگر کے ایک اسکول میں
خود استاد نے ہی اپنے طلباء کو درسگاہ میں ایک مسلمان بچے کو مارنے کے لیے کہا۔
کیا اس سے بھی زیادہ ذلت کی بات کچھ ہو سکتی ہے۔ اتنی نفرت کے ساتھ میں "امرت
کال" کیسے منایا جا سکتا"۔
اس تحریر کو قلمبند کرنے
تک، بہت سے لوگوں نے مظفر نگر کے ایک سکول کے بچے کی دردناک ویڈیو دیکھ چکے ہوں گے
ہو گی جس میں یہ دکھایا گیا ہے ایک سکول کے بچے کو کھڑا کر کے استاد اس کے غیر
مسلم ہم جماعتوں کو اسے زور سے تھپڑ مارنے کی ہدایت دے رہی ہے، کیونکہ وہ ایک
مسلمان ہے، اور وہ استاذ مسلم مخالف باتیں کر رہی ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ
مقامی پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی اور اس بچے کے والد اور اسکول کے
ساتھ سمجھوتہ کروا لیا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اس چھوٹے بچے کو کن حالات سے گزرنا
پڑا ہو گا۔ یہ بچوں کے محفوظ اور صحت مند ماحول میں تعلیم کے حقوق کی صریح خلاف
ورزی ہے۔ اگرچہ راقم الحروف کو امید ہے کہ استاد کے خلاف جلد ہی مقدمہ چلایا جائے
گا، اور نہ صرف برطرف کیا جائے گا، بلکہ اس سے بھی کچھ سنگین کاروائی کی جائے گی:
ریاستی حکومت کو اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکامی پر پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری
طور پر کارروائی کرنی چاہیے۔
ہمارے ملک کا ہر باشعور
شہری فطری طور پر اس غیر انسانی، ملک دشمن، گھناؤنے اور سراسر فرقہ وارانہ واقعہ
کے خلاف آواز اٹھائے گا۔ بہر حال، میں اس مسئلے پر جس وجہ سے زور دے رہا ہوں، وہ
صرف یہ واقعہ نہیں بلکہ ملک کے لیے تشویش کا ایک بڑا سبب ہے۔
'ہندوتوا' کی بنیاد پرست
اسلامائزیشن
سعودی عرب سمیت اسلامی
ممالک اور عرب ممالک کے اپنے انتہا پسند، مطلق العنان اسلام پسند نظریے کو ختم
کرنے کے بعد، بدقسمتی سے اسے ہندوستان میں اپنایا جا رہا ہے، نہ صرف وحدت اسلامی
کے بنیاد پرست مبلغین کے درمیان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اب ان کی تقلید کرنے والوں
یعنی 'ہندوتووادیوں' کے درمیان جو تقریباً ایک صدی سے روایتی مسلم فقہاء کا باریکی
سے مطالعہ یہ جاننے کے لیے کر رہے ہیں کہ اسلامی ریاست میں ذمیوں (دوسرے درجے کے
شہری جو اسلامی ریاست کے تحفظ میں ہیں) کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔ وہ ہندو
مت کی حقیقی روحانی اور آفاقی قدروں سے بالکل ہی نابلد ہیں بلکہ ان بنیاد پرست
اسلام پسندوں اور جہادیوں کے عمل اور نظریے سے متاثر ہیں جن پر خود اپنے ممالک میں
پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
عرب اور اسلامی دنیا سے
پھوٹنے والی دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کا بنیادی عنصر یہی بنیاد پرست
اسلام پسندی تھی۔ نتیجتاً، داعش، القاعدہ اور طالبان جیسے دنیا کے سرفہرست دہشت
گرد گروہ مختلف اسلامی فرقوں سے نکلے۔ انہوں نے غیر مسلموں اور ان کے نظریات کو
مسترد کرنے والے مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنے اور 'اسلامی ریاست' کی تخلیق کے
لیے، مذہبی جواز کا اختراع کیا جو پہلے سے ہی متروک اور فرسودہ اسلامی فقہ میں
موجود تھا۔
نظریاتی طور پر، یہ واضح
ہے کہ سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں، مبلغین اور کارکنوں سے لے کر اسکول کے ٹیچروں
تک 'ہندوتووادی' اور ان کے ہمدرد اب ہندوستان میں بنیاد پرست اسلامی ذہنیت کی بیج
بو رہے ہیں۔ انہوں نے متعصب اور جعلی 'مذہبیت' کے نظریہ سے 'سچے' ہندوستانیوں اور
مبینہ طور پر 'جعلی' ہندوستانیوں یا حقیقی قوم پرستوں اور ملک دشمنوں کے درمیان
فرق کرنے کے لیے اسلام پرستی کا تکفیری حربہ استعمال کیا ہے۔
اگر یہ وہ راستہ ہے جس پر
آج ہم ہندوستانی واقعی جانا چاہتے ہیں، تو معاشرتی، فرقہ وارانہ اور داخلی سلامتی
کی سطح پر تباہی اور بربادی یقینی طور پر ہمارا مقدر ہے، جس طرح اسلام پسندی نے
پاکستان کو تباہ کر رکھا ہے۔
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism