آفتاب عالم،
نیو ایج اسلام
23 اگست 2023
"کسی بھی قوم کی تاریخ
موجودہ اور آنے والی نسلوں کو پریشان نہیں کر سکتی… جب تک کہ آنے والی نسلیں ماضی کے
قیدی بن جائیں"، یہ فروری 2023 میں سپریم کورٹ نے غیر ملکی حملہ آوروں کے نام
پر رکھے گئے تاریخی شہروں کے نام تبدیل کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا۔
گیان واپی
مسجد
------
مندرجہ بالا تبصرے کے باوجود، سپریم
کورٹ نے 4 اگست کو وارانسی ڈسٹرکٹ جج کے اس حکم پر روک لگانا گوارا نہیں کیا جس میں
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ گیانواپی مسجد کے احاطے کی جہاں ضرورت ہو وہاں
کھدائی سمیت ایک تفصیلی سائنسی سروے کرنے کی بات کہی گئی ہے، تا کہ اس بات کا تعین
کیا جا سکے کہ آیا یہ ڈھانچہ کسی مندر پر بنایا گیا تھا یا نہیں۔ تاہم، سپریم کورٹ
نے ہدایت دی ہے کہ سروے کے دوران اس جگہ پر "کوئی کھدائی" نہیں کی جائے گی
اور مسلم فریق کو یقین دلایا کہ مسجد کی دیوار یا ڈھانچے کی ایک اینٹ کو بھی کوئی نقصان
نہیں پہنچایا جائے گا۔
اس سے قبل، اسی کیس میں چیف جسٹس
کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا تھا کہ کسی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کا تعین
کرنے میں 1991 کے پلیسس آف ورشپ ایکٹ (PoW) کوئی رکاوٹ نہیں ہے،
اور اے ایس آئی سروے خالصتاً تحقیقاتی ہے اور اس سے مسجد کا مذہبی تشخص بالکل ہی متاثر
نہیں ہوگا۔
افسوس کی بات ہے کہ اے ایس آئی
سروے کی اجازت دے کر، سپریم کورٹ نے فساد کا دروازہ کھول دیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے
حوصلہ پاکر شر پسند عناصر دیگر مساجد اور اسلامی یادگاروں پر نئے نئے تنازعات کے دروازے
کھول دیں، جس کا سلسلہ ابھی تک پلیسس آف ورشپ ایکٹ کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ یہ مذہبی
عبادت گاہوں کی اس حیثیت کو منجمد کرنے کے لیے نافذ کیا گیا تھا جو ان کی 15 اگست
1947 کے دن تھی، اور اس قانون کا مقصد کسی بھی عبادت گاہ کی تبدیلی پر پابندی لگانا
اور ان کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے
کہ اس سے بدھ مت کی عبادت گاہوں کی بازیافت کے مطالبات بھی جنم لے سکتے ہیں، کیونکہ
بہت سے ہندو مندر انہیں تباہ کرنے کے بعد تعمیر کیے گئے تھے۔ حال ہی میں، سماج وادی
پارٹی کے رہنما سوامی پرساد موریہ نے ہندو مندروں کے آثار قدیمہ کے سروے کا مطالبہ
کیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا وہ پہلے سے موجود بدھ مت کی عبادت گاہوں کو
تباہ کرنے کے بعد بنائے گئے تھے یا نہیں۔ مورخ ڈی این جھا نے اپنی نئی کتاب اگینسٹ
دی گرین: نوٹس آن آئیڈینٹیٹی، ان ٹولرینس اینڈ ہسٹری میں بدھ استوپا، خانقاہوں اور
دیگر ڈھانچوں کی بے حرمتی، تباہی اور قبضے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ پہلے سنگا شہنشاہ
پشیامتر (جس کی حکومت c.185-c. 149 BC) تھی، کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نے 84,000 بدھ استوپوں
اور تعلیمی مراکز کو تباہ کیا تھا۔
عدالتوں کو اپنے احکامات کے بڑے
مضمرات کا ادراک ہونا چاہیے، کیونکہ ہم پرانے زخموں کو جتنا زیادہ کریدینگے گے، اتنا
زیادہ انتشار پیدا ہو گا اور "ملک میں عدم استحکام پیدا ہوگا"، جیسا کہ جسٹس
کے ایم جوزف نے حال ہی میں کہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعہ کا فیصلہ ہندوؤں کے
حق میں دے کر بھی، جنہیں عدالت نے 1934 میں بابری مسجد کو پہنچنے والے نقصان، 1949
میں اس کی بے حرمتی کا ذمہ دار مانا تھا جس کے نتیجے میں وہاں سے مسلمان بے دخل کر
دیے گئے اور 6 دسمبر 1992 کو بالآخر اسے تباہ کر دیا گیا، جو کہ 'قانون کی بالادستی
کی سنگین خلاف ورزی' تھی، پلیس آف ورشپ ایکٹ کو انہی طریقوں کے خلاف ایک یقین دہانی
مانا ہے جو کہیں اور استعمال ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے زور دے کر کہا کہ تاریخ اور
اس کی غلطیوں کو حال اور مستقبل کو دبانے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا
جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی
بنچ نے، جس میں موجودہ چیف جسٹس بھی شامل تھے، 2019 کے بابری مسجد – رام جنم بھومی
فیصلے میں نہ صرف پلیسس آف ورشپ ایکٹ کی نااہلیت کو برقرار رکھا بلکہ اسے آئین کے بنیادی
ڈھانچے کے اندر بھی رکھا۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا، ''پلیس آف ورشپ ایکٹ ہندوستانی
آئین کے تحت سیکولرازم کی بقا کے لیے ہمارے اوپر ایک نا قابل تحلیل ذمہ داری عائد کرتی
ہے۔ لہٰذا، یہ قانون ایک قانون سازی کا آلہ ہے جس کا مقصد ہندوستان کی سیاست کی سیکولر
شبیہ کو محفوظ کرنا ہے، جو کہ آئین کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ نان ریٹروگریشن
(عدم رجعت) بنیادی آئینی اصولوں کی ایک بنیادی خصوصیت ہے، جس میں سیکولرازم بنیادی
جزو ہے۔ لہذا، پلیسس آف ورشپ ایکٹ ایک قانون سازی کی مداخلت ہے جو ہماری سیکولر اقدار
کی ایک لازمی خصوصیت کے طور پر نان ریٹروگریشن (عدم رجعت) کو محفوظ کرتا ہے۔ لہذا،
اس سے وارانسی یا متھرا میں ایودھیا کو دہرائے جانے کے کسی بھی امکان پر عملاً دروازہ
بند ہو گیا ہے۔
اس سے پہلے، 3 اگست کو، الہ
آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ جج کا فیصلہ 'منصفانہ اور مناسب' تھا، اور اس
میں کسی بھی مداخلت کی ضمانت نہیں دی گئی تھی کیونکہ 'انصاف کے مفاد میں سائنسی سروے
ضروری ہے،' اور ایسا نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اے ایس آئی کی یقین دہانی پر یقین
کریں کہ سروے سے ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ تاہم، مسلم فریق کے خوف کو دور
کرنے کے لیے، ہائی کورٹ نے ہدایت دی کہ مسجد کے احاطے میں کوئی کھدائی نہ کی جائے۔
انجمن انتطامیہ مسجد کمیٹی - مسجد
کی نگران کمیٹی اور گیانواپی کیس کے فریق، نے اس بنیاد پر سروے کی مخالفت کی تھی کہ
یہ پٹیشن پلیسس آف ورشپ ایکٹ کی رو سے کالعدم ہے اور اے ایس آئی سروے مسجد کو نقصان
پہنچا سکتا ہے۔
اگرچہ یہ ایک پرانا مسئلہ ہے، لیکن
گیانواپی مسجد پر موجودہ تنازعہ اگست 2021 میں دوبارہ اس وقت سامنے آیا جب خواتین کی
ایک جماعت نے وارانسی کی سول عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا اور مسجد کی بیرونی مغربی
دیوار پر واقع ما شرینگار گوری اور دیگر تمام مرئی اور غیر مرئی دیوتاؤں کی، جو گیانواپی
مسجد کے احاطے میں موجود ہیں، روزانہ کی بنیاد پر عبادت کرنے کا حق حاصل کرنے کا مطالبہ
کیا گیا۔
ان کی درخواست پر، وارانسی کے سول
جج کے حکم پر پہلی بار 6-7 مئی 2022 کو مسجد احاطے کا ’ویڈیوگرافک سروے‘ کیا گیا تھا۔
اس سروے کی لیک ہونے والی رپورٹ سے اس وقت تنازعہ کھڑا ہو گیا جب عرضی گزاروں نے دعویٰ
کیا کہ مسجد کے احاطے میں شیو لنگ پایا گیا ہے۔ تاہم مسجد کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ مبینہ
ڈھانچہ ایک چشمہ ہے جہاں مسلمان نماز سے قبل وضو کیا کرتے تھے۔ سب سے حیران کن بات
یہ ہے کہ سروے کی رپورٹ کا انتظار کیے بغیر اور مسجد کمیٹی کی سماعت کیے بغیر ہی سول
جج نے 16 مئی کو وضو خانہ کو سیل کرنے کا حکم دیا۔
سول جج کے اس حکم کے خلاف، مسجد
کمیٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اور کہا کہ شیو لنگ کی حفاظت ہونی چاہیے لیکن مسلمانوں
کے وضو کرنے کے حق کو ختم کیے بغیر۔ سی جے آئی، جو سپریم کورٹ بنچ کے سربراہ بھی تھے،
نے کہا کہ اس سے 'دونوں فریقوں کے مفادات کے درمیان توازن قائم ہوتا ہے'۔
اگر ہم واقعات کی ترتیب پر نظر
ڈالیں اور جس طرح سے گیانواپی کیس میں معاملات سامنے آرہے ہیں اگر ان پر نظر کی جائے
تو بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ معاملہ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر بابری مسجد-رام
جنم بھومی تنازعہ کی سمت بڑھ رہا ہے، جس نے کئی دہائیوں تک ملک میں ہندو مسلم کشیدگی
کو ہوا دی تھی، جس کے نتیجے میں ایک پرجوش ہجوم نے بالآخر 6 دسمبر 1992 کو مسجد منہدم
کر دی، جس سے ہندوستان کی آزادی کے بعد اب تک کا سب سے بدترین ملک گیر فرقہ وارانہ
فساد پھوٹ پڑا، جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔
ناانصافی کے اس گہرے احساس
کے باوجود، مسلمانوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سکون اور خوش اسلوبی سے قبول کر لیا۔
انہوں نے اس امید کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا کہ اس سے مساجد اور مندروں سے متعلق
تمام تنازعات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مسلمانوں کو خود اٹل بہاری واجپائی نے یقین دلایا
تھا: "کاشی اور متھرا ہمارے ایجنڈے میں نہیں ہیں، نہ کبھی ہوں گے… جب ہم کہہ رہے
ہیں کہ یہ ہمارے ایجنڈے میں نہیں ہے، تو آپ کو ہم پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے… ہم ایودھیا
کی پنرویرتی نہیں ہونے دیں گے، یہ ہم بلکل صاف بات کہنا چاہتے ہیں۔
لیکن آج کی حقیقتیں مسلمانوں کی
امیدوں پر پانی پھرتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے 2019 کے ایودھیا فیصلے کے بعد، اسلامی یادگاروں
اور عبادت گاہوں کے خلاف دائر کیے گئے عدالتی مقدمات کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوا
ہے، جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہیں مسلم حکمرانوں نے تباہ کیا تھا اور انہیں
ہندو مدعیان کے حوالے کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس میں عبادت کر سکیں۔ 1990 کی دہائی
کا پرتشدد نعرہ، ایودھیا تو جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے"، پھر سے زور پکڑ رہا
ہے۔
مئی میں، ایک سینئر بی جے پی لیڈر
کے ایس ایشورپا نے دعویٰ کیا کہ مغلوں نے 36,000 ہندو مندروں کو تباہ کیا ہے اور ہم
"ایک ایک کر کے ان تمام مندروں پر دوبارہ دعویٰ کریں گے"۔ اگرچہ اس طرح کے
دعوے سیاسی نوعیت کے ہیں اور ایریزونا یونیورسٹی میں ہندوستانی تاریخ کے پروفیسر ایٹن
کے الفاظ میں محض "عجیب و غریب، غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد" ہیں، پھر بھی
ان سب باتوں سے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر پیدا ہوتی ہے، خاص طور پر
بڑھتے ہوئے مذہبی پولرائزیشن، ان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر میں تیزی سے اضافے، ان
کی نسل کشی اور معاشی بائیکاٹ کے مطالبات، ان کی عبادتوں کو جرم سمجھے جانے، اور انہیں
منظم طریقے سے حاشیہ پر ڈالے جانے کے تناظر میں۔
یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر
مذہبی مقام کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، تو سپریم کورٹ نے ڈسٹرکٹ جج کے حکم
پر روک کیوں نہیں لگائی کہ اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ اس سے پہلے وہاں کس قسم کا
مذہبی مقام تھا۔ یہ سوال کہ مسجد کے نیچے کیا تھا یا کیا یہ عین اسی جگہ پر بنائی گئی
تھی جہاں قدیم کاشی وشوناتھ مندر موجود تھی، موجودہ معاملے میں بے معنیٰ ہے کیونکہ
پلیسس آف ورشپ ایکٹ اس کی حیثیت کو منجمد کرتا ہے۔ موجودہ معاملے میں اہم بات یہ ہے
15 اگست 1947 کو اس کی حیثیت کیا تھی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ متنازعہ جگہ
پر گیانواپی مسجد تین سو سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہے، اور یہاں اس کے قیام کے دن
سے ہی دن میں پانچ مرتبہ نماز بلا تعطل ادا کی جاتی رہی ہے۔
بہت سے لوگوں کو بجا طور پر
خدشہ ہے کہ اے ایس آئی کے سروے سے کہیں مسجد کو مندر سے تبدیل کیے جانے کے سیاسی حالت
نہ پیدا ہو جائیں۔ اس سے دیگر تاریخی مسلم یادگاروں اور مساجد کے خلاف بھی اسی طرح
کے مقدمات درج کیے جانے کے راستے کھل جائیں گے۔ اس مندر کے انہدام کا ایک بیانیہ پیدا
ہو سکتا ہے، شیو مندر کی بازیافت کے لیے عوام کے جذبات کو ابھارا جا سکتا ہے، جیسا
کہ رام مندر کے معاملے میں ہوا، جو بالآخر بابری مسجد کی تباہی کا باعث بنا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ
ماضی میں بیرونی حملہ آوروں اور ہندوستانی بادشاہوں نے یکساں طور پر کئی مندروں کو
تباہ کیا تھا، کیونکہ انہیں اقتدار اور دولت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ عبادت گاہوں
کو نشانہ بنایا جانا یا حملہ آور قوتوں کا ان کے مذہب سے قطع نظر انہیں تبدیل کرنا
پوری دنیا میں رائج تھا۔ مندروں پر حملہ کرنے کے پیچھے بنیادی وجہ دولت کی لوٹ مار
اور حملہ آوروں کا اپنی سیاسی اور فوجی طاقت کو مظاہرہ کرنا تھا۔ تاہم بنیادی سوال
یہ ہے کہ کیا ماضی کی غلطیوں کو آج درست کیا جا سکتا ہے؟ اور، اگر ہاں، تو ہم کہاں
سے یا کس وقت سے شروع کریں گے؟ تاریخی ناانصافیوں کا مسئلہ اٹھانا ملک میں فرقہ وارانہ
کشیدگی کو ہوا دے گا۔
English
Article: Is Gyanvapi Mosque Another ‘Babri’ In The Making?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism