New Age Islam
Mon May 12 2025, 03:03 PM

Urdu Section ( 30 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A 'Higher Picture' of 'New India' ‘ نئے بھارت ’ کی ‘ بلند تصویر’

ڈاکٹر یامین انصاری

27 اگست،2023

اب اس میں کوئی شک نہیں کہ ‘ نئے بھارت’ میں نفرت، تعصب او ر تشدد نے اپنی بنیادیں مضبوط کرلی ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی روز نئی نئی شکل میں سامنے آرہی ہے اور اس کے نئے نئے کردار سامنے آرہے ہیں۔ کبھی یہ نفرت انگیز ی مسند اقتدار پر بیٹھے لوگوں کے ذریعہ سماج میں زہر گھولتی ہے۔کبھی مذہبی جلسوں اور جلوسوں میں فروغ پاتی ہے ۔کبھی وہ تہذیب وثقافت کے نام پر او رکبھی نام نہاد راشٹر واد کے نام پر ایک فرقہ پر حملہ آور ہوتی ہے۔نفرت انگیز ی کی جڑیں انتی مضبوط ہوچکی ہیں کہ اب فلموں میں ہی نہیں،سڑکوں پر ، ٹرینوں میں،بسوں میں ،بازاروں میں اور یہاں تک کہ تعلیم کے مندر اسکول کالجوں میں بھی یہ فرقہ پرستی رقص کرتی نظر آتی ہے۔ تعصب او ر نفرت کے بے لگام گھوڑے پر سوار فرقہ پرست اس کے بھیانک انجام سے بالکل بے خبر ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ایک طبقہ کو ہراساں کرکے، انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرکے ان کے مذہبی امور میں رخنہ اندازی کرکے ان کے کھانے پینے اور شکل وشباہت پرحملے کرکے،انہیں دوسرے درجہ کاشہری بنا کر اس ملک کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر لے جائیں گے، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ افسوس دنیا میں جس بھارت کی پہچان مہاتما گاندھی نے ‘عدم تشدد’ سے کروائی ،آج کا ‘نیا بھارت’ نفرت، تعصب او ر تشدد کی علامت بن گیا ہے۔

ابھی پورا ملک بلاتفریق مذہب وذات اس بات پر نازاں ہے کہ ہندوستان نے ‘چاند فتح’ کرلیا ہے۔ ہم نے ‘چندریان ۔3’؍ کی کامیابی کے ساتھ سائنس اور خلا میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں۔ لیکن ایک طرف ہم چاند پر کمندڈال رہے ہیں ، دنیا کی رہنمائی کا خواب دیکھ رہے ہیں، وشوگرو بننے کادعویٰ کررہے ہیں ،وہیں دوسری طرف ملک کو ایک گڑھے میں لے جارہے ہیں ، جہاں سے نکلنا ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں ہے۔ نفرت کی یہ دیوار یں دوفرقوں کے درمیان نہیں ، بلکہ چاند کے راستے میں حائل کی جارہی ہیں۔ کیسے ہم اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ ہم چاند پر ہیں؟آخر کیوں ہماری سائنس اور ‘ردور’ ملک میں پھیل ر ہی نفرت کو نشان زد نہیں کرپا رہے ہیں؟ حالات اس قدر شگفتہ بہ ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہورہا ہے کہ ہم ‘چندریان۔3’ کو ‘نئے بھارت’ کی سچی تصویر سمجھیں یا مظفر نگر کے اسکول میں پیش آیا واقعہ ہی،نئے بھارت’ کی حقیقت ہے؟ افسوس اس بات کا ہے کہ سماج میں نفرت تعصب اورتشدد کا یہ زہر نیچے سے اوپر کی طرف نہیں ،بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف آرہا ہے۔فرقہ پرستی کا یہ زہر سماج میں بہت گہرائی تک پیوست ہوچکا ہے ۔گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جب حکومت ، پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک طبقہ کے خلاف جتنے بھی مظالم کرلئے جائیں ملزمین کو کٹہرے میں نہیں بلکہ اقتدار کے ساتھ کھڑا پائیں گے۔حال ہی میں نوح میں پیش آئے واقعات اس کی تازہ مثال ہیں۔ملک کا انصاف پسند طبقہ جن لوگوں کو ان واقعات کااصل ـذمہ دار مانتا ہے وہ آرام سے ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویودے رہے ہیں اور دوسری طرف ایک ہی طبقہ کے تقریباً ایک ہزار مکانوں کو مسمار کردیا جاتا ہے، کاروبار تباہ کردیا جاتاہے اور سیکڑوں لوگوں کو جیلو ں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا تھا کہ مہاراشٹر میں چلتی ٹرین میں منافطرت کے زہر میں ڈوبا چیتن نام کا ایک سرکاری محافظ چن چن کر تین مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ مزید کو مارنے کاارادہ رکھتا ہے۔ پہلی نظر میں ذہنی بیمار قرار دے کر اس کے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہیں حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم ‘غدر2 ’ دیکھ کر نکلنے والے کس طرح اظہار کرتے ہیں ، اس سے ‘نئے بھارت’ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک رپورٹر فلم دیکھ کر نکلنے والی ایک جواں سال لڑکی سے پوچھتا ہے کہ فلم کیسی لگی ، وہ کہتی ہے کہ ‘بہت اچھی ہے، مسلمانوں کے چہرے پر جو خوف نظر آرہا ہے ، وہ مست ہے۔ اسی طرح ایک 94 سال کی ایک بوڑھی عورت سے جب وہ یہی سوال کرتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ ‘ارے اپنے لوگ اتنے مسلمانوں سے لڑے اس سے بڑے فخر کی بات کیا ہے۔ ملک میں نفرت کا زہر گھولنے والی فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کو قومی یکجہتی کے زمرے میں ‘نیشنل فلم ایوارڈ’ سے نوازا جاتا ہے ۔ اس فلم کی نمائش کے دوران سنیما گھروں سے لے کر سماج میں کسی قدر نفرت اور اشتعال کو پھیلایا گیا تھا وہ سب نے دیکھاتھا ۔ فلم کو نہ صرف ٹیکس فری کیا گیا ، بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں حکمراں طبقہ نے مفت میں فلم دکھانے کا انتظام کیا تھا۔ اب ایسے میں کسے دکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں، ۔آپ سوچیں کہ ظلم کے خلاف کس سے انصاف کی امید لگائیں ۔کس سے گفتگو اور مذاکرات کئے جائیں کہ فرقہ وارانہ اہم آہنگی برقرار رہ سکے۔ اس سوال کا جواب ان لوگوں کو بھی دینا چاہئے جو چاہتے ہیں کہ مظلوم خود مظالم کے سامنے دست بستہ ہوکر گزارش کرے کہ آؤ ملک میں امن وسکون قائم کریں۔

مظفر نگر کے اسکول میں پیش آیا واقعہ کیا کسی ایک ٹیچر کسی ایک بچے تک محدود ہے؟ شاید نہیں۔ یہ معاملہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے ۔ تعلیم کے مندر میں ایک خاتون ٹیچر نے جو شرمناک حرکت کی ہے، اس کے لئے مذمتی الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ اس نے نہ صرف استاذ کے مرتبہ اور اس کی شان کو ملیا میٹ کیا ہے، بلکہ نفرت میں ڈوبی اس خاتون نے آج کے بھارت کی حقیقت بیان کردی ہے۔ کبیر داس کا ایک دوہا ہے ‘گرو گووند دوؤ کھڑے، کاکے لاگو پائے’۔کبیر داس نے اس دوہے میں گرو یعنی استاد کی شان بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ زندگی میں کبھی کبھی ایسی صورت حال آتی ہے کہ جب گرو او ر گووند (بھگوان) ایک ساتھ کھڑے ہوجائیں تو پہلے کس کا احترام کیا جائے۔ لیکن مظفر نگر کے ‘نیہا پبلک اسکول’ کی ٹیچر ترپتا تیاگی نے بتادیا کہ نئے بھارت میں اب کبیر کا دوہا بے معنی ہے ۔کیا اس سے پہلے اس طرح کے واقعات کے بارے میں کوئی سوچ سکتا تھا؟ اگر کبھی ایسا ہوتابھی تھا تو شرمندگی اور احساس جرم کے سبب ملزم پانی پانی ہوجاتا تھا اور اس کے خلاف کارروائی یقینی ہوتی تھی، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ نفرت انگیزی کے اس دور میں نہ کوئی شرمندگی ہے ،نہ کسی جرم کا احساس اور نہ ہی کسی قانونی کارروائی کا خوف۔ مظلوم ہی خوفزدہ نظر آتا ہے۔ اسی لئے تو مظفر نگر میں ایک مسلم بچے کا کلاس میں الگ کھڑا کرکے ہندو بچوں سے پٹوایا جاتاہے اور مدھیہ پردیش میں صرف اس لئے ایک مسلم اسکول پربلڈوزر چلا دیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کی غیر مسلم بچیاں اسکارف پہنتی تھیں ۔اسکول کی پرنسپل ،ٹیچر اور سیکورٹی گارڈ کو طالبات کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ریاست کے دموہ میں ‘گنگاجمنا پبلک اسکول’ کی طرح مظفر نگر کے ‘نیہا پبلک اسکول’ میں ایسی کوئی کارروائی آپ کو نظر آئی ؟ نہیں، کیونکہ یہا ں مظلوم مسلمان ہے او رملزم ایک ہندو ہے۔ نئے بھارت میں ظالم اور مظلوم کے ساتھ انصاف او رنا انصافی کامطلب بھی بدل گیا ہے۔پچھلے چند برسوں کابی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں ، ایک ہی قسم کے جرم میں انصاف کے دوپیمانے نظر آتے ہیں۔ خوف او راحساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ مظفرنگر کے متاثر بچے کے والد نے پولیس سے شکایت تک نہیں کی۔بھلا ہوسوشل میڈیا پر سرگرم ان انصاف پسند ہندوستانیوں کا جن کی وجہ سے یہ معاملہ سامنے آیا ۔ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ جن ہندو بچوں سے مسلم بچے کو پٹوایا گیا ، ان کے والدین سامنے آتے اور ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ،مگر ایسا نہیں ہوا، کیونکہ یہی ‘نئے بھارت’ کی ‘بلند تصویر ’ہے۔

27 اگست ، 2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/higher-picture-new-india/d/130565

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..