ڈاکٹر ریحان حسن
8 نومبر 2022
اردو زبان کی تاریخ شاہد
ہے کہ اگر جگن ناتھ آزاد ، بدھ پرکاش جوہر،کرشن بہاری نور، کنور مہندر سنگھ بیدی
سحر وغیرہ نے مسلم رہنمائوں کو نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے تو اسی کے پہلو بہ پہلو
نظیر اکبرآبادی ،علامہ اقبال، مہدی نظمی، اصغر بہرائچی ،احمد علی فکر وغیرہ نے
ہندو اور سکھ رہنمائووں کو بھر پور خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ صداقت تو یہ ہے کہ
مسلمانوں نے جس قبیل سے گورو نانک دیو جی کی شان میں عقیدت کے پھول نثار کئے ہیں
وہ اردو شعرو ادب میں بے مثال ہے۔
ابو ظفر نازش کی ’’حق
آگاہ نانک ‘‘ کے عنوان سے یہ نظم گورو جی کی شان میں کہی ہوئی نظموں میں سے
بہترین نظم ہے۔ کیونکہ شاعر نے اس نظم میں گورو نانک جی کو جس عقیدت سے نذرانہ پیش
کیا ہے وہ لائق مدح ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی یہ نظم قابل توجہ ہے۔گورو جی
کی شان میں ان کا یہ کلام ملاحظہ ہو:
درس یکجہتی سے مردانہ کو
بالا کر دیا
دم میں یہ دو ہستیاں
مشہور دوراں ہو گئیں
اور دونوں سے یہ فرمایا
سنو اے دوستو
کاوشیں اپنی غم عالم کا
درماں ہو گئیں
’’ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے
ایماں ہو گئیں ‘‘
گورو نانک جی نے مذہب میں
تفریق ختم کرنے کے لئے جو سعی کی تھی اس کی طرف ان اشعار میں ابو ظفر نازش نے
انتہائی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ یہ اشعار اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ گورو
نانک جی کے نظریات سے متاثرہونے کے ساتھ ساتھ گورو جی کی حیات کا بغور مطالعہ بھی
کیا تھا۔
حکیم احمد علی فکر عظیم
آبادی کا یہ کہنا درست ہے۔
اے سراپاکرم اے مجسم وفا
اے محبت کے اخلاص کے
دیوتا
پانچ صدیوں سے ہر سو ہے
چرچا تیر اہے تری مدح خواں ساری خلق خد
ہر طرف سے یہی آرہی ہے
صدا
کتنا اونچا ہے نانک ترا
مرتبا
کوئی ہندو ہو ،مسلم ہو یا
خالصا تیرے مذہب میں تھا ہر بشر ایک سا
تو نے سب کو سبق ایکتا کا
دیا تیرا پیغام سب کے لئے ایک تھا
تو نے احسان سارے جہاں پر
کیا
کتنا اونچا ہے نانک ترا
مرتبا
تو نے انسانیت کی وہ
تعلیم دی تو نے بھٹکے ہوئوں کی وہ کی رہبری
تو نے الفت کی پھیلائی وہ
روشنی مٹ گئی نفرت و بغض کی تیرگی
ساری دنیا میں تو نے
اجالا کیا
کتنا اونچا ہے نانک تیرا
مرتبا
تیرے دل میں تھا الفت کا
دریا رواں پیاس آکر بجھاتے تھے پیاسے جہاں
فیض جاری تھا ہر وقت تیرے
یہاں آج بھی ہے زمانہ تیرا قدرداں
سارے علم میں بجتا ہے
ڈنکا تیرا
کتنا اونچا ہے نانک ترا
مرتبہ
چھا گیا سب پہ تو حسن
کردار سے طرز گفتار سے خوئے ایثار سے
داد تجھ کو ملی خویش و
اغیار سے کون واقف نہیں تیرے شاہکار سے
کس زباں پر نہیں ہے ترا
تذکرا
کتنا اونچا ہے نانک ترا
مرتبہ
تو جمال خدا کا ہے عکس
حسیں تجھ سے معمور ہیں آسمان و زمیں
تجھ سے پاتے تھے فیض اہل
دنیا و دیں اے گورو آفریں ۔اے گورو آفریں
ساری دنیا کو ہے فخر تجھ
پر بجا
کتنا اونچا ہے نانک ترا
مر تبا
یاد کرتی ہے دنیا تجھے
آج بھی تیری عزت ہے ہر ایک دل میں وہی
پیش کرتے ہیں نذر عقیدت
سبھی فکر بھی بھینٹ کرتا ہے شردھانجلی
نام زندہ ہے ۔زندہ رہے گا
تیرا
کتنا اونچا ہے نانک تیرا
مرتبا
علی احمد فکر کی اس نظم
میں جو سلاست وشگفتگی نظر آتی ہے وہ بے مثال ہے ۔انھوں نے گورو نانک جی کی شخصیت
کی ترجمانی جس عقیدت سے کی ہے اردو شاعری میں اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے ۔
ظاہر ہے کہ بنی نوع انسان
کو ہر دور میں ایسے رہبر کی ضرورت رہی ہے کہ جو انسانوں کی رہبری کرے گورو نانک جی
بھی ایسے ہی رہبروں میں تھے کہ جنہوں نے اپنے عہد میں انسانوں کو تاریکی سے نکال
کر وحدت کا نغمہ پڑھایا
اردو زبان کے شعری سرمایہ
میں ایک اہم نظم سید اصغر بہرائچی کی ملتی ہے جس میں انھوں نے اس بات کا خیال رکھا
ہے کہ گورو کی مدح و توصیف اس انداز سے ہو کہ گورو نانک جی کی زندگی کی مکمل تصویر
نظروں کے سامنے آجائے۔ سید اصغر بہرائچی اپنی اس کوشش میں کامیاب و کامران نظر
آتے ہیں:
تلونڈی میں سحر کو جب گرو
نا نک ہوئے پیدا تو کالو چند کے گھر میں اجالا نور کا پھیلا
جہاں کی بے ثباتی پر ہنسے
جب آپ اک دم سے ترپتا ماں وداعی دوستاں قرباں ہوئیں جھم سے
حصول علم میں نکلے ،تو طے
منزل پہ کی منزل نہ چھوڑی بزم کوئی اور نہ چھوڑی کوئی بھی محفل
گرو نانک جی نے پیغام دیا
کہ نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان بلکہ سب انسان ہیں اور مذہب آپس میں مل جل کر رہنے
کا حکم دیتا ہے وہ انسانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کا حکم نہیں دیتا بقول
علامہ اقبال:
مذہب نہیں سکھاتا آپس
میں بیر رکھنا
در اصل خدا تو ایک ہے
البتہ اس کے نام مختلف ہیں جسے قوموں نے الگ الگ ناموں سے اپنا لیا ہے بقول گورو
نانک جی
انیکوں نام حق ہیں مگر
واحد ہے وہ داتا اسے اپنا لیا قوموں نے جس جس نام سے چاہا
کوئی مذہب سکھائے بیر یہ
ممکن نہیں ہم دم دلیلیں لاکھ کوئی دے نہیں مانیں گے ہرگز ہم
کرو تعظیم ہر مذہب کی ہے
پیغام نانک کا یہی آدرش نانک کا صلائے عام نانک کا
مذہب اخوت ،بھائی چارے
اور رواداری کا حکم دیتا ہے اور تمام مذاہب کے رہنما انسانوں کی فلاح وبہبود کے ہی
خواہاں ہیں ان کے یہاں کالے گورے ادنی واعلی کا کوئی امتیاز نہیں بلکہ انسانی
قدروں کی محافظت اور ترقی و بہبود ہی بنیادی مقصد ہے ۔
گورو نانک دیو جی نے
انسانوںکو رنگ و نسل کی تفریق مٹانے کی جو تعلیم دی ہے اگر انسان اس تعلیم پر عمل
پیرا ہو جائے تو دنیا میں ہر طرف اخوت و محبت اور اخلاص و یگانگت کی بستیاں آباد
ہونے لگے گیں ۔
اردو زبان کے شعرامیں
اللہ یار خاں جوگی ایسے شاعر ہیں جنھوں نے پوری زندگی سکھ گورؤوں کی حمد و ثناء
میں گذاری۔انھوں نے بابا نانک کی شان میں ’’مصلح ہند‘‘ کے عنوان سے طویل مسدس کہا
ہے جس کا ایک بند درج کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے رنگ سخن کا اندازہ ہو سکے ۔ملاحظہ
ہو :
وہ نانک نہیں جس کا ثانی
جہاں میں
وہ نانک جو ہے کون و مکاں
میں
خصوصا ہمارے ہی ہندوستاں
میں
نظیر آپ اپنا تھا کل انس
و جاں میں
زمانے میں حاصل اسے برتری
ہے
اسی سے ہویٔ شاخ وحدت ہری
ہے
در اصل گورو نانک دیو جی
کی تعلیمات کسی ایک مذہب اور مکتبئہ فکر کے لئے مخصوص نہ تھی بلکہ ان کی تعلیمات اور
اعمال و افعال میں تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے پیغام پنہاںہے۔انھوں نے کسی ایک
مذہب کے لوگوں کی بھلائی پیش نظر نہ رکھی بلکہ تمام انسانوں کی بھلائی اور فلاح و
بہبود کے لئے کام کیا چنانچہ گورو نانک دیو جی کی تعلیمات کے عالمگیر ہونے کا
اعتراف جناب اللہ یار خاں جوگی نے کچھ ان الفاظ میں کیا ہے :
نانک اعظم کی ہر تعلیم
عالمگیرتھی
الفت انساں کی جیتی جاگتی
تصویرتھی
ایک مذہب کیلئے ہرگز نہ
تھی محدود وہ
سب کو دکھلاتی تھی راہ
منزل مقصود وہ
رہنما تھے آپ ہر پیر و
جواں کے واسطے
باعث رحمت زمیں و آسماں
کے واسطے
ترجماں حق تھا گویا آپ
کا شیریں کلام
اک نشان حق تھا گویا آپ
کا شیریں کلام
(9)
دراصل گورو نانک جی نے
انسانی زند گی میں اہمیت پر زور دیتے ہوئے پیا رو محبت ،امن و آشتی ،بھائی چارے
اور انسان دوستی کا درس دیا۔ اوہام پرستی ، اندھی تقلید ، بے روح مذہب پرستی ،
اونچ نیچ اور ذات پا ت کے خلاف آواز اٹھاتے ہو ئے محبت و رواداری کا ایسا پیغام
دیا جو ہر دور کی ضرورت ہے جیسا کہ رضا امروہوی کا کہنا ہے :
ترا پیغام ہے شرح محبت
تری تعلیم ہے روح صداقت
ترے افکار میں ڈوبی ہوئی
ہے خلو ص وحق پرستی کی حقیقت
چرا غو ں سے فضائوں کو
سجا کر نفا ق وبغض ،دھرتی سے مٹا کر
زمانے پر کئے ہیں تو نے
احساں جبیں انساں کی تو نے اٹھا کر
قاری محمد اسحاق کی نظر
میں گورو جی کی عظمت ایسی تھی کہ گویا :
گورو نانک مشیت کی نگاہوں
کا تھا اک تارہ وہ گردون محبت کا تھانور افروز سیارا
نہ وہ سکھ تھا نہ عیسائی
نہ ہندو اور مسلماں تھا وہ انسانوں کا رہبر تھا وہ انساں تھا وہ انساں تھا
مگر انسان تھاایسا، جو
انسانوں سے بڑھکر تھا خدا کا خاص بندہ تھا ،خدا والوں کا افسر تھا
گورو نانک جی نے درس
مساوات دیتے ہوئے عمل پر زور دیا اور پروردگا ر کی معرفت کرائی کیونکہ جب انسان کو
خداکی معرفت حاصل ہو جائے گی تو ہر قسم کی دیواریں خود بخود منہدم ہو جائیں گی ۔
گورو نانک جی کی ان تعلیمات کا ذکر قاری محمد اسحاق حافظ سہارنپوری کچھ اس طرح
کرتے ہیں :
کہا اس نے خدا کہ جتنے
بندے ہیں برابر ہیں نہ اونچے ہیں نہ نیچے ہیں نہ برتر ہیں نہ کم تر ہیں
نہیں رکھتا تھا فرق ان
میں کہ انسان سب برابر تھے نظر میں اس کی ہندو ،سکھ، مسلماں سب برابر تھے
کہا اس نے ،یہاں کوئی
نہیں اچھا برا ہوگا اگر کوئی بڑا ہوگا ،عمل ہی سے بڑا ہوگا
وہ بن سکتا ہے شعلہ بھی
وہ بن سکتا ہے شبنم بھی ’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی‘‘
گورو نانک جی کی شان میں
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی بیحد وقیع نظم ’’نانک ‘‘کے عنوان سے ملتی ہے جس میں
ہندوستان میں بسنے اور رہنے والوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا ذکر کرتے ہوئے
ذات واحد کی تعریف اور لوگوں کو صرف خدا کی عبادت کی طرف دعوت دینے کا ذکر کیا گیا
ہے ۔شاعر مشرق گورو نانک دیوجی کے اس عملی اقدام کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا
پروانہ کی قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہــ
بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اس نے کیا جو
زندگی کا راز تھا ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ
وہ محفل نہ تھی بارش رحمت ہوئی ،لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ شودر کے لئے ہندوستاں
غم خانہ ہے درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے
پندار میں شمع گوتم جل رہی ہے محفلـ
اغیار میں
بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر
روشن ہوا نور ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید
کی پنجاب سے ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
علامہ اقبال نے اپنی اس
نظم میں ہندوستان میں خدا کی وحدانیت کے اس تصور کو جو پہلے سے ہی فضا میں تھا
لیکن یہاں کے باشندے صرف اور صرف خدا کی عبادت کو چھوڑ کر ہر با کمال کے سامنے
سرجھکانے کے ساتھ ساتھ اس کی عبادت بھی کرنے لگے تھے خوبصورت پیرائے میں نظم کیا
ہے در اصل ان کی مثال ایسی تھی کہ بقول اقبال
آہ بد قسمت رہے آواز حق
سے بے خبر غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
شمع حق سے جو منور ہو یہ
وہ محفل نہ تھی بارش رحمت ہوئی ،لیکن زمیں قابل نہ تھی
مختصر یہ کہ گورونانک دیو
جی کی روحانی شخصیت کو مسلم شعراء نے اس قبیل سے پیش کرکے اردو شاعری کی روشنی میں
اضافہ کرتے ہوئے گورو نانک دیو جی کے عقیدت مندوں کے لئے اردو زبان میں ان کو یاد
کرنے کی ایک نئی لطافت سے بھی آشنا کرایا ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ
گورو نانک جی کے حضور مسلم شعرا کا نذرانہ ٔعقیدت اس بات کا ثبوت ہے کہ گورو نانک
جی کسی مخصوص قوم یا فرقے کے ہی رہبرو رہنما نہیں بلکہ وہ ہر قوم اور فرقے کے لئے
مشعل راہ تھے۔
8 نومبر 2022، بشکریہ: چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism