New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 01:58 AM

Urdu Section ( 12 Feb 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hijab versus Saffron Shawls Row in Karnataka: Mischief Galore کرناٹک میں حجاب بمقابلہ زعفرانی شال تنازع: فتنہ و فساد کا عروج

بلال احمد پرے، نیو ایج اسلام

 9 فروری 2022

 عالمی یوم حجاب کا مقصد خواتین کو مذہب و ملت سے قطع نظر پردہ پہننے اور اس کا تجربہ کرنے کی ترغیب دینا تھا۔

 اہم نکات:

حجاب عربی لفظ 'حجب' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کسی کو کسی چیز تک رسائی سے روکنا۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ عورت رب کی ایک ایسی مخلوق ہے جسے اجنبی مردوں سے پردے میں رکھنا ضروری ہے۔

اسلام میں پردے کی کئی شکلیں ہیں، اور عورتوں کے لباس کے حوالے سے اسلام میں کوئی قطعی اصول نہیں ہے۔

 -----

یکم فروری عالمی یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے جس کی بنیاد نیویارک کی ناظمہ خان نے 2013 میں رکھی تھی۔ اس تحریک کا مقصد خواتین کو ان کے مذہبی پس منظر سے قطع نظر پردہ پہننے اور اس کا تجربہ کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ لفظی طور پر فارسی میں لفظ 'پردہ' کا مطلب "نقاب یا لباس" ہے، اور عرف میں یہ ایک لمبا اور ڈھیلا لباس ہے جسے بہت سی مسلم خواتین دوسرے لباس کے اوپر پہنتی ہیں۔ 'حجاب' جو کہ عربی لفظ 'حَجْبٌ' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کسی کو کسی چیز تک رسائی سے روکنا۔

یہاں ایک سوال قارئین کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ پردہ یا حجاب صرف خواتین کو ہی کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب دینے کے لیے اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک عورت دراصل عورت ہے یعنی یہ رب کی ایک ایسی مخلوق ہے جسے اجنبی مردوں سے چھپانا ضروری ہے۔ اور دوسری طرف، یہ ایک اسلامی علامت ہے جس کے مطابق اسلامی کیلنڈر کی 4 ہجری سے خواتین کے لیے حجاب پہننا فرض ہے۔ یہ گردن سے لے کر پاؤں تک کا احاطہ کرتا ہے، یہاں تک کہ پہننے والے کے جوتے کو بھی نظر سے ڈھانپتا ہے، جس کی آستینیں کلائیوں تک ہوتی ہیں۔ پردہ یا حجاب ایک باضابطہ لباس ہے، جو روایتی طور پر سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ پردہ یا عبایا پہننا خطے میں خواتین کی مذہبی سالمیت اور قومی شناخت کی علامت مانا جاتا ہے۔

آج حجاب نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گرما گرم بحث کا موضوع ہے۔ ریاست کرناٹک میں حالیہ دنوں کے اندر اس کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا ہوا ہے۔ پچھلے سال دسمبر کے آخر سے، کرناٹک میں حجاب پہننے والے اپنے اسکول کے ساتھیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء نے زعفرانی اسکارف پہن کر اڈوپی کے ایک کالج میں آنا شروع کردیا۔ اس کے بعد حجاب بمقابلہ زعفرانی اسکارف کا مسئلہ ریاست کے دیگر حصوں مثلا چکمگلورو، شیوموگا، ہاسن، چکبالا پورہ، منڈیا، کالابوراگی، باگل کوٹ، بیلگاوی اور وجئے پورہ کے کچھ دیگر اداروں میں بھی پھیل گیا۔ یہ سلگتا ہوا معاملہ کرناٹک کی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اس عدالت نے منگل کے روز طلباء اور عام لوگوں سے امن و سکون برقرار رکھنے کی اپیل کی، کیونکہ ریاست کے کچھ حصوں میں حجاب تنازعہ میں اضافہ ہوا ہے۔

ساحلی شہر اُڈپی کے گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج میں زیر تعلیم کچھ طالبات کی عرضیوں کی سماعت کے بعد۔ اس درخواست میں عدالت سے یہ فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ انہیں "کالج کے احاطے میں اسلامی عقیدے کے مطابق حجاب پہننے سمیت ضروری مذہبی معمولات پر عمل کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔" جسٹس ایس ڈکشٹ کی سنگل بنچ نے کہا کہ اس عدالت کو بڑے پیمانے پر عوام کی عقلمندی اور دانشمندی پر پورا بھروسہ ہے اور امید ہے کہ احاطے میں بھی ایسا ہی کیا جائے گا ۔" تاہم جسٹس ایس ڈکشٹ نے یہ بھی کہا کہ صرف کچھ شرارتی لوگ اس معاملے کو بھڑکا رہے ہیں ۔ درخواست گزار طلباء کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ ڈی کامت نے کہا کہ حجاب کی اجازت دی جائے۔

Muskan stood her ground as she was heckled by a large group of slogan-shouting young men wearing saffron scarves at a Karnataka college.

----

ایک وائرل ویڈیو میں یہ صاف طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ منڈیا ضلع کے پی ای ایس کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس کے احاطے میں مسکان خان کو ایک بھیڑ ہراساں کر رہی ہے اور "جئے سری رام" کا نعرہ لگا رہی ہے جس کے جواب میں مسکان نے بھی "اللہ اکبر" کے نعرے لگائے، جس کی وجہ سے پوری ریاست میں تشویش کیا ایک لہر پھیل چکی ہے۔ تاہم کالج کے حکام نے اس لڑکی کی حمایت اور حفاظت کی ہے۔

تاہم گزشتہ بیس سالوں میں مختلف فیشن ہاؤسز اور شرارتی گروپس نے ایک نیا رجحان پیش کیا ہے۔ اس نئے رجحان نے روایتی عبایا کی مقبولیت کو چیلنج کیا ہے، کیونکہ روایتی عبایا مذہبی اور قومی شناخت کی علامت ہے۔

قرآن کریم میں دو سورتیں ہیں جن میں عورت کے پردے کا ذکر ہے۔ سورت نمبر 33، (الاحزاب) آیت نمبر 53 میں ہے، "اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو، اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کی۔"

بعد میں اسی سورت کی آیت نمبر 73 میں ہے کہ ''اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"

مندرجہ بالا سورت کی آیت 53 پردے کے اطلاق میں مبہم ہے۔ اصل عربی لفظ "حجاب" ہے جس کا معنی "پردہ" ہے، جسے تاریخی طور پر گھر کے مختلف حصوں کے مابین لٹکائے جانے والے پردے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس پردے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مومنین سے چھپانے کے لیے دیا گیا تھا جو دن میں پانچ وقت نماز کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آتے تھے۔ تاہم، بہت سے فقہاء اسے لفظی پردے سے بھی تعبیر کرتے ہیں، جیسا کہ یہ لفظ آج کل بول چال میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اوپر کی آیت نمبر 73 میں بیان کیا گیا، جب پردے کی ضرورت پیدا کرنے کی بات آتی ہے تو یہ سورت زیادہ مفید ہے: اس میں خواتین کو حکم ہے کہ وہ "اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں"، جسے اکثر ڈھیلے ڈھالے کپڑوں یا چادروں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ .

سورت نمبر 24 "النور" (روشنی) میں پردے کے بارے میں اس طرح وضاحت ہے، "اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں، اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر..." (القرآن)۔ یہ آیت اسلام میں پردے کا سب سے بڑا جواز فراہم کرتی ہے۔ یہ پارسائی کا معیار متعین کرتی ہے اور سر پر اسکارف پہننے کا ذکر کرتا ہے۔

بہت سے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیات خواتین کو ایسے ڈھیلے کپڑے پہننے کی تلقین کرتی ہیں جن سے ان کے جسم کا اکثر حصہ پردہ پوش ہو جائے۔ تاہم، اسلامی میں پردے کی کئی شکلیں ہیں، اور عورتوں کے لباس کے حوالے سے اسلام میں کوئی قطعی اصول نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی ایسا لباس ہے جو تمام چیزوں سے معروضی طور پر "بہتر" یا "زیادہ اسلامی" ہو۔ اس کے ارد گرد جو تین اصول بنائے گئے ہیں وہ ہیں پارسائی کے ساتھ لباس پہننا (القرآن؛ 7:26)، سینوں کو دوپٹے سے ڈھانپنا (24:31) اور کپڑوں کو لمبا کرنا (33:59)۔

ابوداؤد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت کے مطابق، مندرجہ بالا آیات کے نازل ہونے کے بعد، "عورتیں فجر کی نماز کے لیے کووں کی طرح چلتی تھیں"، جسے بعض علماء نے عورتوں کو سیاہ عبایا پہننے کی وجہ قرار دیا ہے۔

تاہم، عبایا کے فیشن کے بہت سے حامیوں کا خیال ہے کہ، چونکہ لباس عام طور پر قانونی عبایا کی ہی طرح "تمام جسم کو ڈھانپنے والا" ہوتا ہے، اس لیے لباس کو زیب تن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

عبایا فیشن "فیشن کے تصور کو تقویٰ پر فوقیت دیتا ہے" اور پردے کے نظام میں خلل پیدا کرتا ہے۔

شرارتی عناصر نے نہ صرف عبایا کا ظاہر بلکہ اس کی معنوی اہمیت کو بھی مسخ کر دیا ہے۔ آج عبایا حجاب (یعنی پردہ) سے زیادہ لباس کی طرح نظر آتے ہیں۔ آج کل، کچھ عبایا دراصل خواتین کی شخصیت کو چھپانے کے بجائے اور ظاہر کرنے والے ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ کپڑے کی طرح نظر آنے کے لیے بھی ڈیزائن کیے گئے ہیں۔

Saffron Shawl Vs Hijab Row Ends in Karnataka College/ Photo: This News

-----

دنیا بھر میں حجاب کی حمایت کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ سب سے زیادہ مغربی ملک امریکہ میں، رافعہ ارشد حجاب پہننے والی سب سے پہلی خاتون جج کے طور پر مقرر ہوئی ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام اسلامی فقہاء اور مذہبی تنظیمیں اسلام کے ابتدائی اور ثانوی ماخذ (قرآن و حدیث) کی روشنی میں حجاب کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے آگے آئیں۔ اور عصری عبایہ کے لئے اسلامی شریعت کے معیار کے مطابق سادہ نقش و نگار متعین کریں۔ اس سلگتے ہوئے مسئلے کو بین المذاہب مکالمے کے ذریعے خوش اسلوبی کے ساتھ بھی حل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ شرپسند عناصر اور فیشن کے نئے رجحانات کو ہمیشہ کے لیے روکا جا سکے۔

جناب بلال احمد پرے نیو ایج اسلام کے ایک مستقل کالم نگار ہیں ۔ آپ کا تعلق  ریاست جموں و کشمیر کے جنوبی علاقہ ترال سے ہے ۔ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے اسلامیات میں ماسٹرس کیا ہے۔ آپ  کے مضامین  اکثر اسلامی سماجی مسائل پر ریاست کے متعدد روزناموں میں انگریزی و اردو زبان میں شائع  ہوتے رہتے ہیں۔

----------

English Article: Hijab versus Saffron Shawls Row in Karnataka: Mischief Galore

URLhttps://www.newageislam.com/urdu-section/hijab-saffron-shawls-karnataka/d/126356

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..