New Age Islam
Wed Sep 18 2024, 02:52 AM

Urdu Section ( 27 Apr 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Helping Human Beings Regardless Of Religion or Creed, Is the Basic Teaching of Islam مصیبت کی گھڑی میں مذہب و مسلک کا لحاظ کئے بغیر تمام انسانوں کی مدد کرنا اسلام کی بنیادی تعلیم ہے

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

23اپریل،2021

 کورونا وائرس نے اس وقت پورے ملک بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے، لوگ جیسے درندہ جانوروں سے ڈرا کرتے تھے،آج آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں،پہلے زندہ انسانوں کے لئے جگہ کی تنگی تھی، اور لوگ سر چھپانے کے لئے زمین کے طلب گار ہوتے تھے، اب مردوں کے لئے بھی جگہ کم پڑ رہی ہے، نفسی نفسی کا عالم ہے، قرآن مجید نے قیامت کا نقشہ کھینچا ہے کہ لوگ اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے بھی راہ فرار اختیار کریں گے، آج اس کا ایک نمونہ لوگ اس میں دیکھ رہے ہیں،اسپتال تنگ پڑ گئے ہیں، بڑی بڑی رقمیں دے کر ایک بیڈ نہیں مل پارہا ہے۔

ان حالات نے بہت سے سماجی، معاشی اور نفسیاتی مسائل پیدا کردیئے ہیں،سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مذہب کے نمائندوں خاص کر دین حق کے حاملین کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ مذہب دوہرے رشتہ کو استوار کرتا ہے، وہ انسان کے دل میں خدا کی محبت بھی پیدا کرتاہے اور خدا کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کے جذبہ کو بھی پروان چڑھا تا ہے: اسی لئے یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ مذہبی مراکز پر کھانے کے عالم لنگر چلائے جاتے ہیں، جس میں بلا امتیاز مذہب و برادری ہر ایک کی بھو ک مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، ہمارے ملک میں اس کی بہترین مثال سکھ بھائیوں کے گرودارے ہیں، جن کے یہاں لنگر گرودوارے کے بنیادوں کاموں میں شامل ہے،مسلمانوں کے یہاں بھی بہت سی جگہ بزرگوں کے مزارات پر اس کا انتظام کیا گیا ہے،موجودہ وقت میں بھوک مٹانے سے زیادہ اہم ضرورت بیماروں کے لئے علاج کی سہولت فراہم کرنے کی ہے: کیوں کہ ہاسپیٹل اور سرکاری مراکز بھرے ہوئے ہیں، ابھی چند دنوں پہلے ایک باصلاحیت نوجوانوں عالم، صحافی اور سماجی کارکن کی وفات ہوئی،ان کے بارے میں خبر آئی کہ جب حالت نازک ہوئی تو یکے بعد یگرے بیس اسپتالوں میں لے جایا گیا: لیکن آئی سی یو کی سہولت حاصل نہیں ہوسکی، بالآخر ایک ایسے نرسنگ ہوم میں ایڈمٹ ہوئے،جس میں آئی سی یو کا شعبہ نہیں تھا، اور بہت تھوڑے وقت میں وہ دنیا کو الواداع کہتے ہوئے آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ ہاسپیٹل ہی نہیں قرنطینہ مراکز کی بھی بہت کمی ہے، بحیثیت مسلمان ہمیں غورکرنے کی ضرورت ہے کہ ان حالات میں ہمارا کیا رویہ ہوناچاہئے۔

گجرات کی ایک مسجد میں ضرورت کے تحت کووڈ کے مریضوں کو رکھا گیا ہے

----------

اسلامی تعلیمات اس سلسلہ میں بالکل واضح ہیں، اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کااُسوہ ہمارے سامنے ہے، آپ صرف مسلمانوں کے لئے رحمت نہیں، تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے رحمت تھے: وما ارسلناک الا رحمۃاللعالمین (انبیاء:107)انسانی بنیادوں پر حسن سلوک کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان کو مذہب و ملت سے بالاتر ہوکر انجام دینے کی ترغیب دی ہے۔ مشرکین مکہ جب پوری قوت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں پر یلغار کررہے تھے، اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا لحاظ رکھا، غور کیجئے کہ غزوہئ احد ہوچکا ہے، ستّر صحابہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کا زخم بالکل تازہ ہے، اسی زمانہ میں مکہ میں شدید قحط پڑا،لوگ درخت کے پتّے اور سوکھا ہوا چمڑا کھانے پر مجبور ہوگئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے قحط دورہونے کی دعاء بھی فرمائی، اور مدینہ کے فاقہ کش مہاجرین و انصار سے ریلیف وصول کر کے پانچ سو دینار ان کو بھجوائے،پانچ سو دینا ر کوئی معمولی رقم نہیں تھی، کیونکہ دینار سونے کا سکہ ہوتا ہے اور بیس دینار ساڑھے ستاسی گرام سونے کے برابر ہوتا ہے، نیز یہ خطیر رقم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے ان دوسرداروں کو تقسیم کے لئے بھیجی جو مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں پیش پیش تھے، یعنی ابوسفیان او رصفوان بن امیہ، جو بعدکو دامن اسلام میں آئے۔ یہ مصیبت کے وقت صرف غیر مسلموں کی مدد نہیں تھی،بلکہ جانی دشمنوں کی مدد تھی۔

غرض کہ مصیبت کی گھڑی میں مذہب و مسلک کا لحاظ کئے بغیر تمام انسانوں کی مدد کی جائے، یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ موجودہ صورت حال یوں تو برادران وطن کی طرح مسلمانوں کے لئے بھی تکلیف دہ ہے، مگر ایک داعیئ امت ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارے لئے ایک موقع بھی ہے۔ یہ موقع ہے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو پیش کرنے کا، موقع ہے نفرت کی اس آگ کو بجھانے کا جو فرقہ پرست عناصر کی طرف سے برادران وطن کے دلوں میں سلگائی جارہی ہے، موقع ہے اسلام کی رواداری، فراخدلی اور انسانیت پروری کو پیش کرنے کا، او رموقع ہے اس بات کو واضح کرنے کا یہ امت دنیا طلب قوموں کی طرح نہیں ہے، بلکہ داعی امت ہے، جو سیاسی مقاصد اور دنیاوی فوائد کے لئے نہیں،بلکہ اپنے خالق ومالک کو راضی کرنے اور آخرت کا اجر حاصل کرنے کیلئے انسانیت کی خدمت کرتی ہے، بیماروں کے لئے مسیحا بنتی ہے، غریبوں کے لئے بچھ جاتی ہے اور بے غرض ہوکر خدمت خلق کا کام انجام دیتی ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن میں قریب قریب ہر علاقہ میں مسلمانوں نے اپنی صلاحیت کے مطابق اس فریضہ کو انجام دیا، اور نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے باوجود حقیقت پسند لوگوں نے اس کا اعتراف کیا، اب جو کورونا کی نئی لہر آئی ہے، اس میں بھی بعض مسلمانوں نے اس میدان میں اپنے قدم بڑھا ئے ہیں، ملک کے کئی بڑے مدرسوں نے کورنٹائن کے لئے تمام سہولتوں کے ساتھ اپنی عمارتیں پیش کی ہیں، بعض جگہ مسجدوں کو بھی کووڈ سینٹر بنانے کی پیش کش کی گئی ہے، اور بلا تفریق مذہب وملت وہاں مریضوں کا علاج ہورہاہے، ضرورت ہے کہ اس کوشش کو اور آگے بڑھایا جائے۔بحمداللہ ملک کے چپہ چپہ میں مدارس ہیں، اچھی خاصی تعداد مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں کی ہے اور ہر شہر بلکہ قصبہ میں کشادہ مسجدیں موجود ہیں، جو تمام ضرورتوں سے آراستہ ہیں، نماز کے لئے مطلوب جگہ بچاتے ہوئے ان کو عارضی طور پر گورنمنٹ کو کورڈ سینٹر بنانے کے لئے پیش کیاجاسکتا ہے، اس سے لوگوں کو بڑی سہولت ہوگی، کیونکہ عام طور پر مسجدوں میں تمام بنیادی انفراسٹر کچر موجود ہوتا ہے، روشنی کا معقول انتظام،پنکھے، کھلا ہوا ہوا دار ماحول، استنجاء خانہ،وضو خانہ،پینے کا پانی، استعمال کا پانی، صفائی ستھرائی کا نظم، شوروغل سے حفاظت وغیرہ یہ روح کے مریضوں کے ساتھ ساتھ جسم کے مریضوں کے لئے بھی سازگار ماحول فراہم کرسکتا ہے، جہاں مسجدیں دو منزلہ ہوں، اور فی الحال ایک منزلہ نماز کے لئے کافی ہوتی ہو، یا جو مسجد یں کافی وسیع و عریض ہوں، ان کے ایک حصہ میں لکڑی کے پردے یا قناطیں گھیر کر نمازیں پڑھی جاسکتی ہوں، یا ایک حصہ اندر کا ہو او رایک حصہ برآمدہ کا ہو، وہاں فاضل جگہیں موجوودہ وبائی حالات کے لئے عارضی طور پر حکومت کو یا رفاہی جذبہ سے کام کرنے والے اسپتالوں کو یا چیریٹی اداروں کو دی جائیں او راس پر مسجد کی انتظامیہ کا کنٹر ول ہوتو اس سے سماج میں ایک اچھا پیغام جائے گا، اسلام کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے آئے گی، نفرت انگیز پروپیگنڈہ کا ازالہ ہوگا، اور کیا خوب ہو کہ اگر ایسے عارضی سینٹروں پر بورڈلگا دیا جائے: ”عارضی کووڈ سینٹر تحت مسجد۔۔۔۔۔۔۔“ (خالی جگہ میں مسجد کا نام آجائے)۔نیز وہاں حسب ضرورت ہندی یا مقامی زبان میں ترجمہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر انسانیت نواز ارشادات کے فریم لگا دیئے جائیں، یہ خاموش دعوت ہوگی، یہ ایک ایسی دعوت ہوگی جس میں زبان کے بول تو نہ ہوں گے، لیکن دلوں میں اترنے کی صلاحیت ہوگی، قرآن مجید نے برادران انسانیت کو مانوس کرنے کے لئے ”تالیف قلب“ کا جو لفظ استعمال کیا ہے، اس مقصد کی تکمیل ہوگی، حسب حالات جگہ دینے سے آگے بڑھ کر مریضوں او ران کے تیمار داروں کے لئے کھانے پینے کا انتظام بھی کردیا جائے تو یہ اور بھی بہتر صورت ہوگی، او ربحمداللہ مسلمانوں میں عمومی طور پر خیر کا جذبہ قابل قدر ہے، خود لاک ڈاؤن کی اس مصیبت میں غربت او رمعاشی پستی کے باوجود مسلمانوں نے جو قربانی دی ہے، وہ انسانی خدمت کا ایک روشن باب ہے اور ضرورت ہے کہ اس کو نمایاں کیا جائے۔

مدارس و مکاتب، مسلم اسکولوں اور اداروں میں اگر ایسے سینٹر قائم کئے جائیں تو اس کے درست ہونے پر تو شاید کوئی اشکال نہ ہو؛ لیکن مسجدوں کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عمل درست ہوگا؟ کیا غیر مسلم حضرات کو مسجد میں ٹھہرایا جا سکتا ہے، جو عقیدہ کی نجاست کے علاوہ جسمانی طور پر بھی طہارت و نجاست کے اصول پر کاربند نہیں ہوتے؟ اور کیا یہاں مریضوں کو ٹھہرانا مسجد کے ادب کے خلاف نہیں ہوگا؟ کیوں کہ اس میں مسجد کے گندگی سے آلودہ ہونے کا اندیشہ ہے؟

 اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ حالت اختیار اور حالت مجبوری کے احکام الگ الگ ہوتے ہیں، عام حالات میں مسجدوں کو مسافر خانہ اور اسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، یہ مسجد کے مقصد کے بھی خلاف ہے اور ادب کے بھی؛ لیکن اِس و قت مجبوری کی صورت حال ہے، اور شریعت نے قدم قدم پر انسانی مجبوریوں کی رعایت ملحوظ رکھی ہے، اُسوۂ نبوی کی روشنی میں غور کیجئے تو مسجدوں میں غیر مسلم حضرات کے آنے اور ٹھہرنے کا ثبوت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجران کے عیسائیوں کا وفد آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا؛ حالاں کہ وہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے (بخاری، حدیث نمبر: ۴۳۸۱)۔ قبیلہ بنو ثقیف کا وفد خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ ؐ نے ان کے لئے مسجد میں خیمہ لگایا، صحابہؓ نے عرض کیا: یہ تو ناپاک لوگ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جواب میں ارشاد فرمایا: کہ انسان نجاست سے ناپاک ہو جاتا ہے، زمین ناپاک نہیں ہوتی: انہ لیس علی الأرض من أنجاس الناس شئی (طحاوی: ۱؍۱۳)

غزوہ بدر میں جو مشرکین قید کئے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد ہی میں ٹھہرایا، قبیلہ بنو حنیفہ کے ثمامہؓ بن اثال قید کئے گئے، وہ بھی مسجد میں ہی ٹھہرائے گئے، (بخاری، حدیث نمبر: ۴۶۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مختلف غیر مسلم قبائل کے وفود آیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر ان کو مسجد نبوی ہی میں ٹھہرایا کرتے تھے، وہیں ان کا قیام ہوتا تھا، اور وہیں ان سے گفتگو ہوتی تھی؛ اس لئے اگر مسجد میں ایسے غیرمسلموں کو ٹھہرایا جائے جو شرپسندی کے جذبہ سے نہیں آئے ہوں تو اس کی گنجائش ہے، محدثین وفقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔

جہاں تک مسجد میں مریضوں کو ٹھہرانے کی بات ہے تو بلا ضرورت ایسا کرنا واقعی مناسب نہیں، یہ بھی مسجد کے مقصد اور ادب کے خلاف ہے؛ لیکن اگر دوسری مناسب جگہ فراہم نہ ہو اور اس وجہ سے مسجد میں مریضوں کاعارضی قیام کرایا جائے تو اس میں حرج نظر نہیں آتا، خود رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں اس کی مثال موجود ہے۔

غزوۂ خندق کے موقع سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدید زخمی ہوگئے تھے، ان کا گھر مسجد سے دور تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اپنی خصوصی نگہداشت میں انہیں رکھیں اور ان کی بہتر دیکھ ریکھ کریں؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ کے اندر اُن کے لئے خیمہ لگوایا، اُس وقت مسجد میں قبیلہ بنو غفار کا بھی ایک خیمہ تھا، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم سے رِسنے والا خون بہہ کر بنو غفار کے خیمہ تک پہنچ گیا تو وہ گھبرا گئے، انہوں نے پوچھا کہ اس خیمہ سے خون کیوں آرہا ہے؟ پھر معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم سے بہنے والا خون ہے، آخر اسی میں ان کی وفات ہوگئی، (بخاری، حدیث نمبر: ۴۶۳، باب الخیمۃ فی المسجد للمرضیٰ وغیرھم) اس سے شارحین حدیث اور فقہاء نے یہ بات اخذ کی ہے کہ ضرورت وحاجت کی بناء پر مسجد میں مریض کو رکھا جا سکتا ہے: جواز التمریض .......فی المسجد للضرورۃ والحاجۃ (منار القاری شرح البخاری: ۲؍۳۶)

موجودہ حالات میں اگر سرکاری اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے ، پرائیویٹ اسپتال بھی بھرے ہوئے ہیں، یا اُن میں جگہ ہو لیکن غریب مریضوں کے اندر اُن کا ظالمانہ بِل ادا کرنے کی صلاحیت نہ ہو، اور کسی خیراتی ادارہ کو ایسے مریضوں کے لئے وقتی طور پر جگہ مطلوب ہو تو ان کو مسجد میں جگہ فراہم کرنے کی گنجائش ہے، اور اگر مسجد کی بجائے مدرسہ یا ملی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی کوئی عمارت ہو تو یہ تو اور بھی بہتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ برادران وطن کے سامنے خاموش دعوت پیش کرنے کا بہترین موقع اور بہت ہی مؤثر ذریعہ ہے، کاش، مسلم تنظیمیں، ادارے اور مساجد کے ذمہ داران اس پر توجہ کریں!

23اپریل،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/helping-human-beings-regardless-religion/d/124742


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..