رشید قدوائی
25 اگست، 2021
لفظ غزوہ پچھلے کچھ وقت
سے ملک میں بار بار سنائی دے رہا ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ مذہبی
اعتقادات کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگ ہے۔ ایسی جنگ جس کا مقصد مال و متاع یا
ملک و زمین جیتنا نہ ہو، بلکہ جو صرف مذہبی بنیاد پر لڑی جائے۔ احادیث میں اس کا
کافی ذکر ملتا ہے۔ ’غزوہ ہند‘ فی الحال منفی معنوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس
سے مراد ایسی جنگ لی جا رہی ہے، جس میں بر صغیر ہند کو فتح کرنے کے لیے مسلم جنگجو
حملہ کر دیں گے۔
لیکن اس میں بہت سی غلط
باتیں راہ پا گئی ہیں، جن کی جانب مقتدر علماء نے اشارہ بھی کیا ہے۔ ملک کو آزاد
کرانے میں بہت اہم کردار نبھانے والی تنظیم ’جمعیۃ العلماء ہند‘ کے ایک سرکردہ ذمہ
دار مولانا مفتی سلمان منصورپوری نے بھی غزوۃ الہند پر مدلل مضمون لکھ کر اس ضمن میں
کئی غلط باتوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے مطابق غزوہ ہند کے نام پر ہندوستان کو
نقصان پہنچانے کے مقصد سے پاکستان شرارتاً بہت سی غلط سلط باتیں پھیلا رہا ہے۔
مرادآباد کے جامعہ
قاسمیہ شاہی کے ذریعے بڑے پیمانے پر نشر کیے گئے ایک مضمون میں مولانا سلمان
منصورپوری نے ’جیش محمد‘ جیسی دہشت گرد تنظیم کے دعوے مدلل طریقے سے رد کرتے ہیں۔
اس بارے میں ادھر ادھر کی باتیں جوڑنے پر تنبیہ کرتے ہوئے انہوں نے اصرار کیا ہے
کہ پیغمبر حضرت محمدؐ کی احادیث کا استعمال سیاسی اور مادی فائدے اٹھانے کے لیے
نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس موضوع کے ضمن میں ایک
بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھے 'جنگجو اصحاب نے بھی اس موضوع
کو تختۂ مشق بنا رکھا ہے اور وہ غزوۂ ہند کے نام پر وہاں بیٹھے بیٹھے منمانی
باتیں کرتے ہیں۔ مسلم مخالف ذہنیت رکھنے والے اینکرس و مبینہ ماہرین کی رائے اس
بارے میں کیسی ہوتی ہے، اسے سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے۔ جیسے ایک دن ’ٹائمس ناؤ‘
نام کے چینل نے اعلان کیا: ’غزوہ ہند بھارت کا نیا دشمن، کیا لُٹینس اس پر یقین
کریں گے؟‘ (دہلی کا لٹینس زون وہ علاقہ جہاں حکمراں طبقے کے لوگوں کی رہائش ہے۔)
'’سوراجیہ‘ نام کے رسالے نے پاکستانی ایجنسی کے ذریعے پھیلائے گئے
ایک غیر معیاری پروپیگنڈا ویڈیو کی بنیاد پر خبر چلا دی۔ کسی پاکستانی فلمساز کے
ذریعے بنائے گئے اس ویڈیو میں بے سر پیر کی باتیں کی گئی ہیں۔ اس میں یہ پیشگوئی
کی گئی ہے کہ۲۰۲۵
تک غزوۂ ہند کا اسلامی خواب پورا ہو جائے گا۔ اس میں تو یہ تک دعویٰ کیا گیا ہے
کہ تب وراٹ کوہلی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ ہو جائیں گے اور ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف وہ پاکستان کی جانب سے میچ کھیلیں گے۔ کئی کتابوں کے
مصنف اور جید عالم مولانا منصورپوری نے اس ویڈیو اور ایسی خبروں کی صداقت و استناد
پر سوال اٹھائے ہیں۔
مولانا منصورپوری نے غزوہ
ہند کی بابت چند احایث کا بھی ذکر کیا ہے، جیسے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو اللہ
کے رسول حضرت محمد ؐکے غلام بھی تھے، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا:
ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کے ساتھ ہوگا۔
اسی طرح کی ایک اور حدیث
رسول اللہ کے قریبی ساتھی و 5 ہزار سے زیادہ احادیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ سے بھی
منسوب ہے۔ اس حدیث کے مطابق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان الہند(بر صغیر
ہند) میں جہاد کریں گے، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال
اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں افضل ترین
شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہریرہ ہوں گا جو عذاب
جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے۔
محمد سلمان منصورپوری
کہتے ہیں کہ غزوہ ہند اور اس سے حاصل ہونے والے اجر کے بارے میں کئی احادیث ملتی
ہیں۔ لیکن ان احادیث کے راوی کمزور، تذبذب میں ڈالنے والے، کہیں کہیں مبالغہ آمیز
اور ایسے لوگ ہیں جن سے مستند احادیث کا سلسلہ کم ملتاہے۔ احادیث کے سلسلے میں
راوی کا استناد اہم مقام رکھتا ہے۔ ان راویان احادیث کے استناد کی بدولت ہی احادیث
کو مذہب اسلام کے بنیادی مآخذ کی حیثیت حاصل ہے۔
مولانا منصورپوری کہتے
ہیں کہ غزوہ ہند کی احادیث کے راویان کا سلسلہ استناد کمزور ہے۔ ساتھ ہی ان میں
غزوہ کے مقررہ وقت اور مقام کے بارے میں بھی کوئی واضح بات نہیں ملتی۔ ان کے مطابق
غزوہ ہند کی بابت تین ممکنہ باتیں کہی جا سکتی ہیں۔
پہلی بات کہ یہ اسلام کے
اولین و درمیانی دور کے وہ معرکے ہو سکتے ہیں، جن کا مرکز و محور بر صغیر ہند تھا۔
ان مہمات میں حاصل ہوئی فتوحات کے بعد ایک طویل مدت تک ان علاقوں میں مسلمانوں کا
تسلط قائم رہا۔ یہ وہ جنگیں تھیں، جن کی قیادت محمد بن قاسم و محمود غزنوی نے کی۔
اس نقطۂ نظر کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ غزوہ ہند میں سندھ کا ذکر بھی ملتا
ہے۔ ایک حدیث میں سندھ فتح ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں اور تاریخ
کے اوراق میں بھی درج ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر لیا تھا۔
دوسرا یہ کہ احادیث میں
جو لفظ ’ہند‘ استعمال کیا گیا ہے، وہ مخصوص طور پر ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ اس
کی جگہ برصغیر ہند یا آس پاس کے علاقے ہوں۔ خاص طور سے بصرہ اور اس کے اطراف و
جوانب والے حلقے۔ اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ حضرت محمد کے صحابہ کے
مطابق ’ہم بصرہ کو ہند کہا کرتے تھے۔‘
اس بات کے مدنظر مولانا
منصورپوری کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے (غزوہ ہند سے متعلق) یہ احادیث ان جنگوں کی جانب
اشارات ہوں، جو اسلام کے اولین دور میں ایران کے خلاف لڑی گئی ہیں۔
تیسرا امکان یہ ہے کہ
غزوہ ہند میں جن جنگوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ابھی لڑی ہی نہ گئی ہوں۔ ممکن ہے یہ
تصادم تب ہوں جب اسلامی تعلیمات کے مطابق حضرت عیسیٰ و امام مہدی کا ظہور ہو۔
مولانا منصورپوری اس پر
اختتام کرتے ہیں کہ ’یہ تفصیلات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ موجودہ دور میں غزوۃ
الہند کے نام پر بر صغیر ہند کے مسلمانوں کو جہاد کے لیے اکسانا پوری طرح غلط ہے۔
وہ اس لیے کہ ان احادیث کے پہلےدو مفاہیم میں ان کے لیے (کسی جنگ) کا امکان نظر
نہیں آتا۔ تیسرا مفہوم مشکوک ہے۔ لیکن ہم اسے قبول بھی کر لیتے ہیں تو اس دن کی
نشانیاں، جب حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا، ابھی پوری نہیں طرح سامنے نہیں آئی ہیں۔‘
25 اگست، 2021،
بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism