غلام نبی خیال
قسط تیسرا
18جولائی،2021
فردوسی کا شاہنامہ
شاہنامہ حکیم الوالقاسم
فردوسی طوسی (940-1020)پارس کی وہ قدیم داستان ہے جو فارسی زبان میں دنیا کا طویل
ترین رزمیہ کہلاتا ہے۔”بادشاہوں کی کتاب“نامی پچاس ہزار ابیات پر مبنی یہ شعری کا
رنامہ فردوسی نے اپنی عمر کی تیس سے زیادہ سال میں قلم بند کرلیا تھا۔ لیکن اسے کی
املاء وہ بجائے خود ایک دردناک واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہنامہ بادشاہ وقت محمود
غزنوی (971-1030) کے دور میں تخلیق ہوا جب غزنوی نے فردوسی کو دربار میں بلا کر
پارس کی شان رفتہ کو نظم کرنے کی درخواست ا س کے سامنے رکھی اور خود یہ پیش کش بھی
کی کہ وہ شاعر کو ایک ایک شعر کے عوض ایک ایک اشرفی عطا کرے گا۔ تو فردوسی نے تیس
سال تک خون پسینہ ایک کر کے اور آنکھوں کا خون جلا کر بالآخر شاہنامہ مکمل کر ہی
لیا۔ عظیم الشان اہکار فردوسی نے 977ء اور 1010 ء کے درمیان مکمل کرلی اور اسے کئی
ممالک یعنی پارس، افغانستان، تاجکستان اور ساری فارسی دان دنیا میں قومی رزمیہ
قرار دیا گیا:
بسے رنج بردم دریں سی
عجم زندہ کروم بدیں پارسی
(میں نے ان تیس برسوں میں بہت تکلیف اٹھائی، لیکن اسی فارسی
(شاہنامہ) سے عجم کو دوبارہ زندہ کر لیا)
فردوسی خوشی خوشی اپنے
عظیم کارنامے کا مسودہ لے کر دربار شاہی میں چلا گیا،جہاں یہ سن کر اس کے دل کو
زبردست ٹھیس لگی کہ بادشاہ اپنے وعدے سے مکر گیا تھا اور وہ ایک شعر کے لئے ایک
اشرفی دینے سے منکر ہوا۔ فردوسی عالم مجبوری میں خاموشی سے دربار سے نکلا۔بادشاہ
اس کے بعد اس اضطراب میں مبتلا ہوا کہ اس نے فردوسی کے ساتھ سراسر بے انصافی کی
ہے۔ اس نے ایک قاصد کے ہاتھوں ساری کی ساری رقم فردوسی کے ہاں روانہ کی۔ قاصد جب
شاعر کے گھر کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں سے فردوسی کا جنازہ نکل رہا
تھا۔
مشرق میں فارسی زبان نے
ادبیات عالیہ کو کئی عدیم المثال شہبہ پاروں سے مالا مال کیا ہے جن میں مثنوی
رومی، دیوان حافظ، گلستان اور بوستان رباعیات عمر خیام وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ان
میں شاہنامہ اس وجہ سے ایک منفرد فن پارہ مانا جاتا ہے کہ اس میں فردوسی نے قدیم
ایران کو ادبی،ثقافتی اور تاریخی لحاظ سے ساری دنیا کے کینواس پر نمایاں کیا ہے۔
شاہنامہ میں بہت حد تک
ایران کے دیومالائی اور کسی حد تک اس کے قدیم تاریخی ماضی کے واقعات تحریر کئے گئے
ہیں۔ اس میں دنیا کے آغاز سے لے کر ہم عصر تاریخ کے کئی حکایاتی اور حقیقی واقعات
کا بیان ہے جن سے وابستہ کردار رستم، سہراب، شہرزاد، پرویز، اردشیر، شہریار،
شہبرام، نوشیرواں، سام، نریمان آج بھی ہمارے معاشرے میں جانے او رپہچانے جاتے ہیں۔
عام اتفاق ہے کہ ایران
میں فردوسی کے درجے کا کوئی شاعر آج تک پیدا نہیں ہوا۔ صرف انوری ان شعراء میں ہے
جن کو لوگوں نے فردوسی کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔
رزمیہ شاعری کے بارے میں
مولانا شبلی نعمانی کی یہ رائے ہے:”زرمیہ شاعری کے کمال کی چند شرائط ہیں۔ واقعہ
ایسا مہتمم بالشان ہو جس نے دنیا کی تاریخ میں کوئی انقلاب پیدا کردیا ہو، لڑائی
کے ہنگامہ کا بیان اس زور وشور اور پررعب طریقے سے کیا جائے کہ دل دہل جائیں،
معرکہ جنگ کے تمام سازو سامان اور آلات و اسلحہ جنگ کی تفصیل سے بیان کئے جائیں،
سالار فوج او رمشہور بہادر کی لڑائی کے بیان میں لڑائی کے تمام داؤ پیچ ایک ایک کر
کے دکھائے جائیں۔ شاعری کے انواع میں زرمیہ شاعری بہترین انواع ہے۔ یورپ کے نزدیک
دنیا کا سب سے بڑا شاعر ہومر ہے،اس کا کارنامہ فخریہی رزمیہ شاعری ہے۔ مہابھارت جس
کو ہندو آسمانی کتاب سمجھتے ہیں اور وہ بھی ایک زرمیہ نظم ہے اور اگر ان دن دونوں
کے پہلو میں کسی کو جگہ دی جاسکتی ہے تو وہ شاہنامہ ہے۔“
ڈانٹے کی ڈوائن کا میڈی:
ڈانٹے (1265-1311 ق م)
عیسوی سنہ کے 1263سال بیت چکے تھے او ر64واں سال اگست کے مہینے تک پہنچا تھا کہ
اٹلی کے شہر فلورٹس میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ لوگ ششدر ہوکر رہ گئے۔ کہتے ہیں
کہ یہاں کے لوگوں نے آسمان پر ایک ایسا دم دار ستارہ دیکھا جس نے دم زدن میں آکاش
سے لے کر زمین تک ایسی روشنی پھیلائی کہ کائنات کا ذرہ ذرہ تابناک ہوا۔ عوام نے
قیاس آرائیاں کیں کہ کچھ بُرا پیش آنے والا ہے، مگر بزرگوں نے یہ بشارت دی کہ اس
شہر میں ایک بہت بڑا شخص جنم لے گا۔ چند ماہ بعد یعنی 1265 میں مئی کے اخیر میں
ڈانٹے پیدا ہوا۔ اس کا نام ڈانٹے الیکھیر ی رکھا گیا مگر بعد میں وہ ڈانٹے ہی کے
نام سے مشہور ہوا۔ وہ ڈانٹے جب نو سال کی عمر کو پہنچا تو وہ ایک محفل میں سات
سالہ بیٹرس پر عاشق ہوا جو بعد میں اس کے خوابوں کی ملکہ اور خیالوں کی تحریک بن
گئے۔ نو سال بعد اس نے ملاقات کا بیان ایک تخلیق ’لاوتانووا‘ میں ان الفاظ میں قلم
بند کیا، ”اس دن وہ بہترین رنگ کا پو شاک پہن کر آئی تھی، لاجوردی رنگ کا ہلکا او
ربے حد دل نشین۔ سچ پوچھو تو کہوں کہ اس لمحے میرے روم روم میں اس شدت سے تھر تھر
اہٹ پیدا ہوئی کہ میرے جسم کے ہلکی نبض بھی ہلنے لگی او راسی گھبراہٹ کے عالم میں
میری زبان سے یہ الفاظ نکلے:
دیکھو! اس آقا کو جو میری
طرف آرہا ہے۔
وہی میرا حاکم بن جائے
گا۔
ڈانٹے اور بیٹرس کا یہ
عشق چند سال تک قائم رہنے کے بعد اس وقت منطقی نتیجے کو پہنچا جب بیٹرس کی شادی
شہر کے ایک رئیس سے ہوئی۔
فلورنس میں جب اقتدار کے
پجاریوں نے سفید اور کالے کے نام پر خانہ جنگی اور افراتفری کا بازار گرم کیا تو
ڈانٹے شہر سے دور ایک پرسکون جگہ پر رہائش پذیر ہوا، لیکن اس کے غیر حاضری میں
کالے لوگوں نے اس پر مقدمہ چلا یا اور یہ سزا تجویز ہوئی کہ اسے پھانسی دی جائے یا
اگروہ واپس آیا تو اسے زندہ جلایا جائے۔ یہ سزا بہر حال عمل میں نہیں لائی جاسکی، کیونکہ
جب ڈانٹے کو اس کا پتہ چل گیا تو اس نے دوبارہ فلورنس کی سرزمین پر قدم نہیں
رکھا۔جلا وطنی کے دوران ہی ڈانٹے کو ڈواین کامیڈی لکھنے کا خیال آیا۔ جس نے بعد
میں اسے اٹلی کے ملک الشعراء کا درجہ بخشا۔
ڈواین کامیڈی تین حصوں
میں یعنی جہنم، اعراف اور جنت پر مشتمل ہے۔ یہ شاہکار ڈانٹے کے تصوراتی سفر پر
مبنی ہے جس میں وہ ان تینوں مابعد حیات جگہوں کا سفر اختیار کرتا ہے اور اس سفر کے
دوران ایسی بے شمار تاریخی ہستیوں کے ساتھ ملاقات کر کے آگے بڑھتا ہے۔ اس سارے
سفرمیں ڈانٹے کا رہبر ورجل ہوتا ہے۔ کلاسیکی ادب کے نقاف ڈانٹے کی یاداشت پر حیران
ہیں کہ اس کے ذہن میں اتنے نام موجود تھے۔ ڈواین کامیڈی کا مطالعہ کرنے کے بعد ٹی
ایس ایلیٹ نے کہا کہ ”دنیا کو صرف دوہستیوں نے آپس میں بانٹا ہے اور وہ ہیں ڈانٹے
اور شیکسپیر،تیسرا کوئی ان کا شریک نہیں۔“
ڈانٹے اپنے ایک مراسلے
میں ڈواین کامیڈی کے تعلق سے لکھتا ہے کہ ”اس کا مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں رہنے
والوں کو دکھوں او رمصائب کی حالت سے نکال کر مسرت اور سرور کے عالم میں سرفراز
کیا جائے۔“ حقیقت بھی یہی ہے کہ ڈانٹے کی وفات کے فوراً بعد یہ تخلیق سارے روم میں
گھر گھر پڑھی جانے لگی اور اسے قومی وراثت کا درجہ نصیب ہوا۔ کٹر عیسائیوں نے تو
اسے ایک مذہبی صحیفے کا درجہ دیا، کیونکہ اس میں عیسائیت کی زور دار تبلیغ کے ساتھ
ساتھ دیگر ماہب کے تئیں ہتک آمیز زبان سے کام لیا گیا تھا۔کارلائل نے بھی ان
مداحوں کی ہاں میں ہاں ملا کر کہا کہ ”ڈواین کامیڈی جیسی مقدس کتاب لکھ کر ڈانٹے
نے قوم میں روحانیت ایک نیک اعمال کی بہترین صفات پیدا کیں۔“اپنی زندگی کے آخری
ایام میں جب ڈانٹے واپس وطن لوٹا تو وہاں کی خواتین نے سرگوشیاں کرتے ہوئے ایک
دوسرے سے کہا ”دیکھو! یہ وہی ہے جو دسری دنیا میں چلا گیا تھا اور وہاں سے مردوں
کی خبر لے کر آیا ہے“۔
اکیس سال تک جلا وطنی کی
زندگی گزارنے کے بعد ڈانٹے نے اپنی جائے پیدائش سے دور رادینا کے شہر میں آخری
سانس لی۔ ڈانٹے کی وفات کے پانچ سو سال بعد لارڈنائرن اس کی قبر پر گیا او روہی
بائرن جو اپنی زندگی میں زندوں کے سامنے بھی نہیں کھلا تھا اس کے مقبرے کے سامنے
جھک کر ایک نومولود بچے کی طرح زار زار رونے لگا۔(جاری)
------------
Related
Article:
Ten Great books of the world of literature - Part 1 دنیائے ادب کی دس عظیم کتابیں
Ten Great books
of the world of literature - Part 2 دنیائے
ادب کی دس عظیم کتابیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism