New Age Islam
Sat Jun 21 2025, 04:30 AM

Urdu Section ( 18 Oct 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Anti-Hijab Protests in Iran Turning Into a Mass Uprising Against the Theocratic System ایران میں حجاب مخالف مظاہرے تھیوکریٹک نظام کے خلاف عوامی بغاوت میں بدلتے جا رہے ہیں

 حجاب بہت سے ممالک میں ایک مسئلہ رہا ہے۔

 اہم نکات:

1.      سیکورٹی فورسز کی پٹائی سے ایک اور اسکولی لڑکی کی موت ہو گئی۔

2.      اب تک 233 خواتین فوت ہو چکی ہیں۔

3.      ان میں 38 لڑکیوں کی عمریں 18 سال سے کم تھیں۔

4.      مظاہرین نے بدنام زمانہ ایون جیل کو آگ لگا دی۔

5.      لوگ تھیوکریٹک حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

  ------

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 17 اکتوبر 2022

22-year-old Mahsa Amini was arrested on Tuesday by so called Iranian morality police.

---------

 ایران کی 22 سالہ لڑکی مہسا امینی کو 13 ستمبر کو اخلاقی پولیس نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ 16 ستمبر کو زخموں کی تاب نہ لا کر موت کے حوالے ہو گئی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی تھیوکریٹ حکومت کس طرح خواتین کے پردے کے پیچھے پڑی ہے۔ ایران کے قانون کے مطابق عورت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بالوں کو مکمل طور پر ڈھانپ لے۔ چونکہ اس نے اپنے بالوں کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپا تھا، اس لیے اسے اخلاقی پولیس نے اٹھا لیا اور اسے اس قدر مارا کہ اسکی جان ہی تلف ہو گئی۔

 مہسا کی موت نے حجاب کے خلاف ایک ملک گیر احتجاج کو جنم دیا اور آہستہ آہستہ یہ ایران کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا۔ اب یہ 20 سے زیادہ شہروں میں پھیل چکا ہے اور اپنے 5ویں ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 233 خواتین اب تک ہلاک ہوئی ہیں جن میں سے 38 کی عمریں 18 سال سے کم تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوان لڑکیاں بھی حجاب کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ گزشتہ روز اردبیل میں اسرا پناہی نامی ایک اسکولی لڑکی کو حجاب کی حمایت میں حکومت نواز ریلی میں شامل ہونے سے انکار کرنے پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ احتجاج کرنے والی خواتین پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے جنسی زیادتی کی خبریں بھی آئی ہیں۔ اسلامی حکومتوں میں حکومتوں کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کو بد چلن سمجھا جاتا ہے اور اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ اس سے زیادتی کی جائے۔ مصر میں مرسی حکومت کے خلاف خواتین کے مظاہروں کے دوران خواتین مظاہرین کو فاحشہ قرار دیا گیا اور حکومت کے حامی عملہ نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔ ایران میں بھی خواتین کو احتجاج کرنے اور حکومت کی حمایت میں ریلیوں میں شامل نہ ہونے پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہاں تک کہ انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔

 لیکن خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن نے ان خواتین کے عزم و حوصلے کو مزید تقویت بخشی ہے جنہیں تیل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے مردوں کی حمایت حاصل ہے۔ اب یہ احتجاج حجاب تک محدود نظر نہیں آتا۔ خواتین اور مرد اس تھیوکریٹک نظام کے خلاف مظاہروں میں شامل ہو گئے ہیں، جس میں ملا حکم دیتے ہیں کہ خواتین کو کیا پہننا چاہیے۔ ایک خاتون کارکن نے ٹویٹر پر لکھا:

 "کوئی غلطی نہ کریں، ایران میں مظاہرین اپنے مذہبی نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 'ہمیں اسلامی جمہوریہ نہیں چاہیے' اور "ملا گیٹ لاسٹ (ملوں ہمارا راستہ چھوڑو)" جیسے نعرے لگ رہے ہیں۔ وہ خمینی کی تصویریں جلا رہے ہیں۔ براہ کرم زمینی سطح پر جو ہو رہا ہے اسے صحیح صحیح دکھائیں۔"

Mahsa Amini, a 22-year-old Iranian woman who died in police custody in Iran

--------

یہ مظاہرے مزید زور پکڑتے جا رہے ہیں جو کہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ تہران کی بدنام زمانہ ایون جیل جو سیاسی قیدیوں پر مظالم ڈھانے، ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے اور بجلی کے جھٹکے دینے کے لیے مشہور ہے، اسے قیدیوں نے آگ لگا دی تھی۔ اس موقع پر فائرنگ کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 60 زخمی ہو گئے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ احتجاج مذہبی نظام کے خلاف عوامی بغاوت میں بدل چکا ہے جہاں ملا فیصلے کرتے ہیں۔ دنیا بھر سے انسانی حقوق کے کارکنوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے خواتین پر سخت حجاب کے نفاذ اور ان پر حملوں کی مذمت کی ہے۔

 ایشیائی، یورپی اور اسلامی ممالک میں حجاب ایک مسئلہ رہا ہے اور حکومتوں نے خواتین کے اس حق میں مداخلت کی ہے کہ وہ کیا پہننا چاہتی ہیں۔ بھارت میں لڑکیاں کالجوں میں حجاب پہننا چاہتی تھیں لیکن حکومت نے اس پر پابندی لگا دی۔ اب سپریم کورٹ کے ایک جج کا کہنا ہے کہ حجاب ایک انتخاب کا معاملہ ہے اور لڑکیوں کی تعلیم حجاب کے نفاذ سے زیادہ اہم ہے۔ ترکی میں بھی، اردگان کی حکومت نے حجاب پر پابندی لگا دی ہے، حالانکہ ترکی میں اکثر خواتین حجاب کو اپنی ثقافت اور روایت مان کر ترجیح دیتی ہیں۔ افغانستان میں خواتین سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم پر مکمل نقاب ڈالیں۔ ترکی کے نوبل انعام یافتہ اورہان پاموک نے ہندوستان، ترکی اور ایران کی حکومتوں کے اس رویے پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے اس حق کا احترام کیا جانا چاہیے کہ وہ کیا پہننا چاہتی ہیں۔ وہ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:

 "فرانس میں انہوں نے ہائی اسکول کی لڑکیوں کے حجاب پر پابندی لگا دی، یہ ٹھیک ہے۔ لیکن اگر آپ یونیورسٹی جانے والی خواتین کے لیے ایسا کرتے ہیں، تو یہ انسانی وقار کے خلاف ہے۔ یہی میرے ناول "Snow" کا موضوع ہے۔ ترکی میں ایک اقلیت کو اس کا حکم (سیکولر قوم پرستوں کی طرف سے سر پر اسکارف پر پابندی) دے رہی تھی۔ لیکن 65 فیصد سے زیادہ ترک خواتین نے سیاسی اسلام کے مظاہرے کے بجائے، ثقافتی اور روایتی معنوں میں سر پر اسکارف پہننے کا فیصلہ کیا۔ درحقیقت اردگان بھی ان خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور زبردستی نقاب ہٹائے جانے کے اس مسئلے کی بناء پر حکومت میں آئے تھے۔ آپ دیکھیں کہ ملک کے 70 سے 75 فیصد لوگ اس سے ناراض تھے۔ 'Snow' میں تھیٹر کا ایک منظر ہے جہاں عورت اپنا اسکارف اتار کر جلا دیتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ایرانی خواتین اب کر رہی ہیں۔ اب میں ان ایرانی خواتین کے ساتھ ہوں اور ان سے ہمدردی رکھتا ہوں۔ میں 'Snow' میں سر پر اسکارف کا دفاع نہیں کر رہا ہوں، میں خواتین کے اس حق کا دفاع کر رہا ہوں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ وہ کیا پہننا چاہتی ہیں، اور آیا وہ ہیڈ اسکارف پہننا چاہتی ہیں یا نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح یہ فیصلہ ان کا ہونا چاہیے کہ آیا وہ اسقاط حمل چاہتی ہیں یا نہیں، نہ ٹرمپ، نہ مودی اور نہ ہی اردگان - بلکہ اپنے معاملے میں خواتین خود فیصلہ کریں۔ اس پر میرا موقف بالکل لبرل ہے"

 آج مسلم اور غیر مسلم ممالک میں خواتین اور لڑکیاں اکثر حجاب پہننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ دنیا بھر کی مسلم خواتین میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو حجاب نہیں پہنتی لیکن وہ باشرافت لباس پہنتی ہیں۔ مسلمان خواتین بے ہودہ لباس نہیں پہنتیں اور نہ ہی تنگ لباس میں سڑکوں پر گھومتی ہیں۔ لیکن تھیوکریٹک حکومتوں نے تمام خواتین کے لیے ان کی عمر سے قطع نظر ان کے لیے یونیفارم مقرر کر رکھا ہے۔ مجوزہ لباس سے تھوڑا سا انحراف اس عمل کو دعوت دیتا ہے جو بعض اوقات موت کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ اسلام باطنی تقویٰ پر زور دیتا ہے اور مردوں اور عورتوں سے کہتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا سامنا کرتے وقت اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ قرآن صرف پاکبازی پر زور دیتا ہے اور اس پر کوئی سخت حکم نہیں سناتا کہ عورت کو کس قسم کا پردہ کرنا چاہیے۔ قرآن خواتین کو اپنی 'زینت' کو چھپانے کا بھی حکم دیتا ہے۔ اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ مسلم خواتین عوام میں عزت اور وقار کے ساتھ پیش آئیں۔

 ایران میں ہونے والے مظاہرے حجاب کے نفاذ پر خواتین کی اس مایوسی اور غصے کا مظاہرہ ہے جسے طویل عرصے سے دبایا جا رہا تھا۔ احتجاج اب صرف صرف پھیلے گا کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں اور حکومت پر ملاؤں کے کنٹرول کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

 مواصلات اور معلومات کی فراوانی کے اس جدید دور میں، لوگوں یا معاشرے کے کسی حصے کو تنہائی یا علیحدگی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ اپنے حقوق سے آگاہ ہیں اور انہیں قید نہیں کیا جا سکتا۔

 ایرانی خواتین تنگ لباس پہننے کی آزادی نہیں چاہتیں۔ وہ صرف اپنی پسند کے مطابق شریفانہ اور با حیا لباس پہننے کی آزادی چاہتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتی کہ اخلاقی پولیس ہر جگہ ان کا پیچھا کرے یہاں تک کہ جب وہ مسہا امینی کی طرح پارک میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہوں۔ جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایک پارک میں گھوم رہی تھی تو مہسا امینی کا اسکارف سر سے تھوڑا سا نیچے پھسل گیا تھا جو جس سے اس کے بال ظاہر ہو رہے تھے۔ گشت ارشاد نامی اخلاقی پولیس نے اسے 'غلط طریقے سے' حجاب پہننے پر گرفتار کیا تھا۔ تین دنوں بعد وہ مری ہوئی پائی گئی۔

 ایرانی حکومت امریکی پابندیوں کے اثرات کی زد میں ہے اور اس کی معیشت بری حالت میں ہے۔ اس لیے اسے حجاب جیسے معمولی مسائل کی بجائے معیشت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے ایران کی تھیوکریٹک حکومت نے ایک بڑی مصیبت کو دعوت دی ہے۔

-------------

 English Article: Anti-Hijab Protests in Iran Turning Into a Mass Uprising Against the Theocratic System

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/hijab-protests-iran-uprising-theocratic/d/128209

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..