مولانا عبدالحمید نعمانی
26 فروری،2024
بہت سی باتیں نا سمجھی کی
پیداوار ہیں، باتو ں کو اگر منظر، پس منظر سے کاٹ کردیکھا جائے تو بے مطلب ہوکررہ
جاتاہے۔پیشنگوئی کوئی ایسی ہدایت یا حکم نہیں ہوتی ہے کہ اس پر عمل لازماً کیاہی
جانا چاہئے، پرانوں خصوصاً بھوشیہ پر ان میں بعد میں پیش آنے والی درجنوں باتوں کے
متعلق پیشین گوئیاں ہیں،مثلاً یہ کہ اکبر پہلے جنم میں برہمن تھا، شنگر آچاریہ کے
گوترکا تھا، لیکن ایک بھول کے سبب وہ اس جنم میں ملیچھ (مسلمان) بن کر پیدا ہوا،
لیکن پہلے جنم کے برہمن ہونے کی وجہ سے اس کے کارنامے عظیم رہے۔ (سنچھپت بھوشیہ
پران، پرتی سرگ، چوتھا کھنڈ، صفحہ 373تا 374، مطبوعہ گیتا پریس گورکھپور)
ظاہر ہے کہ باتوں کو ادھر
ادرھر کرنے کا کام کیا گیاہے، بھارت میں مغلوں کی حکومت کا عروج رہاہے، یہ تو
تاریخ ہے،ہندواکثریتی سماج میں بھوشیہ وانی کے مقابلے میں بہت کم تردرجے او رمصداق
کے تعین، موقع، محل، مخصوص حالات میں پیش آنے والی باتوں کے ضمن میں غزوہ ہند کی
بات ہے،لیکن اس تعلق سے ایک طرح کا غدر برپا رہتاہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ
نشانہ،عالمی شہرت یافتہ تعلیمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند ہے۔ آئے دن کسی نے کسی
بہانے سے اسے گھیرنے او رجاری عمل میں واسطہ رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی
ہیں، ایسا عموماً وہ عناصر کررہے ہیں جن کا بھارت او راس کا بھوشیہ بنانے میں کوئی
خاص رول نہیں ہے، جب کہ دارالعلوم دیوبند کے فیص یافتگان و وابستگان کا ملک کی تعمیر
وتشکیل میں بنیادی کردار رہاہے، انہوں نے غزوہ ہند کامصداق ومعنی وہ کبھی نہیں
سمجھا جو لوگ اپنے دھرم کی بھی فہم سے دوررہ کر سمجھ ر ہے ہیں او رغلط طور پر ملک
کے دیگر باشندوں کو باور کراکر گمراہ کرنے کا کام کررہے ہیں، ایسے افراد میں کمیشن
برائے اطفال کے چیئر مین پریانک قانون گو جیسے لوگ بھی شامل ہیں انہوں نے گزشتہ
دنوں ایک کلاس کے شرکاء وطلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کئی ساری گمراہ کن اور ناقص وغلط
معلومات پر مبنی باتیں کہی تھیں، پروگرام دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ قانون گو صاحب
کو مدارس خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے متعلق بہت سی بنیادی معلومات بھی نہیں ہیں،
2014ء کے بعد سے بھارت میں اسلام، مسلمان او رمدارس ومدارس کے معاملات کے ایسے
’ماہرین‘ کی کھیپ تیار ہوگئی ہے جو ان کے مختلف مسائل میں کچی پکی معلومات فراہم
کرکے سرکاری فوائد کی ملائی خوب خوب کاٹ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسی کمیشن کی طرف سے
دارالعلوم دیوبند کو مولانا تھانویؒ کی معروف کتاب بہشتی زیور کے سلسلے میں نوٹس
دیا گیا تھا، جب کہ بہشتی زیور نہ تو دارالعلوم دیوبند کے کورس میں شامل ہے او رنہ
اس میں کوئی ایسی بات ہے جس کا طلبہ کے ذہن پرغلط اثر مرتب ہو،اب کمیشن نے غزوہ ہند
سے متعلق دارالعلوم دیوبند کے فتوے کو ملک مخالف قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ایف
آئی آر درج کرنے کیلئے کہاہے۔ اس پر ظاہر ہے کہ ملک میں پیداشدہ فرقہ وارانہ ماحول
کااثر ہے، کمیشن نے گروکل میں پڑھائی جانے والی کتابوں اور ستیارتھ پرکاش جیسی
کتابوں کے مواد پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا، اس تفریق کے اسباب بہت واضح ہیں، اس
سے میڈیا پر توجہ کی ضرورت پوری طرح ثابت ہوجاتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا نام اس
لیے بھی لیا جاتاہے کہ آدمی فوری طور سے نظر میں آجاتاہے او راسے اپنی کارکردگی
دکھانے کا موقع وراستہ مل جاتا ہے، جب بہشتی زیور کی عام فہم بات سمجھ میں نہیں
آتی ہے تو غزوہ ہند کی پیشین گوئی سے متعلق مصداق ومطلب کا تعین،مشکل ترین او
رمبہم ومجمل مسئلہ سیدھے سیدھے سمجھ میں آسکتا ہے۔فتویٰ میں ذکر کردہ غزوہ ہند کا
معنی ومصداق معلوم کیا جاسکتا تھا، یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ وہ خفیہ ہو یا
دنیا کے کسی مسلم ادارے نے احادیث کی کتابوں سے نکال دیا ہو، جیسا کہ اکثریتی سماج
میں معروف بنیادی گرنتھوں سے باب کے باب اور بے شمار شلوک، منتر نکا ل دیے گئے او
رمسلسل نکالے جارہے ہیں، ہمارے پاس والمیکی رامائن کا وہ ایڈیشن بھی ہے جس سے
سینکڑوں صفحات، لنکا کانڈ اور اتر کانڈ کو نکال دیا گیاہے۔
غزوہ ہند کی
روایات،احادیث وسیر کی کئی کتابوں، نسائی، مسند امام احمد،سنن سعید بن منصور،
مستدرک حاکم، مسند بزاز، حلیۃ الاولیا6،سنن بیہقی،تاریخ بغداد وغیرہ میں حضرت
ابوہریرہ او رثوبان رضی اللہ عنہما سے مروی ملتی ہیں۔اس سلسلے کی کچھ روایات
صحیح،کچھ حسن، کچھ ضعیف ہیں، لیکن کسی روایت کا وہ مصداق ومعنی نہیں ہے جس
کاموجودہ ہند میں کسی غزوہ سے تعلق ہو، اور اس کے غیر مسلموں سے جنگ کرکے زیر
واسیر کرنے کی بات ہو۔غزوہ کاپہلا حصہ ماضی میں کئی بار مختلف ادوار میں پورا
ہوچکا ہے، باقی قیامت کے قریب ایک گروہ، دجال او راس کے ساتھیوں کے خلاف، حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوجائے گا۔ موجودہ آئین والے بھارت میں غزوہ وجہاد کے
لیے شرعی طور سے کوئی گنجائش نہیں ہے، جہاد ہمیشہ،خودمختار ریاست کے زیر انتظام ہی
اس ملک سے ہوسکتاہے، جس سے معاہدہ نہ ہو،بھارت میں تو ہندومسلمان دونوں ایک ہی ملک
کے شہری ہیں تمام باشندوں کا ایک مشترکہ آئین ہے۔ بھارت میں او ربھارت کے تمام
قابل ذکر ممالک میں ایک دوسرے کے سفارت خانے ہیں، ایسی حالت میں اسلامی قوانین او
رعالمی معاہدے و قوانین کی رو سے کسی طرح کاکوئی غزوہ،جہاد نہیں ہوسکتا ہے او رنہ
ہی جائز ہے، اس کے باوجود بھی جو لوگ غزوہ ہند کے حوالے سے گمراہ کن باتیں کرتے
ہیں وہ قطعی طور سے اسلامی احکام جہاد سے نابلد ہیں۔مدارس کے تعلیم یافتہ افراد کو
اچھی طرح معلوم ہے کہ غزوہ ہند کا کیامطلب ومصداق ہے، معتبر مدارس خصوصاً دارالعلوم
دیوبند وغیرہ کا کسی قابل ذکر تعلیم یافتہ کا کسی غزوہ ہند میں شامل نہ ہونے
کامطلب بہت صاف ہے۔ غزوہ ہند سے متعلق روایات کامطالعہ جائزہ سے واضح ہے کہ جس طرح
اکبر بادشاہ وغیرہ سے متعلق بھوشیہ پران کی پیشین گوئیاں ماضی میں پوری ہوچکی ہیں،
اسی طرح حدیث کی پیشین گوئیاں ماضی میں پوری ہوچکی ہیں۔ دوسری قابل توجہ بات یہ ہے
کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم او رعہد صحابہ رضی اللہ عنہم کا خطہ غزوہ، سندھ،
خراسان ہوتے ہوئے شام، دمشق کے علاقے ہیں، جس طرح حضرت عبداللہ بن عباس کے بیان کا
حضرت آدم علیہ السلام والا مہبط ہند، خطہ ہند سے آج کے بھارت سے باہر ہے اسی طرح
غزوہ ہند کا خطہ بھی موجودہ بھارت سے باہر ہے، بھارت کے مدارس او رعلماء خصوصاً
دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان ہمیشہ اپنے وطن کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ ماضی سے
حال تک مسلم سماج کی اپنے وطن سے وابستگی ووفاداری شک وشبہ سے بالاتر رہی ہے، اس
وابستگی ووفاداری کو دارالعلوم دیوبند، مضبوط ومستحکم کرنے اوربڑھانے کاکام کرتا
رہا ہے، بلاشبہ دارالعلوم دیوبند کے فکر ومنہج کے اثرات ملک او رعالمی سطح پرپائے
جاتے ہیں لیکن ان کا تعلق غیر مسلموں سے محاذ آرائی ونفرت سے نہیں ہے بلکہ مسلم سماج
کے داخلی مسائل میں مذہبی و نظریاتی پہلوؤں سے معتدل منہاج فکر وعمل سے ہے، باقی
غیر مسلموں خصوصاً ہندو براردران وطن سے دارالعلوم دیوبند کا رویہ، نفرت کے بغیر،
فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اتحاد او رباہمی تعلقات بناکر زندگی گزارنے کا ہے،
دارالعلوم دیوبند کی اس قابل تحسین مذہبی،سماجی اور عرفی حیثیت کو مختلف طریقوں سے
مجروح کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اس سلسلے میں قوانین اور دیگر متعلقہ معاملات
کے ماہرین کی ٹیم تشکیل دے کر اقدامی عمل کرنا چاہئے، غزوہ ہند سے متعلق فتویٰ
کوئی واحد معاملہ نہیں ہے، بہت سی باتوں کو پس منظر سے الگ کر بہت مکروہ شکل میں
پیش کیا جاتاہے۔
26 فروری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism