ڈاکٹرمحمد علی ربانی
12 اکتوبر،2021
شمسی کلینڈر میں۲۰؍مہرماہ(۱۲؍اکتوبر)
یوم حافظ ہے۔ یہ دن ایک ایسے شاعرسے منسوب ہے جس کی محبت بہت سے لوگوں کی روحوں کی
گہرائیوں میں ہے اور جن کی شاعری ان کے ذہنوں اور زبانوں پر نقش ہے۔ ایک ایسا شاعر
جو ہر عمر اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ حافظ فارسی شعروادب کا ایک
چمکتا ستارہ ہے۔ ایران اور بیرون ملک ان کا شعری مجموعہ ان کے چاہنے والوں کے لیے
دلچسپی کا باعث ہے۔ حافظ کے بارے میں بہت کچھ لکھاگیا ہے اور ان کی سوانح عمری یا
نظموں کے مجموعے پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ حافظ کی شاعری فصیح و بلیغ
ہے،خوبصورت ہے اور جو بھی اسے پڑھتاہے وہ اس کا عاشق ہوجاتاہے۔
حافظ کوعشقیہ شاعرکہا گیا
ہے۔اور جذبۂ عشق تصوف وعرفان کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے، کیونکہ اس کے بغیر،
فلسفہ تصوف کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ صوفیانہ ادب میں، محبت کو ایک اعلیٰ درجہ حاصل
ہے۔ اس لیے صوفیانہ ادب کا ایک بڑا حصہ اس موضوع کے لیے وقف ہے۔ صوفیانہ ادب میں،
خاص طور پر حافظ اور رومی کے الفاظ میں، محبت کو دو پہلوؤں سے پرکھا جا سکتا ہے۔
مجازی یا انسانی محبت اور حقیقی یا صوفیانہ محبت۔ اگرچہ ماہرین نے اس سلسلے میں
مختلف اور بعض اوقات متضاد آراء دی ہیں، لیکن ان شاعروں کے کلام کے مواد سے جو
کچھ دیکھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی یا مجازی محبت بھی انہیں خدائی محبت کے
لیے پل کی طرح لگتا ہے یااُسے سچائی کی طرف لے جاتا ہے، جو کہ خدائی محبت حاصل
کرنا ہے کیونکہ عرفانی شعراء کی رائے میں دنیا کی تمام خوبصورتی حضرت حق کی تجلی و
مظہر کے سوا کچھ نہیں۔ حافظ ان شاعروں میں سے ہیں جن کے بنیادی اخلاقی اصول ان
خیالات سے ماخوذ ہیں جو تصوف کے لفافے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ حافظ کی شاعری انسانی
فطرت کے تصورات کے ساتھ ہے اور بشریات حافظ کے کاموں کے مرکزی موضوعات میں سے ایک
ہے۔ حافظ کی شاعری ان کی روح، عقائد، ذوق، خیالات اور انسان، دنیا، فطرت اور مافوق
الفطرت کے آئینے کی طرح ہے۔ یہاں حافظ، جو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان تمام الٰہی
صفات کا مظہر ہے، انسان کو ’’جام جام‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ بشریات کے نقطہ نظر سے،
حافظ انسان کو ایک ارتقائی ذمہ دار اور خود مختاروجود سمجھتے ہیں، اوران کا خیال
ہے کہ انسان فطرت اوردیگر خدا کی مخلوقات کے مطابق ہونا چاہیے، اور خدا کی مخلوق
سے اجنبی انسان تخلیق کا راز نہیں سمجھ سکتا۔
بشوی اوراق اگر ہم درس
مایی
کہ علمِ عشق در دفتر
نباشد
حافظ کو ایک ایسی آنکھ
کی تلاش ہے جو دنیا کو جوڑ سکے اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدائی ہنر کو محسوس
کرسکے اور حرف حق سننے کے لئے سراپاگوش رہے۔
حافظ نے معاشرے میں امید
اور محبت کوعام کرنے اور اسے آگہی اور خوشی کی دعوت دینے کی لازوال کوششیں کی
ہیں: حافظ نے پاکیزہ سے محبت کے جوہر کو اپنے اشعارکے ذریعے مظلوم معاشرے میں
تازگی اور جوش بھرنے کا کام کیا ہے۔
حافظ اور ان کی نظمیں
دنیا بھر کی محبت سی قوموں میں مشہور ہیں۔ حافظ برصغیر میں بڑا اثر ڈالنے میں
کامیاب ہوئے اور مشہور ہندوستانی شاعر ٹیگور اور ان کے والد سمیت عظیم ہندوستانی
شخصیات اور شاعروں میں مقبول ہیں۔
چونکہ اسلامی تصوف فارسی
زبان کے ذریعے ہندوستان تک پہنچا، حافظ کوہندوستان میں ایران کے سب سے بڑے صوفی
شاعروں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ حافظ کی صوفیانہ غزلیات کا ورثہ پوری
دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ حافظ کی بہت سے سی غزلیں ہندوستانی گلوکار بھی گاتے ہیں۔
حافظ نے ہندوستان کی کئی عظیم شخصیات کو متاثر کیا ہے۔ ٹیگور نے اپنے سفرنامے میں
حافظ کے مقبرے کی زیارت کے بارے میں لکھا: جب میں حافظ کی قبر کے پاس بیٹھا تو
میرے ذہن پر ایک روشن کرن کوند گئی، حافظ کی تجلیاں آج بھی بہار کے سورج کی طرح چمک رہی ہیں۔مجھے یہ محسوس ہوتاہے کہ اتنی صدیوں میں بہت سے آئے
اور چلے گئے۔ لیکن مجھے حافظ کی قبر کے پاس بیٹھنا حافظ کے ساتھ سفر جیسا لگتا ہے۔
حافظ کو ہندوستان میں بہت
اہم مقام حاصل ہے۔ ایک بہت بڑا واقعہ جس کی تصدیق بہت سے ادبی مورخین نے کی ہے وہ
یہ ہے کہ حافظ کو کچھ بادشاہوں نے ہندوستان مدعو کیا تھا۔ بنگال کے سلطان قیام
الدین نے حافظ کو مدعو کیا، لیکن حافظ اس لمبے فاصلے کے سفر میں دلچسپی نہیں رکھتے
تھے۔ لیکن سلطان قیام الدین کی دعوت کے احترام میں، انہوں نے اسے ایک غزل بھیجی ،
ہندوستان کے وزیر اعظم کے دورہ ایران کے دوران، حافظ کے دیوان کی ایک نایاب کاپی،
جورامپور کی رضا لائبریری میں رکھی گئی تھی اور ایک خصوصی ایڈیشن کے طور پر دوبارہ
شائع کی گئی، قائد اسلامی جمہوریہ کو پیش کی گئی۔
بظاہر سب سے پرانی کتاب
جس میں حافظ کی زندگی کے بارے میں ایک کہانی ہے ''لطائف اشرفی'' ہندوستانی صوفی
سید اشرف الدین جہانگیر سمنانی نے لکھی ہے۔ تاہم، اس کتاب کے کچھ حصوں میں، وہ
حافظ کے ساتھ سید اشرف الدین کی ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہیں، اور انہیں
''مجذوب شیرازی'' کہتے ہیں۔ آذری طوسی ایک اور فارسی شاعر ہیں جنہوں نے حافظ کو
دکن کے سلطانوں کے دربار میں تفصیل سے بیان کیا: شواہد کے مطابق، عظیم ہندوستانی
شاعر حافظ کی نظموں سے متاثر تھے۔ اور بظاہر حافظ کی نظمیں اپنی زندگی کے وقت سے
ہی ہندوستان پہنچ چکی ہوں گی۔ اور فارسی شعروادب کے شائقین کی توجہ کا مرکز بنی
ہوںگی۔
ہندوستان میں حافظ کی
کامیابی کی ایک اہم وجہ ہندوستان گورکانی بادشاہوں اور عادل شاہیان بیجا پور کی
جانب سے حافظ کی غزل کی نظموں کی طرف توجہ دینا اور اکبربادشاہ، جہانگیر اور کئی
دوسرے بادشاہوں کے دور میں حافظ خوانی کا رواج ہے۔ ہندوستان میں حافظ کی کامیابی
اور مقبولیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس سرزمین کے فارسی زبان کے مصنّفین حافظ سے
متاثر ہوئے اور اپنے کاموں کو حافظ کی نظموں سے سجایا۔ حافظ کی تفسیریں اور تشریحات
بھی ہیں اور حافظ کے دیوان بنگالی، پنجابی، ہندی، مراٹھی اور انگریزی زبانوں میں
شائع ہوچکے ہیں، اور ان زبانوں میں حافظ کے تیس سے زائد تراجم ہیں، اور اسی کے
مطابق ایک شرح دیوان حافظ بھی لکھی گئی تھی اور پچاس سال پہلے تک ہندوستانی
لائبریریوں میں حافظ کے 400 نسخے دستیاب تھے۔جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ
حافظ ،ہندو ایران کے ادبی اور ثقافتی رابطوں میں اہم پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
12 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism