غلام نبی خیال
قسط اوّل
27جون،2021
جان کینگ نے عظیم کتاب کی
یہ تشریح کی ہے کہ وہ ادبی لحاظ سے غیر معمولی طور پر معیاری ہو۔ اس میں علم کے
شعبہ جات کے ساتھ شاندار فکروذہن کی آگہی کا اظہارہو اور روحانیت کے فقید المثال
ادراک پر مبنی ہو۔
دنیا بھر میں جن کتابوں
کو عظیم کہا جاتاہے ان میں مذہبی صحائف کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ اہل اسلام کے
نزدیک دنیا کی سب سے عظیم بلکہ عظیم ترین کتاب الہامی صحیفہ قرآن پاک ہے اس دیگر
مذاہب کے پیروکار اپنی اپنی الہامی کتب کو سب سے زیادہ فوقیت دیتے ہیں جو ان کا حق
بجانب عقیدہ ہے۔
ادبیات کے تعلق سے چند ہی
تصانیف کو عظیم کہلائے جانے کا افتخار حاصل ہوسکا ہے۔ ان کے انتخاب میں بھی
اختلافات کی گنجائش موجود ہے، لیکن یہاں بھی انتخاب کرنے والے کی ذاتی پسندو
ناپسند ہی کو ملحوظ نظر رکھا جاسکتا ہے۔ اسی امرکے پیش نظر اس مقالے میں چند ایسی
کتب کوزیر بحث لایا گیا ہے جو میری نظر وں میں بہت بڑی عظمت کی حامل ہیں۔ اس امر
سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس زمرے میں مکالمات افلاطون، مادام بوری، مارکس
کیپٹل،پولسمز،ڈاکٹر زواگو، دیو ان حافظ، پیراڈائز لاسٹ، گڈارتھ، شیکسپئر کے ڈرامے
او رکئی اور لاجواب کتب کو بآسانی شامل کیا جاسکتاہے۔ مگر یہ مقالہ محض میری ذاتی
پسند کا ماحصل ہے اور اختصار کے پیش نظر اس میں بھی صرف دس کتابوں کو زیر بحث لایا
گیا ہے۔
1۔ ہومر کی ایلیاڈ:
ہومر 9th
Century BC
قدیم یونان کا سب سے مشہور شارعر تھا جس کی پیدائش دنیاکے اولین مورخ ہیروڈوٹس کے
مطابق 850قبل مسیح میں ہوئی۔ ہومر نے ایلیاڈ جیسا شاندار ازرمیہ تخلیق کر کے
دنیائے سخن گوئی میں ایک ایسی جگہ بنالی کہ تین ہزار سال گزرنے کے باوجود آج تک اس
مرتبے کو کوئی اور نہیں پہنچ سکا ہے۔ ابلتہ رینان کی یہ پیش گوئی کہ ”ایک ہزار سال
کے بعد دنیا کی ساری کتابیں دھول چاٹتی ہوں گی او راگر کوئی باقی رہے گا تو وہ ہے
ہومر“ اس کی اپنی صوابدیدہ کی عکاسی کرتی تھی۔
سماجیات کے تناظر میں کہا
جاتاہے کہ فتنہ فسادات کی جڑ ’ز‘ حروف سے ہی متعلق ہوتی ہے یعنی زر، زن اور زمین۔
ایلیاڈ کی کاہنی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کامرکزی کردار بھی ایک خوبصورت عورت
ہیلن ہیی ہے جو دو ممالک یعنی یونان اور ٹرائے کے درمیان دس سالہ خون ریز جنگ کا
باعث بنی۔ اس جنگ کے نتیجے میں ٹرائے کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔
ٹرائے کا اصلی نام ایلیم
تھا۔ اسی مناسبت سے ہومر نے اپنی کتاب کا نام ایلیاڈ رکھا۔ ہومر قدیم یونان کا ایک
نابینا گویا تھا جو گھر گھر جاکر یونان کی حکایاتی داستانیں اور سینہ بہ سینہ چلنے
والی دیوی، دیوتاؤں کی کہانیاں سنا سنا کر لوگوں سے کچھ کماکر اپنے گزر بسر کر
لیتا تھا۔ وہ ریاب جیسا ایک آلہ موسیقی بجا کر بھی عام لوگوں کے دل بہلاتا تھا۔
ایلیاڈ کا قصہ قدیم یونان
کی دیومالائی حکایات پر مشتمل ہے جس میں انسان ان ہی دیوتاؤں کو خدائیت کا درجہ دے
کر ان ہی کی مرضی کے مطابق زندگی گزار تے ہیں۔
ایلیاڈ میں یونان
اورٹرائے کے درمیان بارہویں صدی قبل مسیح میں لڑی گئی اس جنگ کا حال بیان کیا گیا
ہے جو دس سال تک جاری رہی اور جس ہزاروں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
شاعر نے بہر حال اس جنگ کے دسویں سال یعنی 1184قبل مسیح کا حال اپنے زرمیہ میں اس
لئے نظم کیا ہے کہ اگر وہ اس جنگ کے سارے عرصے پر محیط واقعات کو قلم بند کرتا تو
داستان کی چاشنی اور اثر انگیز ی متاثر ہوجاتی۔
ہومر نے جن لوگوں کے لئے
ایلیاڈ لکھی وہ اس کے تمام واقعات سے واقف تھے، لیکن شاعر نے جس انداز میں ان کی
شیرارز ہ بندی کی اس نے ہومر کو یونان قدیم کا سب سے مقبول اور محبوب سخن کو بنا
دیا۔ کہتے ہیں کہ وارانے اپنی جنگی مہمات کے دوران لوٹ کا جو مال جمع کیا تھا اس
میں سے اسے ایک چھوٹا سا صندوق بہت پسند آیا۔ مصاحبوں سے پوچھا کہ اس میں کون سی
چیز رکھی جائے؟ ساتھیوں نے الگ الگ مشورے دئے جن میں سے کوئی بھی اس کی پسند کا
نہیں تھا اور پھر وہ خود ہی اخیر پر بولا، ”میں اس میں ہومر کی ایلیاڈ رکھوں گا“۔
2۔ کالی داس کی شکنتلا:
کالی داس کب او رکہاں
پیدا ہوا؟ اس کے بارے میں متضاد آرا پیش کی گئی ہیں۔ اس کی جائے پیدائش کے سلسلے
میں مالوا میں مندسور، اجین اور کشمیرکے نام زیر تذکرہ ہیں۔ ربندر ناتھ ٹیگور
کہتیت ہیں ”میں نے بھی کہیں پڑھا ہے کہ وہ کشمیر میں پیدا ہوا“ دلی یونیورسٹی کے
ایک پروفیسر پنڈت لچھی دھر شاستری نے انگریزی میں ”کالی داس کی جائے پیدائش“ کے
نام سے ایک تحقیقی کتاب لکھی جو 1926 میں شائع ہوئی۔ اس میں پروفیسر شاستری نے
کالی داس کو کشمیری ثابت کرنے کی خاطر یہ دلائل پیش کئے ہیں:
1۔ وہ کشمیر کے دھان کے کھیتوں اور باغات کا جذباتی انداز میں ذکر
کرتا ہے۔
2۔ اس نے زعفران کے پھولوں کا ہوبہو نقشہ کیا ہے جو صرف کشمیر کی
پیداوار ہے او رجس کے بارے میں کسی او رغیر کشمیری نے خامہ فرسائی نہیں کی ہے۔ دور
گذشتہ میں کشمیری عورتیں اپنے سینوں اور زعفران کے نشان ثبت کرتی تھیں۔ اس کا ذکر
بھی کالی داس نے کیا ہے۔
3۔ جس خوبصورتی سے اس نے دیودار کے جنگلوں، مرگوں، جھیلوں، شیروں
کی گپھاؤں، پہاڑوں اور نافہ غزال کی تصویر کشی کی ہے وہ ایک کشمیری فن کا ر ہی کا
خاصہ ہوسکتا ہے۔
4۔شکنتلا ڈرامے میں ستی سرنامی ایک بہت بڑی جھیل سے کشمیر کا وجود
عمل میں لانے کا کالی داس نے حوالہ بھی دیا ہے او ریہ کہ اس نے کشمیر کے حوالے سے
اپنی جانبداری کو واضح طور پر ظاہر کیا ہے۔
5۔میگ دوت نظم پڑھ کر بھی یہ احساس ذہن میں جاگزیں ہوتا ہے کہ وہ
کشمیری الاصل تھا۔ بدقسمتی سے مزید مطالعے اور تجزیے کے لئے انگریزی میں تحریر
کردہ پروفیسر شاستری کی یہ کتاب The Birthplace of
Kalidasa
بسیار کو شش کے باوجود دستیاب نہ ہوسکی۔
چند تحقیق کاروں نے یہ
باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کالی داس کشمیر ہی میں لارکے دیہات کے قریب منہ گام
میں پیدا ہوا۔ البتہ اپریل 1964 میں اجین سے سات میل دور کالی داس نام کے محلے میں
ایک لمبا کتبہ دریافت ہوا جس پر یہ عبارت کندہ تھی کہ کالی داس بکرماجیت کے دوریں
اجین میں پیدا ہوا اور وہیں پر ا س کی پرورش ہوئی۔ کتبے پر یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ
کالی داس اجین ہی میں 94 سال کی عمر پاکر فوت ہوا۔ (جاری)
27 جون،2021، بشکریہ: روز نامہ، چٹان، سری نگر
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/great-books-world-literature-part-1/d/125095
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism