New Age Islam
Sun Apr 20 2025, 06:07 PM

Urdu Section ( 8 Aug 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Series of Trials Started With Hazrat Ibrahim and Ended With Imam Hussain سلسلۂ آزمائش جو حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوا تھا، امام حسین ؓ پر آکر ختم ہوا

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

5 اگست 2022

’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیمؑ  کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا : میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا، انہوں نے عرض کیا : (کیا) میری اولاد میں سے بھی؟ ارشاد ہوا (ہاں مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔‘‘ (البقره:۱۲۴)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اپنے اولوالعزم اور بزرگ پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کرنے، ان سے کامیابی سے گزرنے اور پھر اس پر انعام کا تذکرہ فرمایا ہے۔

جو لوگ آزمائش سے بھاگ جاتے ہیں وہ پست رہتے ہیں اور جو لوگ آزمائش کو سینے سے لگاتے ہیں وہ عظیم ہوجاتے ہیں۔ آزمائش ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی، آزمائش میں ڈالا بھی اسی کو جاتا ہے جس سے اللہ کو پیار ہوتا ہے۔ اس  نے حضرت ابراہیم ؑسے پیار کیا اور اس پیار کے نتیجے میں انہیں آزمائش میں ڈلا اور وہ ہر آزمائش میں سرخرو رہے۔ سلسلۂ آزمائش جو حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوا تھا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر آکر ختم ہوا۔

اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیمؑ کو آزمایا اور جب وہ ہر بات میں اور ہر آزمائش میں کامیاب ہوگئے تو ان سے انعام کے طور پر فرمایا :

’’اے ابراہیم! تم معیار پر پورا اترے ہو،  میری آزمائشوں میں کامیاب ہوئے ہو، لہٰذا  ’’بے شک میں تمہیں  انسانیت کا امام بناؤں گا۔‘‘

انبیاء کے بہت سے سلسلے ہوئے مگر وہ سارے سلسلے اللہ تعالیٰ نے جدالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع فرماکر ان کو منبع و سرچشمہ بنادیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا : باری تعالیٰ میری اولاد کو بھی امامت دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ابراہیم تمہاری ذریت (اولاد) کو بھی امامت دوںگا مگر امامت ان کو ملے گی جو ظالم نہیں ہوںگے۔‘‘ پس معلوم ہوا کہ ظالم کبھی امام نہیں ہوتا۔ امامت حق سے ملتی ہے… جو امام ہوتا ہے وہ حق پر ہوتا ہے… جو لوگ سیدھی راہ پر ہوں وہ بھی حق پر ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے دو نعمتوں کا ذکر فرمایا :   

نعمت نبوت اور نعمت امامت۔

آپ نے دعا کی باری تعالیٰ تو نے دو نعمتوں نبوت اور امامت کا ذکر کیا ہے، امامت کی بات سمجھ میں آگئی کہ میری ذریت میں ہوگی، باہر نہیں جاسکتی۔ اب نبوت کا بھی کرم کردے کہ وہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن پر نبوت ختم ہوگی وہ بھی میری ذریت کو عطا فرمادے، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی۔

’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے۔‘‘(البقرہ : ۱۲۹)

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو بھی شرفِ قبولیت عطا فرمایا اور نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺآپ ہی کی ذریت میں سے تشریف لائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا جس پتھر پر کھڑے ہوکر مانگی، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس پتھر نے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان کو محفوظ کرلیا۔ وہ پتھر مقام ابراہیم علیہ السلام کے نام سے آج بھی حرم کعبہ میں محفوظ ہے۔

چاہت ِ مصطفیٰ ؐ کو دوام ہے

اس بات کو چار ہزار سال گزر گئے، سب پتھروں پر اگر نشان پڑے بھی تھے تو مٹ گئے۔ مگر چار ہزار سال میں اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کا نشان آج تک نہ مٹ سکا نہ مٹایا جاسکا۔ حضرت ابراہیمؑ نے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہا تھا اور اس چاہنے کی یہ علامت سامنے آئی کہ مقام ابراہیم کا نشان نہ مٹ سکا اور ادھر جب خود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو چاہا تھا… امام حسینؓ کو کندھوں پر بٹھایا…  آپؐ  سجدہ کرتے تو امام حسین ؓ  کندھوں پر ہوتے۔ جب حضورؐ امام حسین ؓ کو چاہ رہے ہیں تو پھر آپؓ کا ذکر کون مٹا سکتا ہے… ایک بدبخت یزید کیا، کروڑ بدبخت یزید بھی ہوجائیں تو ذکر امام حسین رضی اللہ عنہ نہ مٹا ہے اور نہ مٹے گا۔

حضرت علیؓ کی ولایت کا اعلان

ایک سمندر ولایت و معرفت کا ہے اور ایک سمندر عصمت و طہارت کا ہے۔ معرفت و ولایت کا سمندر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عصمت و طہارت کا سمندر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔

’’حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے (راستے میں) ہم نے غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں ندا دی گئی کہ نماز کھڑی ہوگئی ہے اور رسول اکرم ﷺ کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپؐ  نے فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اسے تو دوست رکھ جو اسے (علی کو) دوست رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھے۔‘‘(احمد بن حنبل، المسند)

اس اعلان غدیر کے بعد آج تک جس کا علی، ولی ہے اسی کا نبی ولی ہے…  اسی کا ولی مصطفیٰ ؐ  ہیں اور اس کا ولی خدا ہے…  اور جو علی ؓ  کو ولی نہیں جانتا نہ محمدؐ اس کے ولی ہیں  اور نہ خدا اس کا ولی ہے۔

ولایت اور شہادت

’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘‘(البقره:۱۵۴)

ذکر رسالت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ذکر شہادت کیا ہے اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ خون شہادت کے ذریعے ہمیشہ کائنات میں امامت کا فیض جاری و ساری رہے گا اور امامت کا فیض خون شہادت کے ذریعے ہی فروغ پائے گا۔ یہی وجہ ہے شہادتیں تو بہت ہوئیں اور طبعی اموات بھی بہت ہوئیں مگر باب ولایت کا فاتح یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے… ولی ثانی امام ثانی حسن مجتبیٰ بھی شہید ہوئے…  امام حسین رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔سلسلہ ٔ امامت میں اکثر آئمہ اطہار نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔ قرآن پاک کی اس آیت سے امامت و شہادت کے تعلق کی تفسیری تائید حاصل ہوئی کہ شہادت و امامت کا آپس میں ایک تعلق ہے اس لئے کہ امامت کبھی باطل سے سمجھوتہ نہیں کرتی اور نتیجتاً شہادت اس کا مقدر بنتی ہے۔

نامِ حسین ؓ ، عطائے الہٰی

حدیث مبارکہ ہے کہ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حسن پیدا ہوئے تو ان کا نام حمزہ رکھا اور جب حسین  کی ولادت ہوئی تو ان کا نام ان کے چچا کے نام پر جعفر رکھا۔ مجھے نبی کریمؐ نے بلا کر فرمایا : مجھے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ میں نے عرض کیا : اﷲ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے نام حسن و حسین رکھے۔‘‘  عمران بن سلیمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جو کہ دورِ جاہلیت میں پہلے کبھی نہیں رکھے گئے تھے۔

 تاجدار کائناتؐ کی بارگاہ میں حسنین کریمین کی محبوبیت

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین علیہما السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر (سوار) دیکھا تو حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے! آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا :  ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔‘‘

پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور چاہت سے محبت کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حبِّ اہل بیت و حسنین کریمین رضی اللہ عنہما میں استقامت عطا فرمائے۔ آمین

5 اگست 2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/hazrat-ibrahim-imam-hussain/d/127665

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..