New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 11:02 AM

Urdu Section ( 18 Apr 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Letters of Khawja Gharib Nawaz to Hadrat Qutubuddin Bakhtiyar Kaki- Secrets of Obligatory Pilgrimage (Hajj) - Part 5 سلطان الہند کے خطوط سلطان دہلی کے نام ( قسط ۵) حج کی حقیقت

 غلام غوث صدیقی 

 حضور سلطان الہند  خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس اللہ سرہ  اپنے خلیفہ ارشد حضور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ  کو حج   کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حج کی حقیقت

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اے عمر (رضی اللہ عنہ)! یقین جانو کہ خانہ کعبہ انسان کا دل ہے ۔چنانچہ ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے ‘‘قلب الانسان بیت الرحمن ’’ یعنی انسان کا دل در اصل خانہ کعبہ ہے ، بلکہ فرمان مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ‘‘قلب المومن عرش اللہ تعالی’’ یعنی مومن کا دل عرش الہی ہے ۔پس کعبہ دل کا حج کرنا چاہیے۔

طواف کعبہ دل گن اگر دلے واری / دلے است کعبہ اعظم توگل چہ پنداری

زعرش و کرسی و لوح و قلم فزوں باشد / دلے خراب  کہ اورانہ ہیچ نہ شماری

قلب از نور وحدت گشت پیدا / زاز ما در پدر باشد ہویدا

نہ زاز بادونہ آتش آب خاکی / قلب نوریست قدرت شد زپاکی

لہذا دل کعبہ سے افضل ہے

دل بدست آور کہ حج اکبر است / از ہزاروں کعبہ یک دل بہتر است

حضرت  عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ دل کا حج کس طرح ہونا چاہیے ؟ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ انسان کا وجود بمنزلہ ایک چار دیواری کے ہے ۔اگر اس چار دیوار میں سے شک و وہم غیر اللہ کا پردہ دور کر دیا جائے ، تو دل کے صحن میں خدا کی ذات کا جلوہ نظر آئے گا۔حج کعبہ کا یہی مقصد ہے ۔

دل کعبہ اعظم است بکن خالی از بناں / بیت المقدس است مکن جائے دیگراں

نیز ایسا حقیقی حج کرنے سے یہ بھی مقصو دہے کہ انسان اپنی خود ہستی کو ا س طرح مٹادے کہ ہستی کا ذرہ بھر بھی باقی نہ رہے حتیٰ کہ ظاہرو باطن یکساں پاکیزہ ہو جائے اور دِل صفاتِ الٰہی سے متصف ہو جائے۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔کہ حضور اپنی ہستی کو فنا کیونکر حاصل ہو سکتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ محبوب حقیقی یعنی خدا تعالٰی پر عاشق ہونے سے جو شخص عاشقِ الٰہی ہو گیا ۔وہ فنا فی اللہ ہو گیا اور جو فنا فی اللہ ہو گیا۔ وہ ذاتِ حق کا مظہر ہو گیا ۔
پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ حضرت! دِل کو خانہ خدا اور عرشِ الٰہی کیوں قرار دیا ہے؟
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے جواب دیا کہ ارشاد باری ہے: وَ فِیْ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ یعنی خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ لوگو ! میں تمہارے اندر ہی ہوں۔پھر تم مجھے کیوں نہیں دیکھتے؟
اے عمر( رضی اللہ عنہ)!رہنے کی جگہ کو گھر کہتے ہیں۔چونکہ خدا تعالٰی دِل میں رہتا ہے۔لہٰذا خانۂ خدا اور عرشِ الٰہی قرار دیا۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سوال کیا ۔کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اس خاک کے پتلے میں بولنےوالا۔سننے والا۔اور دیکھنے والا کون ہے اور کیسا ہے
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔کہ وہی (خدا ) بولنے والا ہے۔وہی سننے والا ہے اور وہی دیکھنے والا ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ پر سید،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ،ذاتِ خاص حضرت چہ باشد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فرمود۔(اَنَا اَحْمَدٌبِلَا مِیْمٍ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔کہ حضرت کعبۂ دِل کا حج کون ادا کرتا ہے؟
آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) نے فرمایا۔کہ خود ذاتِ خدا وندی۔یعنی جب بندگئ نفس کا پردہ دور کر دیتا ہے اور معبدومعبود کے درمیان کوئی پردہ باقی نہیں رہتا ۔تو وہ صفاتِ الٰہی سے متصف ہو جاتا ہے اور اس کے دِل میں ذاتِ الٰہی کی سمائی ہو جاتی ہے۔خدا تعالٰی کا بندے کے دل میں سما نا ہی کعبۂ دِل کا حج (حج حقیقی) ہے۔

حضرت عمر نے پھر سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سب کچھ اسی ذات مقدس کا ظہور ہے تو پھر یہ رہنمائی کس کو اور کیونکر ہے؟ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ خود ہی رہنما ہے اور خود اپنی ہی رہنمائی کرتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر یہ گوناگوں نقش و نگار کیوں ہیں؟

پیغمبر خدا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ رہنمائی کی مثال سودا گری کی سی ہے کہ جس چیز کا کوئی گاہک ہو سوداگر اس کو وہی چیز دیتا ہے ۔گیہوں کے  خریدار کو جوہر ہرگز نہیں دیے جاتے  اور نہ جو کے خریدار کو گیہوں دیے جاتے ہیں۔ اے عمر (رضی اللہ عنہ)! پیغمبر وں کی مثال ایسی ہے جیسے اطبا یعنی جس طرح طبیب مریض کی طبیعت اور مرض کے موافق دوا دیتا ہے اور اسی موافق طبع دوا کے اس مرض کو شفا حاصل ہوتی ہے اسی طرح پیغمبر بھی روحانی ایمانداروں کو ان کی باطنی استعداد اور روحانی مرض کے موافق دوائے معرفت عطا فرماتے ہیں جس کی بدولت مریض روحانی شفائے کلی پاکر عارف الہی بن جاتا ہے ۔

اے عمر (رضی اللہ عنہ)! سالکان طریق چار گروہوں میں منقسم ہیں اور ان چار گروہوں میں بلحاظ مراتب و استعداد باطنی زمین و آسمان کا فرق ہے۔

پہلا گروہ عوام العالم میں مسلمانوں کا ہے ۔یہ لوگ ارباب ظاہر کہلاتے ہیں  اور راہ شریعت پر چلنے والے ہیں، عشق الہی کی چار سیڑھیوں میں سے پہلی سیڑھی پر اہل شرع گامزن ہوتے ہیں ، لیکن اگر اسی سیڑھی پر رہیں ، معرفت الہی کی اگلی سیڑھیوں پر چلنے کی کوشش نہ کریں حتی کہ ان کی عمر ختم ہو جائے تو یہ لوگ دین و دنیا سے محروم اور ظاہر پرست ہو کر مر جاتے ہیں یہ گروہ اہل شریعت کہلاتا ہے ۔

نہ خداملا نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

دوسرا گروہ  عوام الخواص کا ہے۔ان لوگوں میں یہاں دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔عوام کا بھی اور خاص کا بھی۔یہ گروہ روحانیت کی طرف متوجہ تو ہوتا ہے لیکن چونکہ رموز باطنی سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔کبھی دنیا کے طالب ہوتے ہیں ، کبھی دین کے طالب ، لہذا ان کی باطنی آنکھیں نور باطنی سے پورے طور پر منور نہیں ہوتیں۔اس گروہ کو اہل طریقت کہتے ہیں ۔

تیسرا گر وہ  خالص الخاص کا ہے ۔ انہیں اہل معرفت بولتے ہیں۔ اے عمر (رضی اللہ عنہ)! ہدایت رہنمائی طالب استعداد اور جنس کے موافق ہوا کرتی ہے ۔یہ اسرار الہی کی نعمت عظمی نا اہل عوام الناس کو نہیں دی جاتی ، کیونکہ ان کو ایسی نعمت دے دینا اس نعمت کی ناقدر شناسی ہے ۔نیز چونکہ وہ اس نعمت کے متحمل نہیں ہو سکتے ،لہذا ان کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے۔

پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ ذات رحمن کیا ہے ؟ اور دیگر اشیا کیا ہیں؟ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تمام اشیا مظہر الہی ہیں۔در حقیقت سب ایک ہی ہیں ۔ظہور کی صفات مختلف ہیں جیساکہ مطلب ایک ہوتا ہے اور اس کی مختلف عبارتوں سے ادا کیا جاتا ہے اسی طرح ذات ایک ہی ہے لیکن اس کے مظاہر مختلف ہیں۔

ارشاد خداوندی ہے ‘‘ان اللہ علی کل شیء محیط’’ یعنی اللہ تعالی کا ہر چیز پر احاطہ ہے ،لیکن انسان کو دیگر تمام مخلوقات پر شرف و بزرگی حاصل ہے ‘‘ان اللہ خلق آدم علی صورتہ’’ یعنی اللہ تعالی نے آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) جب انسان اشرف المخلوقات ٹھہرا تو پھر اس میں خواص و عام اور کافر مسلمان ہونے کا کیا باعث ؟ فرمایا، ارشاد باری تعالی ہے کہ ‘‘فضلنا بعضہم علی بعض’’ یعنی ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔

نیز ارشاد باری تعالی ہے ‘‘کل نفس ذائقۃ الموت’’ یعنی ہر شخص موت کا مزہ چکھنے والا ہے’’۔موت در اصل اس حدیث کو مصداق ہونی چاہیے کہ ‘‘الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب’’ یعنی موت ایک پل ہے جس کو طالب مولی عبور کرکے واصل الہی ہو جاتا ہے ۔

اے عمر (رضی اللہ عنہ)! پنج بنائے اسلام کی حقیقت جو مومنیت کا درجہ ہے جو مفصل بیان کر دیا ہے ، فی الحال تمہارے لیے کافی ہے جب تو اس سے آگے انتہائے کمال کی طرف بڑھنا چاہے گا تو جمیع صفات و اسرار خود تمہارے اندر موجود ہیں کیونکہ ‘‘من عرف نفسہ عرف ربہ’’ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔

اے میرے ہم راز قطب الدین! یہ نکات پوشیدہ اور راز مخفی تھے جو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خلیفہ اپنے ہم راز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تعلیم فرمائے تھے، تم کو لکھ دیے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ تم ان نکات پر اعتبار اور اقرار کروگے ۔ہمیں کج فہم یعنی علمائے ظاہری سے کچھ سروکار نہیں۔ان کا علاج اللہ تعالی ہی کر سکتا ہے کیونکہ سب کچھ اللہ تعالی ہی کے قبضہ میں ہے ۔ لا تتحرک ذرۃ الا باذن اللہ یعنی اللہ تعالی  کے حکم کے بغیر کوئی چیز حرکت نہیں کر سکتی ۔یہی ہر مسلمان کا اعتقاد ہے اور اسی پر ایمان ہے ۔

(ماخوذ  از  اسرار حقیقی ، اردو رترجمہ مکتوب حضرت سلطان الہند رحمۃ اللہ علیہ ، اکبر بک سیلرز ، ستمبر ۲۰۰۴ )

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/letters-khawja-gharib-nawaz-hadrat-part-1/d/114894

 

URL for Part-2: https://www.newageislam.com/urdu-section/letters-khawja-gharib-nawaz-hadrat-part-2/d/114905

 

URL for Part-3: https://www.newageislam.com/urdu-section/letters-khawja-gharib-nawaz-hadrat-part-3/d/114925

 

URL for Part-4: https://www.newageislam.com/urdu-section/letters-khawja-gharib-nawaz-hadrat-part-4/d/114933

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/letters-khawja-gharib-nawaz-hadrat-part-5/d/114979

 

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..