نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
30 مئی 2023
پاکستان میں گزشتہ ایک سال
سے سیاسی اتھل پتھل اور انتشار اپنے عروج پر ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں فوج کی مدد سے
اپوزیشن اتحاد نے عمران خان کی منتخب عوامی حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا اور شہباز شریف
کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد کی حکومت قائم ہوئی تھی جس میں نواز شریف کی پی ایم ایل
بلاول بھٹو کی پی پی پی اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے علاوہ دیگر چھوٹی پارٹیاں
شامل ہیں۔ عمران خان نے معزولی کے بعد سے حکمراں جماعت کے خلاف سیاسی محاذ کھول رکھا
ہے۔ انہوں نے پورے ملک میں جلسے جلوس کئے اور عوام کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوئے
کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ دوسری طرف اس سیاسی انتشار کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت
جو پہلے ہی ابتر تھی اور بھی زیادہ خراب ہو گئی اورمہنگائی آسمان چھونے لگی۔
اسی بیچ سپریم کورٹ نے ملک
میں 14 مئی تک انتخابات کرانے کا حکم دیا لیکن حکومت نے الیکشن ہار جانے کے ڈر سے انتخابات
نہیں کرائے۔ اس دوران حکومت نے عمران خان کو ملک سے باہر بھگانے کے لئے ان پر بدعنوانی
اور دہشت گردی کے 100 سے زیادہ کیس درج کردئے اور انہیں یہ پیشکش کی کہ اگر وہ ملک
چھوڑ کر جانا چاہیں تو ان کے لئے حکومت کی طرف سے طیارے کا انتظام بھی کردیا جائے گا۔
لیکن عمران خان ملک چھوڑنے کے لئے راضی نہیںن ہوئے اور انتخابات کرانے پر اصرار کرتے
رہے۔ اسی دوران انہیں مئی کے پہلے ہفتے میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر سماجی
کارکنوں اور پی ٹی آئی کے ورکروں نے اور عمران خان کے حامیوں نے اسلام آباد اور لاہور
اور دیگر شہروں میں احتجاج کیا۔ کئی جگہوں پر یہ احتجاج متشدد ہوگئے اور ہجوم نےفوجی
املاک کو نقصان پینچایا۔ پی ٹی آئی کا مؤقف یہ ہے کہ اس کے ورکر پرامن احتجاج کررہے
تھے۔ اور نامعلوم۔نقاب پوش افراد نے تخریبی کارروائی کی۔
چونکہ احتجاج میں بڑی تعداد
میں خواتین بھی تھیں اس لئے احتجاج کے بعد پولیس نے مردوں کے ساتھ خواتین اور کم عمر
لڑکیوں کو بھی گرفتار کیا۔ ان میں صنم جاوید طیبہ راجا ڈاکٹر یاسمین راشد اور خدیجہ
شاہ جیسی تعلیم یافتہ خواتین بھی تھیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد ستر سالہ بزرگ خاتون ہیں
اور پی ٹی آئی کی رکن ہیں۔ صنم جاوید,اور طیبہ راجہ سماجی کارکن ہیں جبکہ خدیجہ شاہ
پاکستان فوج کے سابق آرمی چیف کی نواسی اور فیشن ذیزائنر ہیں۔وہ اعلان نام۔کا اپنے
ڈیزائنر ویئر کی کمپنی چلاتی ہیں۔
ان گرفتاریوں کا افسوسناک
پہلو یہ ہے کہ پولیس نے خواتین کے ساتھ انتہائی نازیبا,سلوک روا رکھا ہے۔پولیس نےگرفتاریوں
کے وقت خواتین کو گندی گندی گالیاں دیں ، ان کے جسم کو غلط طریقے ہاتھ لگایا ۔ یہاں
تک کہ ایک جگہ پر خواتین کو گرفتار کرتے وقت پولیس,والوں نے اپنی پینٹ کی زپ کھول کر
کہا کہ یہ ہے تمہاری عزت۔ کچھ عورتوں کو مردوں کے ساتھ ہی بند کیا گیا۔ ایک بڑی شہر
کے پولیس آفیسر نے ایک صحافی سے گمنامی کی شرط پر بتایا کہ انہیں اعلی افسر نے کہا
ہے کہ گرفتار خواتین کے ساتھ بد سلوکی کریں۔ پی ٹی آئی کے ایک لیڈر ابرارالحق نے جب
حکومت اور پولیس کے دباؤ میں پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا تو پولیس اس کے گھر اسے
گرفتار کرنے گئی ۔ اسے نہ پاکر پولیس نے اس کی بیوی کے ساتھ بدسلوکی کی۔ ڈی ایس پی
نے فون پر ایک پولیس افسر سے کہا کہ اس کے کپڑے اتار لو۔ یہ سن کر ابرارالحق کی بیوی
نے فورا فون پر اپنے شوہر کو یہ بات بتائی۔ ابرارالحق نے آنا فاناً پریس کلب جاکر پریس
کانفرنس کرکے میڈیا کو یہ بات بتائی۔
طیبہ راجہ کو جب پولیس گرفتار
کرنے لگی تو پولیس نے اسے گندی گندی گالیاں دیں جس پر اس نے اپنا دوپٹہ پولیس پر پھینک
دیا تاکہ پولیس کو غیرت آئے۔ لیکن پاکستانی پولیس سے غیرت کی امید رکھنا حماقت ہے۔
پولیس اسے گھسیٹتی ہوئی لے گئی۔ اور اسے صنم جاوید کے ساتھ لاہور کے تھانہ چنگ میں
حوالات میں رکھا جہاں اس رات کوئی خاتون اہلکار نہیں تھی۔ رات کو اسے تھانے کی پہلی
منزل پر بلایا گیا ۔ اس نے جانے سے انکار کیا ۔ رات کو کئی تھانوں کے پولیس افسر آئے
اور ان دونوں کو اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کرتے رہے۔ ان دونوں نے کافی شور شرابہ
کیا تو وہ لوگ وہاں سے گئے۔
طیبہ راجہ اور صنم جاوید کو
دو دنوں کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تو عدالت سے نکلتے ہی انہیں دوبارہ
گرفتار کرلیا گیا۔ اب دونوں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔ اور ان کے ساتھ کیا سلوک
ہورہا ہے کسی کو پتہ نہیں ہے۔
اسی دوران عمران خان نے پریس
کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی کچھ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے اور کچھ لڑکمسن لڑکوں
کے ساتھ بدفعلی ہوئی ہے۔اسی رات 26 مئی کو بارہ بجے وزیر خارجہ رانا ثناءاللہ نے ایک
ہنگامی پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ ان کی ا ٹلی جنسی ایجنسی نے ایک فون کال پکڑا
ہے جس میں پی ٹی آئ سے وابستہ دو افراد بات کر رہے تھے کہ جیل۔میں بند کسی خاتون کے
ساتھ ریپ کا ڈرامہ کیا جائے گا اور پھر اس کا,الزام حکومت اور پولیس پر دھر دیا جائیگا۔
اس پریس کانفرنس کے بعد پورے
ملک میں خاتون قیدیوں کے متعلق تشویش کی لہر پھیل گئی۔ میڈیا کے تجزیہ نگاروں نے اس
کانفرنس کا یہ نتیجہ نکالا کہ جیل۔میں بند پی ٹی آئی کی کسی خاتون یا کئی خواتین کے
ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لئے حکومت نے پہلے سے ہی ایک ماحول
بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ اگر خواتین جیل سے باہر آنے کے بعد جنسی زیادتی کا انکشاف
کریں تو حکومت اس کا الزام۔پی ٹی آئی پر ہی ڈال دیں۔ اس دوران خدیجہ شاہ، طیبہ راجہ
اور صنم جاوید کے متعلق کوئی جان کاری پولیس اور حکومت پریس اور ان کے گھروالوں کو
نہیں دے رہی ہے۔ حدیجہ شاہ کے متعلق یہ خبر آئی کہ ان کی طبیعت جیل۔میں خراب ہوگئی
اس لئے انہیں ہسپتال منتقل کیا گیاہے۔ ان کے پیٹ میں درد ہے۔ واضح ہو کہ خدیجہ شاہ
دمہ کی بھی مرییضہ ہیں۔
اس پریس کانفرنس کے دوسرے
دن جب سوشل۔میڈیا پر خدیجہ شاہ کےمتعلق طرح طرح کی باتیں گردش کرہی تھیں، خدیجہ کا
ایک ویڈیو منظر عام۔پر آیا جس میں وہ کسی کمرے میں بیٹھی اپنے موبائیل پر دیکھ کر
9 مئی کے واقعات پر اپنی ندامت کا اظہار کررہی تھیں اور اپنی غلطی کا,اعتراف کررہی
تھیں۔جانکار ذرائع کے مطابق یہ ویڈیو ان کی گرفتاری سے پہلے کی ہے جب وہ اپنی دوست
پنجاب کے وزیراعلی جہانگیر ترین کی بیٹی مہرترین کے گھر میں روپوش تھیں۔غالبا وہ ویڈیو
حکومت کی طرف سے خدیجہ شاہ کے متعلق پھیلی ہوئی تشویش کو کم کرنے کے مقصد سے منظر عام
پر لائی گئی۔ لیکن اس ویڈیو نے خدیجہ شاہ کے تعلق سے عوام۔کے خدشات میں اضافہ کردیا
ہے۔۔ حکومت کی طرف سے خواتین کے متعلق خاموشی اور رازداری سے شکوک و شبہات میں شدت
آتی جارہی ہے۔
عدالت نے 30۔مئی کو خدیجہ
شاہ کے کیس کی شنوائی کی تاریخ رکھی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پولیس اس دن اسے عدالت میں
پیش کرتی ہے یا کوئی اور عذر پیش کرتی ہے۔پاکستان کی پولیس اکثر زیر حراست قیدیوں کی
حراست سے انکار کردیتی ہے اور عدالت کچھ نہیں کرپاتی۔پولیس نے صحافی عمران ریاض خان
کو گرفتار کیا اور پھر رات کے 2 بجے اسے جیل سے نکال کر نامعلوم۔نقاب پوش افراد کے
حوالے کردیا اور پھر عدالت سے کہہ دیا کہ ہم نے اسے رہا کردیا تھا اب وہ ہمارے پاس
نہیں ہے۔ وہ خود ہی کہیں روپوش ہو گئے ہیں۔ایسا کہا جارہا ہے کہ گرفتار کی گئی کئی
خواتین سے متعلق پولیس نے کہا ہے کہ وہ حراست میں نہیں ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ خدیجہ
شاہ اور دیگر خواتین کے متعلق بھی پولیس عدالت سے کہہ دے کہ وہ اس کے پاس نہیں ہیں۔
تازہ ترین سوشل میڈیا رپورٹ
کے مطابق صرف خدیجہ شاہ نہیں بلکہ کئی دیگر خواتینن کے ساتھ بھی جیل۔میں شناختی پریڈ
کے دوران زیادتی کی گئی ہے۔ اور خواتین باہر آکر اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو بیان
کرینگی۔حکومت اس بات سے ڈری ہوئی ہے اور پورے ملک میں ایک بے چینی اور خوف کا ماحول
ہے۔ اگر ان خواتین کے ساتھ واقعی کچھ برا ہوا ہے تو اس سے ملک میں ایک بار پھر غم وغصہ
کی لہر دوڑ جائیگی اور برسراقتار پارٹیوں اور فوج کے لئے عوام کے دلوں میں جو نفرت
پھیلی ہوئی ہے اس میں مزید,اضافہ ہو جائیگا۔
اس دوران پاکستان کے ٹی وی
چینلوں کا کردار بہت ہی مایوس کن رہا۔ جیو ٹی وی، سما ٹی وی اور این ٹی وی نے خاص طور
سے منفی کردار ادا کیا۔ ان چینلوں کے اینکروں نے گرفتار خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی
اور زیادتی کو بلیک آؤٹ کیا۔کیونکہ یہ چینل حکومت کے حاشیہ بردار ہیں۔ جبکہ تمام دن
ان پر عمران خان ان کی پارٹی اور ان کے ورکروں کے خلاف مہم چلائی جاتی رہی۔ تقریبا،
تمام چینل ہر روز عمران خان کو چھوڑ کر جانے والے لیڈروں کا شمار بتاتے رہے۔ اور کس
دن کتنی وکٹیں گریں یہ بتاتے رہے لیکن خدیجہ شاہ طیبہ راجہ اور صنم جاوید کے ساتھ ہونے
والی زیادتیوں اور دیگر زیر حراست افراد کے متعلق کوئی خبر نہیں چلائی گئی۔ یہاں تک
کہ جب رانا ثناء اللہ کی پریس کانفرنس کے بعد دوسرےدن یوٹیوب پر خدیجہ شاہ اور دیگر
زیر حراست خواتین کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا تو اس دن این ٹی وی کے مشہور
اینکر جاوید چوہدری حیرت انگیز طور پر اچانک جاپان پینچ گئے تھے اور ماؤنٹ فوجی یاما
کے پاس کھڑے ہو کر فوجی پربت کی خوب خوب صورتی کا ذکر کررہے تھے۔ پاکستان کے مشہور
صحافی منصور علی خان حسب معمول سما ٹی وی پر عمران کی گرنے والی وکٹوں کی خبر دے رہے
تھے۔ اور جیو ٹی وی لندن میں نواز شریف پر ہونے والے جان لیوا خبر کی جھوٹی خبر چلا
رہا تھا۔
پاکستان کے علماء اور مذہبی
جماعتوں کے لیڈران نے بھی بڑی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ اپنے ذاتی مفادات کے لئے یا سیاسی
اقتدار یا مراعات کے لئے ان مذہبی یا مسلکی جماعتوں سے وابستہ علماء سڑکوں پر نکل آتے
ہیں اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ لیکن خواتین کی بے حرمتی اور کم
سن بچوں جوانوں اور عمردراز خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر وہ سب اجتماعی طور
پر خاموش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جو شہباز شریف کی حکومت کے اتحادی ہیں اس بحران کے
وقت تھائی لینڈ چلے گئے ہیں۔لوگ پوچھ رہے ہیں کہ تھائی لینڈ میں کوئی اسلامی کانفرنس
ہے یا کوئی سرکاری وفد گیا ہے۔۔ان کے قریبی حلقے کا کہنا ہے کہ ملک میں تناؤ بہت ہے
اس لئے تناؤ دور کرنے گئے ہیں۔ ایک یو ٹیوب صحافی نے کہا کہ تھائی لینڈ میں اور کچھ
تو نہیں ہے لیکن وہاں کی مساج بہت مشہور ہے۔کچھ روز قبل پاکستان کی ایک بدنام خاتون
حریم۔شاہ نے مولانا فضل الحمن کے کچھ مخصوص شوق کا ذکر کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جب
وہ قطر میں ٹھہرے تھے تو انہوں نے ایجنٹ سے فرمائش کی تھی کہ ان کے لئے شی۔میل کا انتظام
کریں۔ ملک کے ایک اور عالم۔دین مولانا عبدالقوی کے متعلق بھی حریم شاہ نازیبا الزام۔لگا
چکی ہیں۔
مولانا تقی عثمانی کچھ عرصہ
قبل عمران کے خلاف اور فوج کے حق میں بیان دے چکے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل ملک کے سرکردہ
علماء سے مریم۔نواز خطاب کر کے ان سے عمران خان کے خلاف تعاون کی درخواست کرچکی ہیں۔لہذا
علماء اب شہباز حکومت کے خلاف زبان نہیں کھول سکتے کیونکہ شہباز حکومت کے خلاف جانے
کا مطلب ہے فوج کے خلاف جانا۔
ایسے میں مظلوم خواتین کے
حق میں چند وکلاء اور یوٹیوب کے صحافی ہی کھڑے ہیں اور ان کی رہائی اور حقوق کے لئیے
اپنی بساط بھر آواز اٹھارہے ہیں۔
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism