New Age Islam
Thu May 15 2025, 05:41 PM

Urdu Section ( 20 May 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Great Personality of Indian Civilization: Hazrat Amir Khusrau ہندوستانی تہذیب کی عبقری شخصیت: حضرت امیر خسرو

ڈاکٹر فیا ض عالم

19 مئی، 2024

حضرت امیر خسرو تیرہویں صدی کے وہ نالغہ شخص ہیں جن کی چشم دوربین سے سرزمین ہندوستان ایک ایسی دلہن نظر آتی ہے جو عروسی جوڑے میں تمامی زیورات پر تکلیف کی آرائش کے ساتھ اپنی نیم آنکھوں کے سمندر میں جذبات کی گوناگوں لہریں سمیٹے سارے جہاں کو دعوت دے رہی ہو۔ اپنے سے والہانہ عشق کرنے اور اصناف ادب میں وطن عزیز کی تمام رعنائیوں کو سمیٹ کر اسے مجسم کردینے کا فن امیر خسرو جانتے تھے۔ وہ گنگا جمنی تہذیب جس کی مثال ہندوستان ہے اس ”گنگا جمنی تہذیب“ کو سب سے پہلے خسرو نے پہچانا او راسے ایک متن بنادیا، جس کے ہزار ہا باب آج بھی تشریح طلب ہے۔امیر خسرو اس ملک کی تہذیب وثقافت، کھان پان، رہن سہن، آداب و اطوار، پوشاک یہاں کی خوبصورتی، اس شہر کی آرائش و زیبائش ان کے نزدیک دلی عدل وصداقت کا خزانہ ہے جو اپنی اچھائیوں کے باعث جنت سے کم نہیں امیر خسرو نے یہاں کے لوگوں کے مزاج او رماحول کا بخوبی مطالعہ کیا تھا اور اپنی عقل وبصیرت سے انہوں نے اسے الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کاکام کیا۔

”ایشائی شاعری پر یہ عام اعتراض ہے کہ خاص خاص چیزوں پر نظمیں لکھیں گئیں،مثلاً قلم کاغذ، کشی، دریا، شمع، صراحی، جام، خاص میوں اور پھل وغیرہ پر ایسی مسلسل او رلمبی نظمیں نہیں ملتیں، جن سے ان کی تصویر آنکھوں میں پھرجائے۔ امیر خسرو نے ایشائی شاعری کی اس کمی کو پورا کردیاہے۔ انہوں نے قرآن السعد ین میں اکثراسی قسم کی نظمیں لکھی ہیں۔ او راس کتاب سے ان کا بڑا مقصد اسی قسم کی شاعری کانمونہ قائم کرتا تھا۔“

صفحہ 136-135 عرلحجم۔جلد دوم۔ شبلی نعمانی امیر خسرو کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک پورے دبستان کا نام ہے، جہاں ادب، فلسفہ، تصوف، نجوم، موسیقی اور خلق سے محبت جیسی تمام چیزیں یکجا نظر آتی ہیں۔ ان کا شمار ہندوستان کی ان عظیم شخصیات میں ہوتاہے جنہوں نے اس ملک کی مشترکہ تہذیب کو فروغ دینے میں اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ خسرو نے اس ملک کے متعلق بہت کچھ لکھا او رجو کچھ بھی لکھا دل سے لکھا۔ اپنی تخلیقات وتصنیفات میں نہ صرف انہوں نے اس ملک کی ہر چھوٹی بڑی اشیاء کو جگہ دی بلکہ ہندوستان میں پیدا ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ اس سرزمین پر پیدا ہواہوں جو دنیا کے تمام ممالک سے بہتر ہے۔

آنست یکی کیں زمین ازدور زمن

ہست مرا مولد و مادی وطن

خسرو کو اپنے ملک سے حد درجہ محبت رہی، جس کا اظہار وہ بار بار کرتے ملیں۔کبھی ’کشورہنداست بہشتی برزمیں،یعنی روئے زمین پر ہندوستان جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔کہہ کر اپنی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہیں، تو کبھی اس ملک کی خوبصورتی جگانے کیلئے فردوس کا لفظ استعمال کرتے نظر آتے ہیں:

اگر فردوس برروئے زمیں است

ہمیں است وہمیں است وہمیں است

خسرو کی حب الوطنی کے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:

”ہندوستان کے عشق صادق او ر سچے وطن پرست تھے۔ اپنی شاعری میں جہاں جہاں وہ ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں، ان کی روح وجد میں آجاتی ہے اورجیسے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں۔ مثنوی، نہ سپہر،اس کا سب سے بڑا او راہم ثبوت ہے تیسرا باب پورا ہندوستان کی تعریف میں ہے“۔

امیر خسرو ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی خوبیاں گنانے میں کوئی کسر نہیں باقی رکھتے۔وہ ہندوستان مذہب کو دنیا کے تمام مذہب سے تقابل کرنے کے بعد اسنتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دنیا میں اسلام کے بعد کوئی اہم مذہب ہے، جس میں امن،اخوت، بھائی چارہ اور مساوات کی بات ہوتی ہے تو وہ ہندو مذہب ہے۔دراصل وہ ہندوؤں او رمسلمانوں کو قریب سے قریب ترلانا چاہتے ہیں۔

کافر عشقم مسلمانی مرا درکارنیست

ہررگ من تارگشتہ حاجت زنا رنیست

خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی میں کند

آرے آرے میں کنم یا خلق وعالم کا رنیست

امیر خسرو کو ہندوستان کے ندی، جھرنے، دریا سے بے حد پیار ہے۔ وہ ہندوستانی ندیوں کو نیل،دجلہ اور فرات جیسی ندیوں سے کئی گنابہتر گردانتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر گنگا جمنا جیسی ندیاں دوسرے ممالک میں رہتی تودجلہ فرات کو لوگ بھول جاتے۔

کس کزگنگ ہندوستان بود دور

زنیل دوجلہ لافدہست معذور

امیر خسرو کے مطابق وہی لوگ دجلہ اور دریائے نیل کی تعریف کرسکتے ہیں، جنہوں نے ہندوستان کی ندی گنگا کو نہیں دیکھا۔شہر دہل کے متعلق لکھتے ہیں:

”جمنا کے دونوں طرف اس شہر کی آبادی تھی اور یہ دریا آبادی کو اس طرح تقسیم کرتاتھا جیسے دجلہ بغداد کو یہی وجہ تھی کہ جمنا میں ہروقت چھوٹی بڑی کشتیاں چلتی رہتی تھیں“۔

زبان ہندی کے متعلق لکھا ہے

از تبع ہندی برآں تراست

”فارسی زبان کو ہندوستان کی زبانوں سے قریب لانے کے لئے وہاس بات پر زور دیتے تھے کہ اس میں عربی الفاظ زیادہ تر استعمال نہ کئے جائیں“۔

(صفحہ 94/ امیر خسرو عہد،فن اور شخصیت،عرش ملسیانی)

خسرو ہندوستان کی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے یہاں ساون کے گیت،بادلوں کاآنا، دیوالی کی روشنی، ہولی کارنگ، عید کی خوشی، اور خربوزے کی مٹھاس، سرسوں، گیندا اور چمیلی کی خوشبو کوئل کی کوک، مور کے ناچ،ندی، کسان او رکسان کے لباس۔لہلہاتی فصل، عام بول چال کی زبان او رمحاورات جیسی تمام تلمیحات بہت ہی دل آویزانہ انداز میں دیکھنے کوملتی ہیں۔ پروفیسر آذری دخت صفوی لکھتی ہیں:

”خسرو کی غزل فقط ہندوستان کے محیط وماحول کے چار چوپ میں بند نہیں۔ہاں ان کی غزلوں کے ایک متعدد حصے ہیں۔ رمزیت۔الفاظ کا دروبست ملائم و تخیل کی کارفرمائی،استعارے کا نظام، انتزالہ فکر اور معنی آفرینی کی گوناگوں صلاحیت اس کو سبک مندی سے نزدیک او رکلاسیکی ایرانی غزل سرایوں سے مختلف اور متماز ضرور ٹھہراتے ہیں“۔

خسرو کی شاعری کی خصوصیت ان کے لہجے کی نرمی، شیریں بیانی، محاورات کا برمحل استعمال او ردلکش الفاظ کا انتخاب ہے جو انہیں دوسرے شعراء سے ممتاز کرتے ہیں۔ ا ن کے کلام میں ہندوستانی،فارسی، سنسکرت عربی او رہندی کے الفاظ کا خوبصورت استعمال وامتزاج او ر عوامی زندگی، روزمرہ کے مسائل، رسم ورواج، باغ، پھول، جھولا،خوشبو جیسی تمام چیزوں کی تفصیلات ملتی ہیں۔خسرو کی شاعری محبت کی شاعری ہے جس میں امن بھائی چارہ، میل جول،شانتی اور عقیدت کا حسین سنگم دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ تمام باتیں تخیلی نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک دھڑکتے دل کی آوازیں ہیں۔ایک ایسی آوازجہاں نفرت اور شدت پسندی کے لئے کی کوئی جگہ نہیں ہر جگہ محبت آمیز، نصیحت او رحکایات کے ذریعہ عوام کو صحیح راستے پر لے جانے کی ترغیب نظر آتی ہے۔ خسرو کی شاعری کے متعلق علامہ شبلی شعر النجم میں لکھتے ہیں:

ہندوستان میں چھ سو برس سے آج تک اس درجہ کا جا مع کمالات نہیں پیدا ہوا اور سچ پوچھو تو اس قدر مختلف او رگوناگوں اوصاف کے جامع،ایران، روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو ہی چار پیدا کئے ہوں گے۔ صرف ایک شاعری لوتوان کی جامعیت پر حیرت ہوتی ہے، فردوسی، سعدی، انوری، عرفی، نظیری بے شبہ اقلیم سخن کے بادشاہ ہیں، لیکن ان کی دور حکومت ایک اقلیم سے آگے نہیں بڑھتی۔فردوسی مثنوی سے آگے نہیں بڑھ سکتا، سعدی قصیدہ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، انوری مثنوی نہیں بڑھ سکتا، سعدی سعدی قصیدہ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، انوری مثنوی او رغزل کو چھو نہیں سکتے۔ حافظ عرفی، نظیری غزل کے دائرے سے نہیں نکل سکتے لیکن امیر صاحب کی جہانگیری میں غزل، مثنوی، قصیدہ،رباعی سب کچھ داخل ہے او رچھوٹے چھوٹے خط ہائے سخن یعنی نظمیں، متزاد اور ضائع وبدائع کا تو شمار نہیں“ تعداد کے لحاظ سے دیکھو تو اس خصوصیت میں کسی کو ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں ہوسکتا۔فردو سی کے اشعار کی تعداد کم وبیش ستر ہزار ہے۔ صائب نے ایک لاکھ شعر سے زیادہ کہا ہے۔ لیکن امیر خسرو کے کلام کئی لاکھ سے کم نہیں۔اکثر تذکروں میں امیر خسرو کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کا کلام تین لاکھ سے زیادہ او رچار لاکھ سے کم ہے۔“

119-118 /عرالحجم۔جلد دو م۔ شبلی نعمانی 119-118 انہوں نے لاتعداد نادرغزلیں کہی ہیں۔ جن میں فصاحت وبلاغت، حکیمانہ اورفلسفیانہ افکار موجود ہیں۔امیر خسرو کی شاعری میں ”وحدت الوجود“ کی گہری چھاپ بھی نمایاں ہے خسرو کی شاعری میں محبت کا ہندوستانی انداز غالب ہے۔وہ عورت کے جذبات کو اظہار کی آزادی عطا کرتے ہیں۔خسرو نے اپنے اراضی میلانات کو تصوف کے پردے میں چھپانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ ان کی شاعری وصل وفراق میں وارفتہ خیالی کو جنم دیتی ہے۔شاعری میں عورت کے جذبات کو بیان کرنے کا انداز خسرو کے ہاں منفرد ہے۔ انہوں نے اردو غزل کو ایک انوکھی لے سے متعارف کروایا۔انہوں نے غزل میں نغمگی عطا کی اور اسے دوہے سے ہم آہنگ کرنے کاکام کیا۔ شبلی نعمانی امیر خسرو کی غزلوں کی زبان او راس میں استعمال ہونے والے محاورات کے متعلق لکھتے ہیں۔

”امیر خسرو کی غزلیں اکثر اسٹرہان میں ہوتی ہیں کہ گویا دو آدمی آپس میں بیٹھ کر بالکل بے تکلف سیدھی سادی باتیں کررہے ہیں اس میں کہیں کہیں خاص محاور ے بھی آجاتے ہیں جو ہم کواس لئے کسی قدر نامانوس معلوم ہوتے ہیں کہ ہم کو اس زمانے کے روز مرہ کے محاورات سے واقفیت نہیں۔

دل بے بردہ آنکھ بشناس

آں کہ مجروح تر ازان من است

یعنی ”تم نے بہت سے دل لئے ہیں۔ خوب غور کرکے دیکھ جو بہت زخمی ہووہی میرا دلہ ہے۔“

صفحہ 161-160 شعر الحجم جلددوم۔شبلی نعمانی امیر خسرو نے شاعری میں رائج عام بول چال کے الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا ہے، ساتھ ہی محاورات کا استعمال بھی اتنی خوبصورتی سے کیاہے کہ شاعری میں اچھوتے انداز، نئے مضامین اور جدید اسلوب کی امیزش سے شاعری میں شیرنیت لانے کی کامیاب سعی کی ہے۔ یہی ان کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیت بھی ہے اور یہی ان کی ہر دلعزیز ی کی بڑی وجہ بھی ہے جس کے متعلق سید غلام سمنانی لکھتے ہیں:

”خسرو کی حیثیت ہر دور میں مسلم او رہر بڑے شاعر و ادیب کے نزدیک ان کی شخصیت محبوب رہی ہے۔ عوام نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا،خواص نے ان کو سر پر بٹھا یا۔ صوفیہ کے حلقہ میں وہ شمع بزم رہے او رمیخانے انہیں اپنی محفل کا صدر نشیکن کیا۔ شاہوں اور شہزادوں نے انہیں عزیز رکھا۔ یہ ان کے دل کی وسعت وکشادگی نگاہ کی بلندی سخن کی دلنوازی اور جاں کی پرسوزی ہے جس نے انہیں اس منصب عالی پر فائز کیا“۔

(صفحہ 64-63 /امیر خسرو۔سید غلام سمنانی)

امیر خسرو کو ادب کی بہت ساری صنعتوں کا موجد بھی مانا جاتا ہے۔ قالی، قطع، دو سخنے پہیلی کے علاوہ موسیقی میں خیال اور طلبہ کے ایجاد کا رشتہ بھی ان سے استوار کیا جاتاہے۔ خسرو کو ہندوستانی کے ساتھ ساتھ ایرانی موسیقی کے اسولون میں بھی مہارت راگ او رتال ایجاد کئے جن میں مجیر،سازگوری، ایمن،موافق، عشاق، زیلف،سرپردہ، فردوست، فرغنہ، ہاخرز اور تالوں میں جھمرا، تریتال، آڑا چار تال، پستو،سول فانک وغیرہ اہم ہیں۔ ڈاختر سید اختیار جعفری لکھتے ہیں:

”انہیں طوطی ہنداو رابوال ایجادات بھی کہا جاتاہے۔بے شمار ارباب اقتدار وحکومت بے حساب اساطین علم وادب اور لاتعداد شہرہ آفاق فضلاء واہل کمال ہیں۔ وہ واحد شخصیت ہیں جن کو ہر دور اور فن میں مرکز نگاہ کی حیثیت حاصل رہی۔رزم وبزم سے لے کر زبان وادب او رموسیقی سے لے کر تصوف تک زندگی کی کوئی جہت ایسی نہیں جس میں امیر خسرو سرفہرست نہ ہوں۔ وہ رہنما بھی ہیں۔ اور رہ نورد بھی۔ امیرخسرو نہ صرف ایک عظیم شاعر او رنثر نگار تھے بلکہ ایک صوفی، سپاہی، مدبر، سیاست داں ، ماہر سماجیات، امیر، حکیم، فلسفی مفکر، ماہر نفسیات، فقیہہ، واعظ،معلم اخلاق،علم وریاض کے ماہر، فلکیات،ستارہ شناس، قانون قضا کے مفتر، مورح، داستان نویس، ادیب،انشا پرواز، خوش نویس،نقاد،لفت نویس، موسیقار اور دور اندیش قوی سپہ سالار تھے۔ اسی کے ساتھ وہ قواعد زبان وصنائع بدائع او رعلم عروض کے ماہر تھے زبان شناس، سخن فہم،پہیلی نویس، بدیہہ گو، لطائف گو، مغنی مطرب، جنگ نواز سازو آواز اور سنگیت کے مسلم استاد تھے بلہ بہت سے فارسی وہندوستانی راگوں کے موجد بھی تھے“۔

19 مئی،2024،بشکریہ: روزنامہ اخبار مشرق، کولکاتہ

-------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/hazrat-amir-khusrau-indian-civilization/d/132349

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..