New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 12:56 AM

Urdu Section ( 16 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Golwalkar's Agenda Is Dominating the Social Scene Today گولوالکر کا ایجنڈا آج کے سماجی منظر نامے پر حاوی ہے

 رام پنیانی برائے نیو ایج اسلام

 11 اکتوبر 2023

  انڈیا ٹوڈے نے، 5-4 اکتوبر 2023 کو ممبئی میں منعقدہ اپنے سالانہ کنکلیو میں، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) پر ایک سیشن کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا "RSS 100 years: Why M.S. Golwalkar endures" پینل میں مختلف افکار و نظریات کے ماننے والے شامل تھے۔ اس میں دو اہم موضوعات پر بات کی گئی، ایک گولوالکر کا قومی تعمیر کا تصور اور اقلیتوں کے تئیں ان کا رویہ اور دوسرا ان کا آئین ہند کی تذلیل کرنا تھا۔ ہندوستانی سیاسی منظر نامے پر ان کی سیاست کے حقیقی اثرات پر زیادہ بات نہیں کی گئی جو کہ آج اقلیتوں کی حالت زار اور خود حکمران طبقے کی طرف سے آئین ہند پر تنقید سے ظاہر ہے۔

Illustration: Pariplab Chakraborty

-----

 گولوالکر نے اپنی کتاب We or Our Nationhood Defined میں لکھا: "جرمن نسل کے فخر کی بات اب ہر جگہ ہو رہی ہے۔ نسل اور اس کی ثقافت کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے، جرمنی نے سامی نسلوں کے ملک کو یہودیوں سے پاک کر کے دنیا کو چونکا دیا۔ یہاں پر نسلی تفاخر اپنی بلند ترین سطح پر ظاہر ہوا۔ جرمنی نے یہ بھی دکھایا کہ نسلوں اور ثقافتوں کے لیے، کہ جن کی بنیادیں مختلف ہوتی ہیں، ان کا ایک اور متحد ہو جانا کتنا مشکل ہے، اس میں ہندوستان میں ہمارے لیے ایک اچھا سبق ہے۔ اس کے جواب میں، ہندوتوا قوم پرست شرکاء نے کہا کہ اسے سیاق و سباق کے دائرے میں دیکھنا ہوگا اور باتوں کو چھانٹ کر پیش کرنے سے کسی شخص یا تنظیم کے نظریے کی عکاسی نہیں ہوتی۔

 اس کے جواب میں ایک پینلسٹ نے 1972 میں 'الیوسٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا' کے ایڈیٹر خشونت سنگھ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا، جس کے مطابق گولوالکر نے کہا تھا کہ "تاریخی عوامل کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی وفاداریاں تقسیم کر لی ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ مزید یہ کہ آر ایس ایس کے موجودہ سرسنگھ چالک (سربراہ) موہن بھاگوت نے 2018 میں اپنی وگیان بھون کی تقریروں میں زیادہ مصالحت امیز انداز میں بات کی اور بعد میں یہ بھی کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ انہوں نے لنچنگ میں ملوث افراد کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا، ’’وہ ہندوتوا کے خلاف ہیں… حالانکہ بعض اوقات لوگوں کے خلاف لنچنگ کے کچھ جھوٹے مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں… اس خوف کے چکر میں نہ پھنسیں کہ ہندوستان میں اسلام کو خطرہ ہے… "

M.S. Golwalkar. Photo: Wikimedia commons

------

1939 کی کتاب سے لے کر 1972 کے انٹرویو اور اب موجودہ آر ایس ایس سربراہ کی زبان میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ لیکن ایک لمبے عرصے سے پھیلائے جانے والے آر ایس ایس کے نظریات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی باتوں کا کیا، جس کی تعمیر میں گولوالکر نے اہم کردار ادا کیا؟ آر ایس ایس کی شاخوں، سرسوتی ودھیالیوں (آر ایس ایس کے زیر انتظام اسکول) میں کیا پڑھایا جاتا ہے، قدامت پرست آئی ٹی سیل اور اس عظیم ترین تنظیم کے زیر کنٹرول سوشل میڈیا کے ذریعے کیا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے؟ یہ خالص 'دوسرے سے نفرت' کا نظریہ ہے جو اس کی تعلیمات میں غالب ہے۔ تنظیم کے ارادوں کا تعین محض بدلتے ہوئے بیانات سے نہیں بلکہ سماجی تانے بانے اور بے بس مسلم اقلیت پر پڑنے والے اس کے اثرات کے اعتبار سے کیا جانا چاہیے۔

ایک طرح سے گولوالکر نے 1937 میں جو کہا تھا وہ آج زمینی حقیقت ہے۔ یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات مذہبی اقلیتوں کو باور کراتے ہیں کہ اس نظام میں ان کا مقام ثانوی ہے، اور وہ یہاں شہریوں کے حقوق کا مطالبہ کیے بغیر صرف پسماندہ طبقے کے طور پر رہ سکتے ہیں۔ جب بغیر کسی روک ٹوک کے لنچنگ جاری تھی، بھاگوت اور ان کے قبیلے کے ہونٹوں پر قفل پڑا ہوا تھا۔ اس کثیر جہتی تنظیم کی مختلف شعبوں میں عیارانہ تقسیم، اصل تنظیم کو زمین پر ہونے شرمناک واقعات کی ذمہ داری سے بچا لے جاتی ہے۔ شاکھاؤں میں ٹریننگ، اور کسی اور نہیں بلکہ سابق آر ایس ایس پرچارک اور موجودہ وزیر اعظم کی زبان سے - 'ہم دو ہمارے دو-وو پانچ انکے پچیس، 'انہیں ان کے کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے'، 'شمشاں- قبرستان' 'رانا پرتاپ نے گائے کو بچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی' - جیسے توہین آمیز جملے آج کی سماجی سوچ میں سرایت کیے ہوئے ہیں، جو نفرت، تشدد اور معاشرے میں اختلاف اور تقسیم کو جنم دیتے ہیں۔

A young Narendra Modi at an RSS event. Photo: narendramodi.in

------

یہی وہ چیز ہے جس کو آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدیداروں سے اس وقت منظوری ملتی ہے جب تشدد کے ملزمان کو ان کے رکن اسمبلی نے ہار پہنائیں، جب بلقیس بانو کے قاتلوں اور عصمت دری کرنے والوں کو وقت سے پہلے رہا کر دیا جائے اور عوام کے سامنے ان کا والہانہ استقبال کیا جائے۔ NRC-CAA کے ذریعے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، جہاں مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کا اعلان ایک معمولی بات ہے، جہاں بہت سے مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ 1939 میں گولوالکر نے جو نظریہ پیش کیا تھا وہ یہ نہیں تو اور کیا تھا؟

 جہاں تک آئین کا تعلق ہے تو جب گولوالکر آر ایس ایس کے سربراہ تھے، تو انہوں نے لکھا تھا، "لیکن ہمارے آئین میں، قدیم بھارت کے منفرد آئین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ منو کے قوانین اسپارٹا کے لائکرگس یا فارس کے سولون سے بھی بہت پہلے لکھے گئے تھے۔ آج تک اس کے قوانین، جیسا کہ مانوسمرتی میں بیان کیے گئے ہیں، کی پوری دنیا تعریف کرتی ہے اور لوگ بے ساختہ اس کی اطاعت تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے آئین سازوں کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔‘‘

 اس کا دفاع قوم پرستی کے حامیوں نے اس بنیاد پر کیا ہے کہ اس معاملے پر مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔ بالکل سچ۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ موہن بھاگوت نے اپنے وگیان بھون کے خطاب میں آئین ہند کی تمہید پڑھی تھی۔ لیکن قول و فعل کے تضاد اور کانٹے دار زبان کے استعمال کے درمیان، ہمارے آئین کی جمہوری، سیکولر اور سوشلسٹ ساکھ، نظریاتی طور پر ہندو قوم پرست طاقتوں کے شدید حملوں کی زد میں ہے۔ جے این یو کے وائس چانسلر شتیشیر دھولیپوڈی جیسے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ "ہندوستان کو ایک آئین کا پابند ملک بنانا اس کی تاریخ، قدیم ورثے، ثقافت اور تہذیب کو نظر انداز کرنا ہے۔ میں ہندوستان کو ایک تہذیبی ریاست مانتا ہوں۔

 ایک اور نظریہ ساز، جے سائی دیپک کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین دور استعماریت کی علامت ہے، اور اس کی جڑیں عیسائی اخلاقیات میں ہیں۔ ان کے مطابق، فطرت، مذہب، ثقافت، تاریخ، تعلیم اور زبان کے شعبوں میں آئین ہند کو الگ کرنے کے لیے استعماری ذہنیت کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ استعماری زبان میں سوچنے سے ذہن استعماریت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

 اور رہی سہی کسر وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) کے سربراہ، ببیک ڈیبرائے نے یہ کہہ کر پوری کردی کہ، "... یہ آئین نوآبادیاتی دور کی میراث ہے اور یہ اس کی مختلف دفعات، خاص طور پر سوشلزم، سیکولرازم، انصاف، مساوات اور آزادی کی قدروں پر سوال کھڑے کرتا ہے۔" اس پر بے دلی کے ساتھ یہ کہنے کی کوشش کی گئی کہ ڈیبرائے کی یہ بات وزیر اعظم کے ای اے سی کے خیالات کی عکاسی نہیں ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ گولوالکر یہی چاہتے تھے اور آر ایس ایس کا نظریہ بھی یہی ہے۔

 اس کے بنیادی ایجنڈے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اور کوششیں جاری ہیں کہ اسے سب کے سامنے مزید بنا سنوار کر پیش کیا جائے۔ اگرچہ پینلسٹ میں سے کچھ اسے بھولی بسری بات کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کریں گے، لیکن سچ یہ ہے کہ اگرچہ یہ بات پرانی ہے، لیکن گولوالکر کا ایجنڈا آج سماجی منظر نامے پر حاوی ہے۔

 ------

 ماخذ: RSS: 100 Years and the Dark Shadow of Golwalkar's Legacy

-----------------------

English Article: Golwalkar's Agenda Is Dominating the Social Scene Today

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/golwalkar-agenda-social-rss/d/130908

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..