کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
کیا اسلام میں عورتوں کو حجاب پہننا فرض ہے ؟
اہم نکات :
1. حجاب کے مسئلہ پر ہند
میں تنازع : اسلام میں عورتوں کے لیے حجاب،
نقاب، برقعہ، خمار اور شیلا جیسے لباس کی کیا اہمیت ہے ؟
2. اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غیر
محارم کے سامنے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔
3. مسلم خواتین پر فرض
ہے کہ وہ ستر عورت کا خیال رکھیں، جس کے لیے
انہیں اجازت ہے کہ اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق
حجاب، نقاب، خمار یا برقعہ یا کوئی ایسا لباس
پہنیں جس سے ستر عورت ہو سکے ۔
4. حجاب لگانے کا مقصد
صرف اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت و خوشنودی مقصود ہے ۔
5. حجاب اسلام کے فرائض میں سے ہے، جس پر دنیا بھر کی مسلم خواتین طاعت
الہی کی غرض سے عمل کرتی ہیں۔
۔۔۔
Students
wearing hijab and saffron shawls at MGM PU College in Udupi on Tuesday.
----
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں
'حجاب' کا مسئلہ دو فریقوں کے درمیان متنازع بن چکا ہے ۔طلبہ و طالبات اور انٹرنٹ صارفین
کی بھاری اکثریت نے مسلم خواتین کی حمایت میں سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی اور #HijabisOurRight بڑی تیزی سے ٹویٹر پر ایک ٹرینڈنگ موضوع بن گیا
۔
جب پرنسپل نے
حجاب میں ملبوس طالبات کو کلاس میں داخل ہونے سے منع کیا تو اس کے بعد ریاست میں مسلم طالبات نے کالج کیمپس کے باہر احتجاج کیا جس میں دلت طالبات
حجاب میں ملبوس طالبات کے ساتھ ہمدردی
کا اظہار کرنے کے لیے نیلے اسکارف پہنی ہوئی تھیں ، تو دوسری طرف ریاست میں کچھ
طلبہ و طالبات جوابی احتجاج میں زعفرانی لباس
میں ملبوس تھے ۔
حجاب دیکھتے ہی دیکھتے ہی سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ریاست کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف
بیانات دیتے نظر آ رہے ہیں۔ جہاں کانگریس نے آئینی حقوق کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلم طالبات کی حمایت کی، بی جے پی نے کلاس میں 'حجاب' پہننے
کی مخالفت کی۔ ریاستی صدر نے اعلان کیا کہ ریاستی حکومت تعلیمی نظام کی طالبانائزیشن
کو قبول نہیں کرے گی۔ دوسری طرف کانگریس ایم پی نے لوک سبھا میں کہا کہ مسلم عورتوں کے لیے حجاب ایسا ہی ہے جیسا کہ ہندو عورتوں کے لیے منگل سوتر، عیسائیوں کے لیے صلیب اور سکھوں کے لیے پگڑی۔
اس تحریر میں ہم جانیں گے
کہ حجاب کیا ہے اور اسلام کا حجاب کے تعلق سے کیا حکم دیتا ہے، نیز مسلم خواتین کے لیے دیگر قسم کے اسلامی
لباس بشمول نقاب، برقعہ، خمار اور شیلا کی اہمیت ہے ۔ عام زبان میں حجاب ایک ہیڈ
اسکارف کو کہتے ہیں جو بالوں اور گردن کو ڈھانپتا ہے۔ نقاب ایک پردہ ہے جو چہرے اور سر کو ڈھانپتا ہے
لیکن آنکھیں کھلی چھوڑ دیتا ہے۔ برقعہ عورت کے پورے جسم کو ڈھانپنے کے لیے استعمال
ہوتا ہے۔ یہ یا تو ایک ٹکڑا یا دو ٹکڑا لباس ہوسکتا ہے۔ خمار ایک لمبا اسکارف ہے جو
سر، سینے اور کندھوں کو ڈھانپتا ہے لیکن چہرہ بے نقاب چھوڑ دیتا ہے۔ شیلا کپڑے کا ایک
مستطیل ٹکڑا ہے جسے سر کے گرد لپیٹا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے آدھے نقاب کی شکل میں
پہنا جاتا ہے جس سے چہرے کا کچھ حصہ پہننے کے بعد
بھی ظاہر ہوتا ہے۔
گھر سے باہر یا گھر میں مسلم
خواتین ان میں سے کوئی بھی لباس اپنے بالوں
اور جسم کو ڈھانپنے کے لیے پہنتی ہیں تاکہ غیر محارم مردوں سے پردہ کیا جا سکے ۔ یہ تصور صرف اسلام میں
ہی نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب جیسے یہودیت اور
عیسائیت میں بھی دیکھا جاتا ہے۔
حجاب اور اسلام
اسلام میں اللہ تعالیٰ مردوں
اور عورتوں دونوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ نفوس کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے غیر محارم کے سامنے اپنی نگاہیں
نیچی رکھیں۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو ستر عورت کا حکم ہے ۔عورتوں کے لیے پورے جسم
کا پردہ فرض ہے اور یہ پردہ خواہ نقاب سے ہو یا حجاب سے ہو یا برقعہ سے ، یعنی کوئی
بھی ایسا لباس جس سے وہ اپنے جسم اور بالوں کو چھپا سکے اس سے پردہ کر لے ، اس میں
کسی خاص نوعیت کے حجاب کی تخصیص نہیں ۔
(Photo:
Flickr)
----
قرآن مجید میں حجاب کے تعلق
سے جو پہلا حکم نازل ہوا وہ سورہ احزاب کی آیت ۵۳ ہے
جس میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ
مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ
ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ
ترجمہ: اور جب تم ان سے برتنے
کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو، اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمہارے دلوں اور
ان کے دلوں کی اور تمہیں۔ (سورہ احزاب آیت ۵۳)
اس آیت مقدسہ میں حجاب لفظ
کا استعمال ہوا ہے اور مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی مومنہ عورتوں سے کوئی چیز
مانگو تو پردے کے باہر مانگو کیونکہ اس میں
ستھرائی ہے ۔آیت کا حکم عام ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ غیر محارم کے سامنے جب بھی کسی
ضرورت کے پیش نظر جاو تو پردہ ضروری ہے ۔
اس آیت کے بعد پردے کے تعلق
سے دوسرا حکم سورہ نور میں نازل ہوا جس کی آیت ۳۰ مردوں
کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے پھر اسی سورت کی اگلی آیت میں اللہ تعالی
نے عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے ۔
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا
مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ
ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ
إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾
یعنی: مسلمان مردوں کو حکم
دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت ستھرا
ہے، بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے(سورہ نور آیت ۳۰)
پھر اگلی آیت میں مومنہ عورتوں
کو حکم دیا گیا:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ
فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ
بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ
أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ
أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ
الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ
وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
﴿٣١﴾
یعنی: اور مسلمان عورتوں کو
حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ
دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں، اور اپنا
سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں
یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں
یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ
بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ
جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگھار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو! سب کے سب اس
امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (سورہ نور آیت ۳۱)
یغضوا، غض سے مشتق ہے جس کے معنی کم کرنے اور پست کرنے
کے ہیں ۔ اس آیت میں نگاہ نیچی رکھنے مراد نگاہ کو ان چیزوں سے پھیر لینا ہے جن کی
طرف دیکھنا اسلام میں جائز نہیں ہے ۔ مردوں کے لیے کسی عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا
حرام ہے اور بغیر کسی نیت کے دیکھنا بھی اچھی بات نہیں ہے یعنی یہ مکروہ ہے ۔ کسی غیر محرم عورت پر بلا ارادہ نظر پڑ جائے تو
کیا حکم ہے ؟ اس کا جواب ایک حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے حکم دیا کہ اپنی نظر اس طرف سے پھیر لو ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث میں آیا
ہے کہ کہ پہلی نظر تو معاف ہے دوسری گناہ ہے ۔یعنی اگر بلا ارادہ پہلی نظر پڑ جائے
تو معاف ہے لیکن دوسری بار ارادہ کے ساتھ دیکھنا ناجائز ہے ۔
مردوں کے لیے عورتوں کی مواضع ستر کو
دیکھنا حرام ہے اور عورتوں کے لیے مردوں کی مواضع ستر کو
دیکھنا حرام ہے ۔ مردوں کا مواضع ستر
ناف سے گھٹنوں تک ہے اور عورتوں کا مواضع ستر
پورا بدن سوائے چہرہ اور ہتھیلیوں کے ہے ۔ مواضع
ستر کو دیکھنا تو بالاتفاق حرام ہے
کیونکہ آیت مذکورہ کے حکم غض بصر کے خلاف ہے ۔ مواضع
ستر کو جب دیکھنا حرام تو ان کو چھپانا
فرض ہوا ۔ اب مواضع ستر کو چھپانے کے لیے مسلم
خواتین مختلف قسم کے لباس اپنی مرضی سے استعمال کرتی ہیں مثلا بعض خواتین حجاب پہنتی
ہیں ، بعض نقاب پہنتی ہیں ، بعض برقعہ پہنتی ہیں اور بعض خمار پہنتی ہیں ۔مسلم خواتین
اس معاملہ میں آزاد ہیں کہ وہ ان لباس میں سے کسی بھی ایسے لباس کو اختیار کر سکتی ہیں جن سے ان کا ستر اچھی
طرح چھپ سکے تاکہ قرآن کریم کے حکم پر کما
حقہ عمل ہو جائے ۔
The
High Court requested the student community and public at large to maintain
peace and tranquillity in Karnataka when the court is hearing legal arguments
on the ban on wearing hijab in colleges.
| Photo Credit: AP
-----
آیت مذکورہ میں اللہ تعالی
نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں
مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں، اور اپنا سنگھار
ظاہر نہ کریں’’۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ ‘‘مگر جتنا خود ہی ظاہر
ہے ’’ سے مراد عورتوں کا اوپری چارد مراد ہے ۔ جب مسلم خواتین گھر سے باہر کسی ضرورت
کے لیے نکلیں تو ان پر اسلام نے لازم کیا ہے
کہ وہ اپنے بدن کے تمام اعضا کو ڈھک کر نکلیں تو اس صورت میں غیر محارم صرف ان کے پردے کو دیکھ پائیں گے ۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ عورتوں کے لیے چہرہ
کھولنے کی اجازت پر فقہائے دین کے درمیان اختلاف ہے لیکن اس بات پر تمام ائمہ دین کا
اجماع ہے کہ اگر فتنہ کا خوف ہو یعنی لوگوں کی طرف سے بری نیت کا خوف ہو چہرہ ڈھکنا
بھی لازم ہے ۔
آج کل لفظ حجاب پر بعض لوگ
مناظرے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ لفظ حجاب قرآن میں نہیں آیا ،
خمار کا لفظ قرآن میں مستعمل ہے ۔ میں کہنا چاہوں گی کہ لفظ حجاب کا استعمال قرآن
کی سورت احزاب جیساکہ اوپر گزرا ہے میں ہوا ہے ۔ اور اصل بات سمجھنے کی ہے ۔ اس بات
کو تمام مناظرے کرنے والے بھی مانتے ہیں کہ
قرآن و سنت نے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے تو میں یہی بات لکھنا چاہوں گی کہ اصل مقصد پردہ کرنا ہے اور یہ پردہ جس لباس سے بھی
ہو جائے وہ مطلوب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم خواتین اپنی مرضی سے حجاب، برقعہ ، خمار اور
نقاب میں سے کسی ایک لباس کا استعمال کرتی
ہیں ۔ یہاں کسی بھی چیز کی پابندی نہیں ۔
اسلام نے حجاب کو مسلم خواتین
کے لیے فرض کیا ہے ۔ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے ۔ہمارے لیے
یہی کافی ہے کہ یہ ہمارے رب کریم کا حکم ہے ۔ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے ۔ ہماری صحابیات نے اس حکم پر عمل کیا ہے
۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہم اس پر عمل نہ کریں تو ہم حکم خدا کی نافرمانی میں گناہ
گار ہوجائیں گی ۔پردہ کرنے سے نہ کوئی طالبان بن سکتا ہے نہ کوئی داعش ۔پردہ کرنا ہمارے
لیے فرض ہے اور یہی ہمارا جمہوری حق بھی ہے ۔ اس سے ہمارا مقصد صرف اور صرف اللہ کی
رضا مقصود ہے ۔ جس طرح سے فرائض نماز چھوڑنا ہمارے لیے گناہ ہے اسی طرح پردہ کرنا چھوڑنا
بھی ہمارے لیے گناہ ہے ۔
متعدد احادیث طیبہ ہیں جن سے پردہ کی اہمیت و فضیلت ثابت
ہوتی ہے لیکن درج ذیل چند پر اکتفا کرتی ہوں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
سے مروی ہے کہ مسلمان عورتیں رسول اللہﷺ کے
ساتھ صبح کی نماز میں شریک ہوتیں اس حال میں کہ انہوں نے اپنے جسم کو چادروں میں لپیٹا
ہوتا، پھر وہ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گھروں کو واپس چلی جاتیں اور اندھیرے کی وجہ
سے ان کو کوئی پہچان بھی نہ پاتا تھا‘‘۔(صحیح البخاری)
اس حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب مسلمان عورتیں کسی کام سے گھر سے
باہر نکلتی تھیں تو اپنے سارے بدن کو ایک بڑی چادر میں لپیٹ لیتی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
سے دوسری روایت میں ہے کہ ایک عورت نے پردے
کے پیچھے سے ایک خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو دیا تو آپ صلی اللہ علیہ
آلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو سمیٹ لیا اور فرمایا: ‘‘مجھے معلوم نہیں کہ یہ مرد کا
ہاتھ ہے یا عورت کا ہاتھ ہے’’۔ تو اس عورت
نے کہا کہ میں عورت ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا: تو اگر عورت
ہے تو اپنے ناخنوں میں مہندی لگا تا کہ مرد اور عورت میں فرق ہوسکے‘‘۔ (سنن ابن داؤد)
اس حدیث سے بالکل ظاہر ہے کہ
مومونہ عورتیں جب نبی کریم صلی اللہ
علیہ آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو وہ حجاب میں ہوتی تھیں ۔
مذکورہ آیات و احادیث کے مطالعہ کے بعد پردہ کے تعلق سے کسی طرح کا کوئی شک نہیں۔ معلوم
یہ ہوا کہ پردہ کرنا فرض ہے اور یہ فرض چاہے مسلم خواتین حجاب سے پورا کریں یا نقاب
اور برقعہ وغیرہ سے ۔ اصل مقصود اخلاص ، اور طاعت الہی میں فرض کی ادائیگی ہے ۔
۔۔
کنیز فاطمہ سلطانی عالمہ و
فاضلہ ہیں اور وہ نیو ایج اسلام کی مستقل کالم نگار ہیں ۔
۔۔
English
Article: Hijab
Controversy: Why Do Muslim Women Wear Hijab And Niqab?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism