New Age Islam
Wed Apr 30 2025, 12:04 PM

Urdu Section ( 3 Dec 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Ghazwa-e-Hind Claims Of Pakistani Jihadi Militants (Part 1) پاکستانی جہادی عسکریت پسندوں کے غزوہ ہند کے دعوے: کیا صحیح حدیث میں واقعی ہندوستان کے خلاف جہاد کا حکم ہے - ایک جامع مطالعہ

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

(حصہ 1)

 23 نومبر 2022

 ------------------------------------------------------------------

 سب سے پہلی جنگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑی گئی یعنی بدر کی جنگ مکہ والوں کے خلاف تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنگ بدر میں جتنے بھی مومنین مکہ کے خلاف لڑے اللہ نے ان کے تمام گناہ اس جنگ کے بعد معاف کر دیے۔ بدر، احد اور خندق میں اہلِ مکہ سے جنگ کرنے والوں کے لیے عظیم فضیلت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ قرآن و حدیث کے ان وعدوں کے پیش نظر آج بھی مکہ پر حملہ کرنے سے وہی صلہ ملے گا کیونکہ قرآن کی تمام آیات اور حدیث کی تمام تعلیمات وحی کے مترادف ناقابل تغیر، آفاقی اور آنے والے ہر وقت کے لیے قابل اطلاق سمجھی جاتی ہیں؟ … کیا کوئی اپنے ہوش حواس میں یہ سوچے گا کہ یہ وعدے آج بھی برقرار ہیں اور اس لیے مکہ پر حملہ کرنے کے لیے فوج تیار کرنی چاہیے؟

 ------------------------------------------------------------------

 بعض احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے، ہندوستان کے خلاف جنگ کے لیے پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کو 'نافظ' کرنے والی پوسٹیں اب سوشل میڈیا پر پھیل چکی ہیں۔ جہادی عسکریت پسند بنیادی طور پر اس پروپیگنڈے کو پھیلا رہے ہیں تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ مختلف دہشت گرد تحریکوں میں شامل ہوں جو ہندوستان مخالف فوجی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ اگر آپ جنوبی ہندوستان، خاص طور پر کیرالہ کے کچھ بنیاد پرست عناصر کی تقاریر دیکھیں گے، تو آپ دیکھیں گے کہ وہ بھی ایسی تحریکوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

 جنوبی ہندوستان کے ان بنیاد پرست مسلمانوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ یہ اس عظیم انسان کے خلاف فکری تشدد کے مترادف ہے جو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے دنیا میں تشریف لائے تھے اور جس سے تمام مسلمان محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسلاموف اور جہادی عسکریت پسندوں کی طرف سے یکساں طور پر پھیلائی گئی یہ تمام افواہیں، علمی ایمانداری کے بغیر قرآن و حدیث کی کتابوں سے نکالے گئے کچھ اقتباسات پر مبنی ہیں، کیونکہ اگر آپ غور سے دیکھیں تو یہ پائیں گے ان تمام میں سیاق و سباق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ مسلمان جانتے ہیں کہ ان جنگوں کے 1400 سال بعد جنگ کی قرآنی آیات یا اس سے متعلقہ اقوال اب ان پر لاگو نہیں ہوتے۔ بنیاد پرست مسلمان اور اسلاموفوب دونوں کے دعوے غلط ہیں اور سیاق و سباق سے ہٹ کر ہیں۔ اس مضمون میں اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

 آئیے اب ہم ان احادیث کا جائزہ لیں جن کا دعویٰ جنونی اسلامو فوب اور بنیاد پرست مسلمانوں نے کیا ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے مسلمانوں کو ہندوستان کو دشمن کے طور پر دیکھنے اور ہندوستان کو تباہ کرنے کی کوششوں میں ملوث ہونے کی تعلیم دی۔

 1. "میری امت کے کچھ لوگ ہندوستان کو فتح کر کے اس کے بادشاہوں کو پابندی سلاسل کر لیں گے، ایسا کرنے کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو بخش دے گا۔" یہ حدیث نسبتاً غیر مقبول اور کم مستند احادیث کے مجموعہ کتاب الفتن میں نعیم ابن حماد کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاگرد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: بھر وہ شام واپس جائیں گے، اور وہاں عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کریں گے۔

 2. اسی مجموعے کی ایک اور حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً یہی بات سنی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ مذکورہ جنگ کے وقت زندہ ہوتے تو اپنا تمام مال بیچ کر لشکر میں شامل ہو جاتے اور نبی کے سامنے یہ امید ظاہر کی کہ جب وہ واپس آئیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کریں گے۔ لیکن ان دونوں احادیث کے راوی اس قدر ضعیف ہیں کہ اس بات کی نشاندہی کرنا بھی ممکن نہیں کہ یہ خبر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کس نے سنی ہے۔ مختصر یہ کہ یہ احادیث جو صریحاً ناقابل قبول ہیں ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایسی گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوہریرہ کے درمیان ہوئی تھی۔

 3. ایک اور حدیث مسند میں ہے جو امام احمد کا ایک بڑا مجموعہ ہے۔ "میرے پیارے دوست - اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا ہے کہ سندھ اور ہند کی طرف فوج کا خروج اسی امت کی طرف سے ہوگی، اگر میں اس میں شہید ہو جاؤں تو یہ میرے لیے اچھا ہے، حدیث میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں اس جنگ سے زندہ واپس آ جاؤں تو میرے تمام گناہ معاف کر دئے جائیں گے، اس حدیث کے درج نہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مستند نہیں ہے، اس کے علاوہ اس کے راویوں میں براء بن عبداللہ نامی ایک ضعیف شخص بھی ہے۔

 4. خود امام احمد کی مسند میں ابوہریرہ کی ایک اور حدیث میں بھی یہی ہے۔ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ہندوستان کے خلاف جنگ کا وعدہ کیا تھا، اگر میں اس میں شہید ہو جاؤں تو بہترین شہید بن سکتا ہوں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں فتح یاب ہو کر واپس آ جاؤں اور شہید نہ ہوں تو میں جہنم سے آزاد ایک انسان کی زندگی گزار سکتا ہوں۔ اس حدیث کے بھی راوی محدثین کے نزدیک ناقابل قبول ہیں۔ کیونکہ اسے ابوہریرہ سے جابر بن عبیدہ نامی ایک نامعلوم شخص نے روایت کیا ہے۔ اسی وجہ سے علماء نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ قابل غور ہے کہ احمد اور ابن ابی عزویم کے مجموعوں میں ہندوستان سے متعلق ایک بھی حدیث ایسی نہیں ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح روایت موجود ہو۔

 5.  ایک اور مجموعہ حدیث جس میں اس موضوع پر احادیث پائی جاتی ہیں وہ امام احمد نسائی کی سنن ہے جو علماء کے نزدیک مستند ہے۔ نسائی نے باب 'غزوۃ الہند' میں دو احادیث درج کی ہیں۔ ان میں سے ایک وہی حدیث ہے جس کے الفاظ میں معمولی تبدیلی ہے جس کی ابتدا مسند احمد میں 'اللہ کے رسول نے ہم سے جنگ ہند کا وعدہ کیا تھا' سے ہے۔ نسائی نے اس حدیث کو ابوہریرہ کی سند سے دو مختلف راویوں سے نقل کیا ہے۔ لیکن ان دونوں راویوں میں ابوہریرہ کے فوراً بعد جبربن عابدہ ہے جیسا کہ مسند میں دیکھا گیا ہے۔ اس بنا پر شیخ ناصر الدین البانی نے ان دونوں کو ضعیف قرار دیا ہے۔

 6.    نسائی میں دوسری حدیث ابوہریرہ کی نہیں بلکہ رسول اللہ کے ایک اور صحابی ثوبان کی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ثوبان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دو گروہوں کو جہنم سے آزاد کر دیا ہے، ایک ہندوستان کو فتح کرنے والا گروہ اور دوسرا وہ گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ آئے گا"۔ یہی حدیث احمد کی مسند میں ثوبان سے بھی مروی ہے۔

 بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ثوبان کی روایت، جیسا کہ نسائی اور احمد نے درج کیا ہے ابوہریرہ کی روایت سے مضبوط ہے جو مختلف کتابوں میں 'جنگ ہند' سے متعلق ہے۔ شیخ ناصرالدین البانی جو کہ جدید محدثین میں سب سے ممتاز ہیں، انہوں نے اس حدیث کو 'صحیح' قرار دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دو گروہوں کو جہنم سے آزاد کر دیا ہے، ایک وہ گروہ جو ہندوستان کو فتح کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے ساتھ ہو گا۔"

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا کیا مطلب ہے جب آپ نے یہ فرمایا کہ: 'میری امت میں سے، وہ گروہ جو ہندوستان پر فوجی کارروائی کرے گا جہنم سے ازاد ہے'؟ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو اسلامی تاریخ کا بنیادی علم رکھنے والے کے لیے بھی یہ سمجھنا بہت آسان ہے۔

 ڈیڑھ ہزار سال پہلے دیے گئے ایک بیان کے مقصد کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی تناظر جاننا ضروری ہے، تب ہی ایسے مسائل پر بحث کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

 یہ بات مشہور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں مدینہ، حجاز، عرب میں قائم ایک حکومت کے سربراہ بنے۔ مدینہ کا اسلامی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں وجود میں آیا۔ یہ ایک چھوٹی سی شہری ریاست تھی جس کی بنیاد تکثیریت اور انسانوں کے بھائی چارے کے اصولوں پر تھی جو کہ اس وقت عرب کے ریگستان میں رائج قبائلی حجازیوں کے جارج کرنے اور غلبہ کے معاشرتی نمونے کے خلاف تھا۔ حجاز کے مختلف علاقوں کے مشرک عرب قبائل فطری طور پر اس سے ناخوش تھے۔ وہ اس نئے مذہب کو مزید پھیلنے نہیں دے سکتے تھے۔ اس طرح وہ پیغمبر اسلام (ص) اور اس کے پیروکاروں کے ذریعہ تبلیغ کردہ مذہب اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی سازش کر رہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسا کرنے کا عملی طریقہ یہ ہے کہ جنگوں کے ذریعے مدینے کو تباہ کر دیا جائے لہٰذا وہ مسلسل اس کی کوششوں میں مصروف عمل رہے۔

 گزشتہ صدیوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بہادر صحابہ نے دشمنان اسلام کے خلاف محدود تیاریوں کے ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے شانہ بشانہ جنگیں لڑیں۔ انہوں نے ان جنگوں میں بھاری ہتھیاروں سے لیس دشمنوں کے ساتھ پوری بہادری اور جواں مردی کے ساتھ لڑائی کی اور اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ یہ کوشش صرف مدینہ نامی ایک شہری ریاست کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ ایک مقدس اصول انسانیت کی بقا کے لیے تھی۔ یہ بات یاد رکھنا کافی ہے کہ ان کی قربانیوں نے ہی روئے زمین پر اسلام کی بنیاد رکھی۔ اس لیے ان جنگوں میں شرکت واضح طور پر ایک نیک عمل تھا۔

 خود حجاز کے مختلف عرب قبائل اور علاقے مدینہ کے دشمنوں کے ساتھ تھے۔ لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے بہت سے ایسے مشہور اقوال ہیں جن میں مدینہ کے دفاع اور اسلام جیسے اس نوزائیدہ مذہب کی حفاظت کے لیے ایسی مقدس جنگوں میں شہادت/ شرکت پر عظیم انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہر عقل مند شخص اس بات سے اتفاق کرے گا کہ عرب کے مختلف قبائل سے اسلام کی مستقل اور قطعی دشمنی نہیں ہے اور قیامت تک ان سے جنگ کرنا ایک نیک عمل نہیں رہے گا جس پر آخرت میں انعامات کا وعدہ ہے۔ واضح طور پر جنگ ختم ہوتے ہی ان کے خلاف جنگ کی ہدایات متروک ہو گئیں۔

 سب سے پہلی جنگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑی گئی یعنی بدر کی جنگ مکہ والوں کے خلاف تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنگ بدر میں جتنے بھی مومنین مکہ کے خلاف لڑے اللہ نے ان کے تمام گناہ اس جنگ کے بعد معاف کر دیے۔ بدر، احد اور خندق میں اہلِ مکہ سے جنگ کرنے والوں کے لیے عظیم فضیلت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ قرآن و حدیث کے ان وعدوں کے پیش نظر آج بھی مکہ پر حملہ کرنے سے وہی صلہ ملے گا کیونکہ قرآن کی تمام آیات اور حدیث کی تمام تعلیمات وحی کے مترادف ناقابل تغیر، آفاقی اور آنے والے ہر وقت کے لیے قابل اطلاق سمجھی جاتی ہیں؟ 

 حدیبیہ میں دونوں فریقوں کے درمیان مشہور امن معاہدہ مدینہ کی اسلامی ریاست اور مکہ کے مشرک قریش قبیلے کے درمیان جنگ کی تاریخ کا ایک اہم اور مشہور موڑ تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ہجرت کے چھٹے سال مدینہ سے بغیر کسی جنگ کے ارادے اور بغیر کسی ضروری تیاری کے صرف پر امن طریقے سے عمرہ کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو حدیبیہ کی صلح کا مرحلہ طے ہوا۔ جب مکہ والوں نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشہور صحابی عثمان ابن عفان کو، جو بعد میں تیسرے خلیفہ راشد بنے، قریش کے پاس بھیجا کہ وہ مکہ والوں کے ساتھ صلح کے لیے مذاکرات کریں۔ لیکن پہلے مرحلے میں مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ مکہ والوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بے دردی سے قتل کر دیا ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ طور پر بات چیت کے لیے مقرر کیا تھا۔ اس وقت ایک ہزار سے زیادہ صحابہ نے ایک درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا کہ اگر یہ خبر سچی ہے تو ہم مکہ والوں سے فوراً لڑنے کے لیے تیار ہیں - قطع نظر اس کے کہ ہم جنگ کے لیے ذہنی یا جسمانی تیاری کے بغیر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ بھی یقین دلایا کہ وہ بہت جلد مکہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کیا کوئی عقلمند انسان یہ سمجھے گا کہ یہ وعدے آج بھی صحیح ہیں اور اس لیے مکہ پر حملہ کرنے کے لیے فوج تیار کرنی چاہیے؟

 واضح طور پر سیاق و سباق اور حالات ہی ہیں جو کسی بھی مقدس کتاب کے حروف کو معانی دیتے ہیں۔ یہی معاملہ ہندوستان کی جنگ کے بارے میں حدیث کا بھی ہے۔ آئیے اس کے سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر جنگ کے وقت کی آیات قرآن و حدیث کو سیاق و سباق سے ہٹا کر لیا جائے تو اسلام پر 'ہندوستان مخالف' سے زیادہ 'مکہ مخالف' ہونے کا الزام لگایا جا سکتا ہے، کیونکہ صرف ایک بظاہر مستند صحیح حدیث ہے جو ہندوستان کی بات کرتی ہے، جبکہ بے شمار آیات اور احادیث ہیں جن میں مکہ کے خلاف جنگ کی دعوت دی گئی ہے۔

بہر کیف، کسی خاص حدیث کی سند ان حالات کے پیش نظر ہمیشہ مشکوک رہے گی جن میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کئی دہائیوں اور صدیوں بعد درج کی گئی تھیں۔ ان کی تحقیق و تفتیش اور تصدیق بھی انہیں انسانوں نے کی تھی جنہیں خدا کی طرف سے وحی نہیں آ رہی تھی۔ تقریباً چھ لاکھ احادیث کو رد کیا گیا اور امام بخاری اور امام مسلم اور دیگر محدثین نے صرف 11000 احادیث کو ہی اپنے مختلف مجموعوں میں شامل کیا جنہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔

 (جاری ہے)

English Article: The Ghazwa-e-Hind Claims Of Pakistani Jihadi Militants: Does Authentic Hadith Literature Actually Enjoin Jihad Against India - A Comprehensive Study (Part 1)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ghazwa-hind-pakistani-jihadi-militants-hadith-part-1/d/128555

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..