پروفیسر صادق
12 دسمبر 2021
۱۸۵۷ء کا انقلاب ہندوستان کی تاریخ کانہ صرف ایک اہم ترین باب بلکہ ہماری قومی زندگی کا وہ ناقابل فراموش اور عظیم تجربہ ہے جس نے باشندگان برصغیر کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو کسی نہ کسی طور متاثر کر کے تبدیلیوں کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ اس انقلاب کے ساتھ ہی قومی زندگی جن مسائل سے نبرد آزما ہوئی (گوکہ انقلاب کی کامیابی کی صورت میں بھی نت نئے مسائل سے دوچار ہونا ایک ناگزیر فطری عمل ہوتا لیکن ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں اس کی نوعیت بالکل جدا ہوتی) ان میں سیاسی، سماجی، تاریخی، معاشی، اقتصادی، مذہبی، تہذیبی، اور ادبی مسائل پیش پیش رہے ہیں۔
عہد غالب میں انقلاب ۱۸۵۷ء کے پیدا کردہ مسائل میں
آزادیٔ اظہار کامسئلہ نہایت سنگین شکل
اختیار کرچکا تھا۔ یہ مسئلہ فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے فنکاروں
کے نزدیک اتنا پرخطر نہیں تھا جتنا اہل قلم کے لئے، کیونکہ جملہ فنون لطیفہ میں
شعروادب ہی میں ذہنوں کو مخاطب و متاثر کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔
۱۴؍
ستمبر۱۸۵۷ء
کو دہلی پر اپنا تسلط قائم کرلینے کے بعد انگریزی فوجوں نے حد درجہ سفاکی کا مظاہرہ کیا اور شدید انتقامی جذبے کے تحت
ایسے ایسے ہولناک اور انسانیت سوز مظالم برپا
کئے جن کے تصور ہی سے دل لرز اٹھتا ہے۔لائف آف لارڈ لارنس سے یہ اقتباس
ملاحظہ فرمائیے۔
’’(دہلی میں) محاصرے کے خاتمے کے بعد ہماری فوجوں نے جو قہر ڈھائے
انہیں سن کر کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ دوستوں اور دشمنوں میں امتیاز کیے بغیر یہ لوگ
سب سے یکساں انتقام لے رہے تھے۔ لوٹ مار کے معاملے میں تو درحقیقت ہم نادرشاہ سے
بھی بازی لے گئے۔‘‘
جبروتشدد اور خوف وہراس
سے پُر ایسے حالات اور ماحول میں جب کہ خود غالبؔ کے دوستوں، عزیزوں اور شناسائوں
میں سے بھی بے شمار لوگ بے گناہ مارے گئے یا پھانسی پر چڑھادیے گئے یا پھر قید
کرلیے گئے، ایسے میں ایک بے حد حساس انسان اور اس عہد کے عظیم فن کار غالبؔ کے قلب
و ذہن پر کیا کچھ نہ گزری ہوگی؟ مگر دل کی بات زبان پر لانا بھی جان جوکھوں کا کام
تھا چہ جائیکہ حیطۂ تحریر میں لانا۔ خطوط غالب سے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’مبالغہ نہ جاننا، امیر غریب سب نکل گئے، جو رہ گئے تھے، نکالے
گئے۔ جاگیردار، پنشن دار، اہل حرفہ کوئی بھی نہیں ہے۔ مفصل حالات لکھتے ہوئے ڈرتا
ہوں۔‘‘
(بنام ہرگوپال تفتہ، ۵؍
دسمبر ۱۸۵۷ء)
’’انصاف کرو، لکھوں تو کیا لکھوں؟ کچھ لکھ سکتا ہوں؟ کچھ قابل
لکھنے کے ہے؟ تم نے جو مجھ کو لکھا اور اب جو میں لکھتا ہوں تو کیا لکھتا ہوں؟ بس
اتنا ہی ہے کہ اب تک ہم تم جیتے ہیں۔ زیادہ اس سے نہ تم لکھوگے نہ میں لکھوں گا۔‘‘
(بنام حکیم غلام نجف خان: ۲۶؍
دسمبر ۱۸۵۷ء)
’’جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔ بعد
گھڑی بھر کے کیا ہو؟ کچھ معلوم نہیں! قلم ہاتھ میں لیے پر، جی بہت لکھنے کو چاہتا
ہے مگر کچھ نہیں لکھ سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ
و انا الیہ راجعون۔‘‘
(بنام حکیم غلام نجف خان:۱۹؍
جنوری ۱۸۵۷ء)
’’آدمی تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ خدا کرے یہاں کا حال سن لیا کرتے
ہو۔ اگر جیتے رہے اور ملنا نصیب ہوا تو کہا جائے گا ورنہ قصہ مختصر، قصہ تمام ہوا۔
لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں اور وہ بھی کون سی خوشی کی بات ہے جو لکھوں؟‘‘
(بنام مرزا شہاب الدین احمد خاں ثاقب:۸؍
فروری ۱۸۵۸ء)
’’منھ پیٹتا اور سر پٹکتا ہوںکہ جو کچھ لکھنا چاہتا ہوں نہیں لکھ
سکتا۔ الٰہی حیات جاودانی نہیں مانگتا۔ پہلے انوار الدولہ سے مل کر سرگزشت بیان
کروں پھر اسکے بعد مروں۔‘‘
(بنام انوارالدولہ سعدالدین خاں بہادر شفق: اکتوبر ۱۸۵۸ء)
محولہ بالا تمام اقتباسات
اور ان کے بین السطور انگریزوں کے قہر ناک مظالم و انتقام سے، پیدا شدہ خوف نمایاں
ہے اور شدید خواہش اظہار بھی اس طرح طاری ہے کہ غالب بارگاہِ الٰہی میں یہ دعا
کرتے ہیں کہ مل کر سرگزشت بیان کروں پھر اس کے بعد مروں۔ یعنی ان کی زندگی کی سب
سے بڑی تمنا جسے وہ اپنی موت سے پہلی پوری کرنا چاہتے ہیں حادثات خوں چکاں کے
اظہار کے سوا کچھ اور نہیں۔
انقلاب ۱۸۵۷ء
کے بعد غالب۱۲؍
برس زندہ رہے۔ عافیت سے زندگی گزارنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ متاع
لوح و قلم سے دست بردار ہوجاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انقلاب ۱۸۵۷ء
کے وقت غالب ۶۱؍
برس کے ہوچکے تھے اور اس وقت تک شاعری کے میدان میں بے مثال اور لازوال تخلیقی
کارنامے سرانجام دینے کے بعد اس منزل پرپہنچ چکے تھے جہاں تخلیق کار، جو ہرِ فکر
کی رخشندگی ماند پڑجانے کی وجہ سے عموماً خاموشی اختیار کرلیتا ہے یا پھر خود کو
دہرانے کے عمل میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اپنی عمر کی چھہ دہائیاں عبور کرلینے کے بعد
غالب نے شعر گوئی ترک کرنے یا خود کو دہرانے کی بجائے کم گوئی کا شعار اختیار کیا
اور اپنے اکثر خطوط میں اسے شعر سے بیزاری، بوڑھے پہلوان کے عجز اور ذوق شعر باطل
ہوجانے سے تعبیر کرتے رہے لیکن خود کو بوڑھے پہلوان سے تشبیہہ دینے اور اپنے خامہ
کی آتش افشانی سرد پڑجانے کا شکوہ کرنے کے باوجود وہ ۱۸۵۷ء
کے حالات کا تخلیقی اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس ضمن میں انہوں نے جس جرأت مندی
کا ثبوت دیا وہ آزادیٔ اظہار کے حصول کے لیے ایک قلندرانہ جسارت کا درجہ رکھتی
ہے۔ ایک قطعے کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
بسکہ فعّال ما یرید ہے
آج = ہر سِلحشور اِنگلستان کا
گھرسے بازار میں نکلتے
ہوئے = زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل
ہے = گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک
= تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
اسی طرح فروری ۱۸۵۹ء میں کہا ہوایہ شعر :
روز اس شہر میں اک حکم
نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا
کہ یہ کیا ہوتا ہے؟
سمجھ کے عجز سے زیادہ شہر
میں وقتاً فوقتاً نافذ کیے جانے والے احکامات اور انہیں صادر کرنے والے حکمرانوں
کی مذبذب ذہنی کیفیت اور طرز عمل پر گہرے طنز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں
غالب کی جرأت اظہار کا قابل قدر نمونہ ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گورنر جنرل لارڈ
کیننگ نے جون ۱۸۵۷ء کے پریس ایکٹ کے ذریعے
ہندوستانی پریس کی آزادی سلب کرلی تھی اور کسی انگریز یا انگریزی حکومت پر ہلکی
سی نکتہ چینی بھی سنگین جرم کے مترادف تھی خواہ وہ کوئی سچی خبر ہی کیوں نہ ہو۔
اسی دوران غالبؔ نے ایک
اور جرأت مندانہ قدم اٹھایا اور فارسی زبان میں ’’دستنبو‘‘ نام سے روزنامچے کے
انداز میں ایک کتاب تصنیف کی جس کا پہلا ایڈیشن نومبر ۱۸۵۸ء میں منظر عام پر آیا۔
’دستنبو‘ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں تمام حالات وکوائف انگریزوں کے خیرخواہ کی
حیثیت سے بیان کئے گئے تھے جس پر عام اعتراض یہی ہے کہ غالب نے اس میں اپنی بے
گناہی اور سرکار و دربار سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ خطاب، خلعت اور پنشن کے
لیے خوشامدانہ انداز میں درخواستیں کی ہیں اور سارے حالات اور واقعات کو اس زاویے
سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے جو انگریزوں کے وفادار غلامانِ ہند کا زاویۂ
نظر تھا۔
یہ اعتراض اپنی جگہ لیکن
آج ہم ’’دستنبو‘‘ کا مطالعہ اس لئے نہیں کرتے کہ مصنف نے اس میں انگریزوں کی
حمایت اور انقلابیوں کے طرز عمل کی مخالفت اور مذمت کی ہے یا جن ہاتھوں نے ابوظفر
بہادر شاہ کی شان میں قصیدے لکھے تھے ان ہی ہاتھوں نے ملکہ وکٹوریہ کی مدح میں بھی
اشعار لکھے، بلکہ (ہم دستنبو کا مطالعہ) اس لیے کرتے ہیں کہ یہ مرزا غالب کی تصنیف
ہے جو غالب نے ایک پرآشوب دور میں اپنے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار کے سائے میں بیٹھ
کر ایک عینی شاہد کی حیثیت سے لکھی تھی اور واضح الفاظ میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ
جو حالات میں نے بیان کیے ہیں یہ دل دکھانے والے ہیں لیکن جو کچھ میں کہہ نہیں سکا
ہوں وہ بھی روح فرسا ہے۔
اس ایک جملے میں غالب نے
جو کچھ کہہ دیا ہے وہ اہل بصیرت سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ’’دستنبو‘‘ میں اگر حقائق نہیں
تو کذب بھی نہیں ہے۔ اگر یہ تاریخ نہیں تو فکشن بھی نہیں ہے۔ اگر اس میں جذبات
واحساسات نہیں تو بے حسی بھی نہیں ہے۔ بہر حال اس میں جو کچھ ہے وہ نہ صرف یہ کہ
قابل قدر ہے بلکہ ہمارا گراں مایہ ورثہ ہے جسے کھونا یا اس سے دستبردار ہونا ہمیں
کسی قیمت منظور نہیں ۔
’’خطوط غالب‘‘ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ مرزا غالب
انقلاب ۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۸۵۸ء کے اخیر تک اپنے خطوط
میں خوف کا اظہار کرتے رہے تھے اور حکم زباں بندی کی وجہ سے کھل کر لکھنے سے ڈرتے
رہے تھے۔ اسی درمیان ان کے تخلیقی اظہار نے ’’دستنبو‘‘ تصنیف کرائی اور پھر انھوں
نے یکلخت خوف و ہراس کے پیر تسمہ پا کو اپنے کاندھوں سے اتار پھینکا۔ اس طور اپنے
عہد کے زائیدہ و پروردہ آزادیٔ اظہار کے مسئلے کو بحسن و خوبی حل کردکھایا۔
انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد سے اپنی وفات تک
بارہ برسوں میں مرزا غالبؔ نے اپنی شاعری، روزنامچے اور خطوط کے ذریعے اپنے عہد کی
صداقتوں کے اظہار کے معاملے میں تن تنہا جو کارنامہ سرانجام دیا اس کی بنیاد پر وہ
اپنے ہم عصروں میں درجۂ امتیاز کے حامل ہیں۔ یہ کارنامہ بھی ان کی عظمت کی دلیل
ہے۔
12 دسمبر 2021،
بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
Related Article:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism