ارشد عالم، نیو ایج اسلام
29 مئی 2023
اسلام کا سب سے بڑا مکتب
فکر اشعری، اس سوال کا تسلی بخش جواب دینے میں ناکام ہے
اہم نکات:
1. اشعریہ کی ہمیشہ یہی
دلیل رہی ہے کہ ہر چیز خدا کی طرف سے ہے۔ کہ اشیاء اور اعمال میں کوئی ذاتی
خصوصیات نہیں ہوتیں۔
2. اس فلسفیانہ موقف سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ
خدا اچھائی اور برائی سے بالاتر ہے اور وہ ہمیں ہمیشہ سچ بتانے کا پابند نہیں ہے۔
3. غزالی اور فخر الدین
رازی نے بھی اس مسئلہ پر لکھا ہے۔ ہندوستانی سیاق و سباق میں، 18ویں صدی میں اس
مسئلے پر طویل بحث ہوئی ہے۔
4. مذہبی مسائل تعلق
بالآخر معاشرے اور سیاست کی تنظیم یا تنظیم نو سے ہوتا ہے
------
بہت سال پہلے مجھے ایک
بریلوی مدرسے کے پرنسپل نے بتایا کہ دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ جھوٹ بول سکتا
ہے۔ بریلوی ہونے کی وجہ سے ان کی رائے یقیناً دیوبندیوں سے مختلف تھی۔ بریلوی عالم
نے مجھ سے کہا کہ جو چیز فطری طور پر عیب دار ہو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب
کرنا کبھی بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ اس نے مجھے بتایا کہ سنی (بریلوی) تنظیم کے بزرگ
اس لیے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ دیوبندی دائرہ اسلام سے باہر ہیں۔ چونکہ
اسلامی علوم میں میری مہارت نہیں تھی اس لیے میں نے ان علمی دلائل پر خاص توجہ
نہیں دی جو وہ عالم پیش کر رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ ان متعدد مسائل میں ایک اور
اضافہ ہے جن ک بنیاد پر مسلم معاشرے میں مختلف مسالک کے درمیان اختلافات پیدا کیے
گئے اور سرحدیں کھینچی گئیں۔
تاہم، ایسا معلوم ہوتا ہے
کہ یہ ایک بہت ہی قدیم مسئلہ ہے جس سے علمائے کرام نبردآزما ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ
اگر خدا سب سے طاقتور ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو وہ نہ کر سکے تو نظریاتی
طور پر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جھوٹ بول سکتا ہے۔ بریلوی عالم کے ساتھ میری گفتگو کے
تناظر میں، انہوں نے مجھے بتایا کہ دیوبندیوں کا استدلال ہے کہ یہ اللہ کے اختیار
میں ہے کہ کوئی دوسرا محمد یعنی اسلام کا پیغمبر اور خاتم النبیین بھی پیدا کر
سکتا ہے۔ تاہم، ان (بریلوی عالم) کا عقیدہ تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی
کہہ دیا ہے کہ نبی کامل ہیں، اس لیے کوئی چیز کمال سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔ توسیعی
طور پر، یہ بحث کرنا کہ اللہ ایک اور محمد کو پیدا کر سکتا ہے، جھوٹ اور گستاخی کے
مترادف ہے کیونکہ اس اسے خدا کے کلام میں ہی اختلاف لازم آئے گا۔
درحقیقت، دوسرے محمد
(امکانِ نذیرِ محمدی) کی تخلیق کے امکان کی بحث شروع کرنے والے دیوبندی نہیں ہیں۔
ہندوستانی تناظر میں، یہ بحث شاہ اسماعیل کی تقویت الایمان کی اشاعت سے شروع ہوئی،
جس میں انہوں نے یہ کہا کہ ایک اور محمد پیدا کرنا خدا کے اختیار میں ہے، کیونکہ
محمد کے تمام اختیارات خدا نے ہی ان کے سپرد کیے تھے۔ دیوبند والے شاہ اسماعیل کو
اپنا نہیں مانتے لیکن بریلوی علماء کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
لیکن جو بات سمجھنا ضروری
ہے وہ یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ اس وقت کے ممتاز علمائے کرام بشمول امداد اللہ مکی اور فضل حق خیرآبادی
نے اس تنازعہ میں خامہ فرسائی کی اور شاہ اسماعیل سے اختلاف کیا۔ اور اس کی وجہ یہ
ہے کہ امکانِ نذیرِ محمدی کے بارے میں ہونے والی بحث کا اثر دوسرے محمد کی تخلیق
کے نظریاتی امکان پر نہیں رکتا بلکہ خود تنزیھ باری تعالیٰ تک جاتا ہے۔
اس لیے کہ اگر ہم مان لیں
کہ خدا جھوٹ بول سکتا ہے تو قرآن میں موجود خدا کا کلام ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔ اگر
خدا جھوٹ بول سکتا ہے، تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ محمد واقعی ایک نبی تھے
جو اس کی طرف سے تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک ابدی اور لازوال پیغام کے ساتھ
بھیجے گئے تھے۔ مختصر یہ کہ مسلمانوں کے عقیدے کی پوری عمارت گر سکتی ہے اگر ہم
ایک ایسے خدا کو مان لیں جو جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام
نے یہ ثابت کرنے کے طریقے وضع کیے ہیں کہ اللہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ایسے کسی بھی
جھوٹے خدا کے امکان کی مکمل نفی کرنے والے سب سے بڑے عالم دین غزالی ہیں۔ ان کی
دلیل ہے کہ "[خدا کی طرف سے] جھوٹ کو رد کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ کلام کی
ایک خصوصیت ہے، اور خدا کا کلام کسی آواز پر مشتمل نہیں کہ اس میں غلطی واقع ہو
جائے۔ بلکہ یہ ایک صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ انسان جو کچھ بھی جانتا
ہے اس کے لیے اس کے نفس میں ایک تیقن ہوتا ہے جو وہ جانتا ہے جو اس کے علم کے
مطابق ہے اور یہاں جھوٹ کا تصور بھی نہیں۔ ایسا ہی خدائے بزرگ و برتر کے معاملے
میں بھی ہے۔"
نبوت کے سوال پر، غزالی
ہمیں خدا کی تخلیق کردہ کائنات میں نظام اور ترتیب کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتے
ہیں۔ مثال کے طور پر، خشک کپاس کے ساتھ رابطے میں آنے والے آگ کے مشاہدہ سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ کپاس بھی جل جائے گا۔ غزالی کا کہنا ہے کہ اس طرح، ہم بجا طور پر
یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں، کہ اگر اگلی بار جب آگ خشک روئی سے ٹکرائے گی، تو نتیجہ
وہی نکلے گا۔ لیکن اگر جعل سازوں کی حمایت میں خدا کا معجزات پیدا کرنا مان لیا
جائے، تو اس میں کوئی قابل مشاہدہ نمونہ یا ترتیب نظر نہیں آتی جس کی طرف ذہن
جائے۔ چنانچہ غزالی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خدا جعل سازوں کو نبی بنا کر طاقت نہیں
دیتا۔ کہ انبیاء اس لیے نبی ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں اور خدا نے
انہیں ہمیشہ کے لیے نبی بنایا ہے۔
علمائے کرام نے بھی نبوت
کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی وقت اور توانائی صرف کی ہے۔ کیونکہ اگر یہ خدا
کے اختیار میں ہے کہ وہ کچھ بھی اور سب کچھ کرے تو اس کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ
کسی جھوٹے (حقیقی نبی کی بجائے) کو سرفراز کرے اور اس سے معجزات صادر کروائے۔ تو
پھر ہم حقیقت میں یہ کیسے جان سکیں گے کہ محمد واقعی ایک نبی ہیں اور ان کا پیغام
ہمیشہ کے لیے حق ہے؟ فخرالدین رازی جیسے علمائے کرام نے اس مسئلے پر غور کیا اور
دلیل دی کہ "یہ حتمی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ہر وہ شخص جس کی اللہ
تعالیٰ حمایت کرتا ہے سچا ہے۔ یہ صرف اس صورت میں سمجھا جا سکتا ہے جب یہ ثابت ہو
جائے کہ جھوٹ بولنا خدا کے لیے ناممکن ہے۔ اگر کوئی خدا کے اعمال کی ذاتی نیکی یا
برائی کا انکار کرتا ہے، تو ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ وہ جھوٹ بول
رہا ہے؟" رازی دلیل دیتے ہیں کہ خدا کے لیے جھوٹ بولنا ناممکن ہے کیونکہ جھوٹ
ناقص کی علامت ہے جو خدا نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں، ’معجزات‘ سچے نبی کے الہی مشن
کی تصدیق کرتے ہیں۔ رازی نے موسیٰ کی مثال دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تمام
انبیاء کرام کو معجزاتی قوتیں عطا کی گئی ہیں، جو کہ ایک ایسی صفت ہے جو انہیں خدا
کی طرف سے عطا کی جاتی ہے۔ جعل ساز موجود ہو سکتے ہیں، لیکن وہ معجزے نہیں کر
سکتے۔
لیکن یہ "شواہد"
یقینی طور پر پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں ہیں۔ یہ اہم سوال افلاطون کے یوتھیفرو
میں موجود ہے، جہاں سقراط پوچھتا ہے کہ کیا "تقوی" صرف وہی ہے جس کا حکم
اللہ دیتا ہے یا اللہ صرف اسی بات کا حکم دیتا ہے جو فطری طور پر تقوی ہے۔ کیا لوٹ
مار، قتل یا غریبوں کی مدد کرنے جیسے کاموں میں کچھ اخلاقی خصوصیات ہیں جن کی وجہ
سے خدا ان سے منع کرتا ہے یا ان کا حکم دیتا ہے؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ چوری اور
قتل جیسی حرکتیں صرف اس لیے بری ہیں کہ خدا ان سے منع کرتا ہے۔
جس بریلوی عالم سے میں نے
بات کی وہ شاید نہیں جانتے تھے کہ اسلامی روایت کے اندر اس مسئلے پر غالب نظریہ
مؤخر الذکر رہا ہے: کہ کوئی عمل اچھا ہے یا برا خدا کے حکم پر منحصر ہے۔ اشعریہ
اور ماتریدیہ کے دو غالب مکاتب فکر نے اس نظریے کی حمایت کی، جسے "نیک اخلاق"
کہا جا سکتا ہے۔ تاہم، معتزلہ جیسے مکاتب اور شیعیت کی کچھ شاخیں افلاطون کے موقف
کے حامی ہیں کہ سماجی اعمال میں فطری طور پر اخلاقی خصوصیات ہیں۔ چونکہ معتزلہ
اسلامی تاریخ کے بالکل ابتداء میں ہی معدوم ہو گئے تھے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ
اسلامی عقائد میں اشعریہ کا نظریہ غالب رہا۔ ان کا ماننا ہے کہ خدا اچھے اور برے
کے بارے میں انسانی تعصبات کا پابند نہیں ہے۔ وہ جیسا چاہے کر سکتا ہے اور جو کچھ
وہ کرتا ہے اس کا جوابدہ نہیں ہے۔
اشعری "نیک
اخلاقیات" کے سب سے بڑے پرچارک رہے ہیں، جو دلیل دیتے ہیں کہ ہر چیز لازمی
طور پر خدا کی طرف سے ہے۔ کہ وہ اکیلا ہی ہر چیز کا حتمی سبب ہے۔ لیکن اس سے
مندرجہ ذیل سوال پیدا ہوتا ہے: اگر الہٰی حکم کے علاوہ کسی چیز کی باطنی اخلاقی
قدر نہیں ہے اور خدا جو چاہے کرنے اور حکم دینے میں آزاد ہے، تو کیا اس بات پر
یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ وہ ہمیں سچ کہنے کا پابند ہے؟ مثال کے طور پر، وہ
وعدہ کرتا ہے کہ عبادت کرنے والوں کو جنت میں جگہ دی جائے گی لیکن کیا وہ اس وعدے
کو پورا کرنے کا پابند ہے؟
"خدائی حکم کی رہنمائی" میں ایک اور مسئلہ یہ ہے: اس بات
کی کیا ضمانت ہے کہ خدا نے جعل سازوں اور جھوٹوں کو خدا کے "ترجمان"
ہونے کے دعووں کی حمایت میں معجزات ظاہر کرنے کے قابل نہیں بنایا ہے؟ معتزلہ کے
لیے، جواب آسان تھا: کہ خدا کامل ہے اس لیے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا کیونکہ جھوٹ
ناقص کی علامت ہے۔ تاہم، اسی طرح کا دعویٰ رازی اور غزالی جیسے اشعری بھی نہیں کر
سکتے کیونکہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ چیزوں یا اعمال میں فطری یا باطنی
خصوصیات ہو سکتی ہیں۔ ان کا تعلق اس مکتب فکر سے ہے جہاں ہر چیز لازمی طور پر خدا
کی طرف سے ہے، بشمول جھوٹ یا سچائی کے۔ رازی اور غزالی کی تحریروں میں ہمیں اس
سوال کے جواب میں ان کی بے چینی صاف نظر آتی ہے۔ بعض اوقات، وہ قرآن کا حوالہ پیش
کرتے ہیں (چونکہ قرآن سچا ہے، خدا کو بھی سچا ہونا چاہیے) لیکن یہ دلیل فرسودہ ہے
جس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو وہ معتزلہ کے اصول کو استعمال کرتے
ہیں کہ جھوٹ بولنا فطری طور پر بری بات ہے، اس طرح وہ اپنے اشعری فلسفے سے ہی
اختلاف کرتے ہیں۔
یہ صرف ایک مذہبی سوال
نہیں ہے بلکہ مسلم معاشرے اور سیاست پر اس کے گہرے اثرات ہیں۔ اگر ہم تسلیم کرتے
ہیں کہ اعمال میں ایسی خصوصیات ہیں جو خدا کے حکم پر منحصر نہیں ہیں، تو ہم خدا سے
ڈرے بغیر اخلاقی خوبیوں کے مالک ہو سکتے ہیں۔ ایسی اخلاقی اور معنوی اقدار معاشرے
اور حکومت کو بغیر کسی خدا یا مذہب کے حوالے سے منظم کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ شاید
یہی سیکولر امکانات کا ادراک ہے جس نے غزالی جیسے اشعری علماء کو معتزلہ اور دوسرے
عقلیت پسند فلسفیوں کا تعاقب کرنے اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کی
ترغیب دی۔
سوال اب بھی مختلف شکلوں
میں پوچھا جا رہا ہے۔ لیکن غالباً اسلامی مکتب فکر کے علمی ذخیرے میں ایسا کچھ
نہیں جو اس کا جواب دے سکے۔
English
Article: Is God Bound To Tell Us The Truth? This Old
Theological Controversy Has Deep Implications for Present Secular Muslim
Society and Polity
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism