New Age Islam
Thu Apr 17 2025, 09:23 PM

Urdu Section ( 27 Jun 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Dr Gopichand Narang: Remembering a Colossal Scholar of Urdu in These Fissiparous Times ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: اردو کے ایک عظیم ادیب کو ان مشکل وقتوں میں یاد کیا جائے

 سمت پال، نیو ایج اسلام

 18 جون 2022

 ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہمیشہ میر، غالب، اقبال اور امیر خسرو جیسے کلاسیکی شاعروں کا تجزیہ کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

 اہم نکات:

 1. ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو بہت سی چیزوں بلکہ اردو میں مابعد جدیدیت کی بحث کو متعارف کرانے کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔

 2. ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا ماننا تھا کہ اردو ادب کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔

 3. نارنگ نے ہمیشہ نوجوان شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کی تعریف کی۔

 -----

 ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے دہلی یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، اور 1958 میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے لیے وزارت تعلیم سے ریسرچ فیلوشپ حاصل کی۔

 -----

 "مذہب کی ضرورت زبانوں کو نہیں ہوتی، بلکہ لوگوں کو ہوتی ہے۔"

 اردو کے ممتاز نقاد اور ادیب، مرحوم ڈاکٹر گوپی چند نارنگ۔

 "زبان اردو میں جو کشش و انداز ہے وہ بمشکل کسی اور زبان میں ہوگی، لیکن میں فارسی کی رعنائی و لطافت سے بھی انکار نہیں کرتا..."۔

 اردو کے نامور نقاد اور ادیب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے یہ الفاظ میری یادوں میں ہمیشہ نقش رہیں گے۔ ابھی رخصت ہونے والی اس عظیم شخصیت نے کئی سال پہلے مجھے اپنی رواں شکستہ اردو تحریر میں خط لکھا تھا۔ اس کے بعد میں ان سے دہلی، لندن اور امریکہ میں ایک دو بار ملا بھی۔ اس دور میں، کہ جب ہم اردو کو ایک 'الگ' قوم کی زبان کے طور پر زمرہ رکھنے کی جدو جہد کر رہے ہیں، اس مرتی ہوئی زبان کو زندہ کرنے میں ڈاکٹر نارنگ کا کردار اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ وہ اردو دنیا کے حقیقی سفیر تھے جنہوں نے کبھی اردو کو ، "ہندوستان کا لسانی تاج محل۔" کہا تھا، "مغل دور کی تین یادگاریں ہیں- تاج محل، غالب کی شاعری اور اردو..... اگرچہ ہر زبان خوبصورت ہے، اردو کی نفاست اور دلکشی سب کو موہ لیتی ہے۔ اسی لیے میں اردو کو ہندوستان کا لسانی تاج محل کہتا ہوں۔"

نارنگ نے ہمیشہ اردو کو برصغیر کی ایک زبان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر ہر کوئی اردو سیکھ لے تو ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوں گے کیونکہ اردو اتنی ہی ہندوؤں کی زبان ہے جتنی مسلمانوں کی ہے۔ قومی اتحاد (معاشرے کے شعور اور ہم آہنگی) کے لیے یہ نارنگ کا نسخہ تھا۔

 جدید ہندوستان میں اردو کے دو بڑے نقاد ہوئے ہیں، شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ۔ وہ دونوں ہم عصر تھے. اگرچہ موازنہ ہمیشہ ہی ناگوار ہوتا ہے، لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نارنگ کی فکر اور نقطہ نظر میں زیادہ عالمگیریت تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار انہوں نے امریکہ کی ایک آئیوی لیگ یونیورسٹی میں دوسری زبانوں کے مقابلے اردو کی ہمہ گیر نوعیت پر لیکچر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی بات کو مضبوط کرنے کے لیے فارسی، عربی، پہلوی، پشتو، انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانوں کے حوالے دیے تھے۔ سامعین پر سحر کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ وہ ایک کثیر للسان شخصیت کے حامل تھے اور ان کا ماننا تھا کہ جتنی زیادہ زبانیں سیکھ سکے اسے سیکھنا چاہیے۔ "جب بھی آپ کوئی نئی زبان سیکھتے ہیں، آپ کو ایک نئی روح ملتی ہے،" یہی ان کا ایک کامیاب منترا تھا۔

 نارنگ نے ہی نبنیتا دیو سین کے ساتھ مل کر ہندوستان میں تقابلی زبانوں کی تعلیم کو فروغ دیا تھا۔ وہ اکثر پہلوی میں عطار کے مشہور مصرعہ کا حوالہ دیتے تھے، "یان است ذبانِ منبلم زی قفعت" (تمام زبانوں کو پھلنے پھولنے دو۔ )۔

 کہا جاتا ہے کہ تنقید کرنے والا شاذ و نادر ہی آزاد مصنف ہوتا ہے (قاعپھن نقاد بز قلمگیر)۔ لیکن نارنگ اس سے مستثنیٰ تھے۔ وہ ایک شاندار نقاد اور اتنے ہی عظیم مصنف تھے۔ انگریزی اور اردو میں ان کی کتابیں اور لاتعداد مقالے اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ اپنی زبردست تنقیدی بصیرت کی وجہ سے، نارنگ ایسی کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے جن کے قارئین کی تعداد وسیع ہو اور تمام طبقے کے قارئین ان کے ساتھ اپنا ایک ربط قلبی پیدا کر لیں۔ مختصر یہ کہ ایس ٹی کولرج، ولیم ہیزلٹ، الطاف حسین حالی پانی پتی اور مصر کے عظیم ڈاکٹر طہ حسین کی طرح ڈاکٹر نارنگ تنقید اور تخلیقی دونوں صلاحیتوں کو یکجا کر سکتے تھے۔ اس لحاظ سے ان کا موازنہ انگریز نقاد اور شاعر ڈاکٹر میتھیو آرنلڈ سے کیا جا سکتا ہے، انہوں نے زندگی میں کبھی بھی اردو کے کسی ادیب اور شاعر پر ہتک آمیز یا گھٹیا انداز میں تنقید نہیں کی۔ وہ ہمیشہ انتہائی نرم مزاجی سے کام لیتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے ’’میرے ہاتھ میں قلم ہے، قیز (قینچی کے لیے قدیم فارسی) نہیں‘‘۔

 عمر بھر غالب پر تنقید کرنے والے شاعر یاس یگانہ چنگیزی کے بارے میں جب انھوں نے لکھا تو انھوں نے کہا کہ ’’غضب کی صلاحیات تھی مگر انکی (چنگیزی) قلم کو غالب کی تنقید سے فرصت نہ ملی‘‘۔اس قدر نفاست اور پاس و لحاظ کسی نقاد میں بہت کم ہے۔

 وہ کبھی بھی خود پسند نہیں رہے اور ہمیشہ نوجوان شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کی تعریف کرتے تھے۔ ایک کامیاب نقاد بننے کے لیے ان کا ایک منتر تھا، "اپنی آنکھیں کھلی رکھئے اور دل میں تلخی کو بسنے سے روکیے"۔ بالکل سچ۔ انہوں نے کبھی تلخی اور بدتمیزی سے نہیں لکھا۔ وہ اتنے عالی ظرف تھے کہ وہ خود پر تنقید کرنے والوں کے بارے میں بڑی خوش مزاجی سے لکھا کرتے تھے۔ "کردار کی بلندی، ایک شعر یا نقاد کے لیے شرط ناگزیر ہے"۔

وہ ایک انتہائی بصیرت مند نقاد تھے اور باریکیوں کو سمجھ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ داغ، غالب اور میر کی شاعری میں چھپے ہوئے معانی کو پہچان سکے۔ ٹی ایس ایلیٹ کی طرح، جس نے جان ڈون کو 300 سال بعد زندہ کیا، نارنگ نے بہت سے عظیم لیکن گمنام شاعروں کو منظرعام پر لاکر ادبی دنیا کے سامنے ان کی تخلیقات پیش کیں۔ نا کا دکھنی شاعری کا احیاء ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔ شمال کے شعرا جنوب کی شاعری اور اردو زبان سے ہمیشہ نفرت کرتے رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر نارنگ نے اس خلا کو پر کیا اور دکھنی اردو کی کبھی توہین نہیں کی۔ دکھنی زبان پر ان کی ضخیم کتابوں کو ان کی تخلیقی وسعت، فہم و فراست اور گہرائی کے ایک واضح ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

 ایک بے ساختہ مقرر اور ایک شعلہ بیاں خطیب، ڈاکٹر نارنگ کے پاس ادبی مواد کا ایک خزانہ تھا اور وہ تخلیقی کہانیوں کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے چند سال قبل میر تقی میر پر ان کی کتاب (دی ہوں گارڈن) پر تبصرہ لکھا تھا اور دی ٹریبیون، چندی گڑھ نے اسے شائع کیا تھا، تو انہوں نے اردو میں ایک خط کے ساتھ میرا شکریہ ادا کیا تھا۔ وہ کبھی بھی غافل نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا، دل کی گہرائیوں سے کیا۔

 نارنگ کو بہت سی چیزوں بلکہ اردو میں مابعد جدیدیت کی بحث کو متعارف کرانے کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔ ان کا ماننا تھا کہ اردو ادب کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ وہ ہمیشہ میر، غالب، اقبال، امیر خسرو جیسے کلاسیکی شاعروں کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے جانے جاتے رہیں گے۔

 وہ دنیا کے ایسے واحد اردو قلمکار ہیں جنہیں ہندوستان اور پاکستان دونوں کے صدور نے بالترتیب پدم بھوشن اور ستارہ امتیاز سے نوازا ہے۔

 ڈاکٹر نارنگ کو اس حقیقت کو کھلے دل سے قبول کیا کہ تشہیر نہ ملنے کی وجہ سے ان کی فارسی زنگ آلود ہو گئی تھی۔ تسلی بخش مسکراہٹ اور سادگی کے ساتھ اسے قبول کرنے کے لیے نارنگ جیسی ایمانداری اور دیانت داری کی ضرورت ہے۔

 ڈاکٹر نارنگ صاحب، اس دور میں جب کہ اردو کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسے لعنت و ملامت کا سامنا ہے، اس کی بہتری کے لیے آپ کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ صرف اردو ادب ہی نہیں ادب کی دنیا ہمیشہ آپ کی مقروض رہے گی۔

English Article: Dr Gopichand Narang: Remembering a Colossal Scholar of Urdu in These Fissiparous Times

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/gopichand-narang-scholar-urdu/d/127334

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..