New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 08:47 PM

Urdu Section ( 27 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Complex Route to Gender Equality for Muslim Women in Divorce and Alimony Issues طلاق اور نان نفقہ کے معاملات میں، مسلم خواتین کے لیے صنفی مساوات کی طرف جانے والا پیچیدہ راستہ

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 24 جولائی 2024

 طلاق اور نان نفقہ کے معاملات میں، مسلم خواتین کو درپیش چیلنجز، قانونی تعبیرات اور ثقافتی معمولات کے وسیع تر سماجی مضمرات کی عکاسی کرتے ہیں۔ پرسنل لاء، مساوات کی آئینی ضمانتیں، اور عدالتی تشریحات جیسے عوامل، ہندوستان کے اندر ان مسائل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 اہم نکات:

1.      1980 کی دہائی میں شاہ بانو کیس نے، طلاق کے بعد نان و نفقہ طلب کرنے والی مسلم خواتین کی حالت زار کو بڑے پیمانے پر اجاگر کیا۔

2.      عدالتوں نے فیصلہ دیا، کہ مسلم خواتین سی آر پی سی 125، کے تحت اضافی نان و نفقہ طلب کر سکتی ہیں، جس سے طلاق کے بعد جامع مالیاتی حفاظتی اقدامات کی ضرورت کا تسلیم کیا جانا ظاہر ہوتا ہے۔

3.      اگرچہ قانونی پیشرفت اس سلسلے میں کافی اہم ہے، لیکن سماجی قدریں اور ثقافتی اصول اب بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔

--------

Representative Photo

------

 تاریخی سیاق و سباق اور قانونی سنگ میل

 1980 کی دہائی میں شاہ بانو کیس نے، طلاق کے بعد نان و نفقہ طلب کرنے والی مسلم خواتین کی حالت زار کو بڑے پیمانے پر اجاگر کیا۔ شاہ بانو بیگم نے 42 سال کے رشتہ ازدواج کے بعد، 62 سال کی عمر میں طلاق پانے کے بعد، اپنے شوہر سے مالی مدد مانگی۔ سپریم کورٹ نے پہلے اس کے حق میں فیصلہ سنایا، اور ضابطہ فوجداری کی شق 125 (سی آر پی سی) کے تحت، شاہ بانو کے حق میں نان و نفقہ کا حق تسلیم کیا، جو کہ تمام مذہب و ملت کے ماننے والوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ تاہم، اس کے بعد کے سیاسی ردعمل کی بنیاد پر، مسلم ویمن (پروٹیکشن آف رائٹس آن ڈیورس) ایکٹ 1986 کا نفاذ عمل میں آیا، جس کے بعد مسلم خواتین کو دیا جانے والا نان و نفقہ عدت تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔

 موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے والد چیف جسٹس وائی وی چندرچوڑ کی سربراہی میں، پانچ ججوں کی بنچ نے، محمد احمد خان بمقابلہ شاہ بانو بیگم، کیس کے فیصلہ (1985 SCR (3) 844)، کے ذریعہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ کو بھی بدل دیا۔ 1978 میں اس کی 62 سالہ بیوی، شاہ بانو نے اپنے شوہر ایڈووکیٹ سے شادی کی۔ محمد احمد خان سے اخراجات کی وصولی کے لیے مقدمہ دائر کیا گیا۔ وہ 43 سال تک ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار چکے تھے۔ شوہر نے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا اور یہ کہا، کہ اس کی بیوی اسلامی شریعت کے مطابق، صرف عدت کی مدت (تین قمری مہینوں) تک ہی اس سے اخراجات وصول کرنے کی حقدار ہے، کیونکہ اب وہ طلاق یافتہ ہے۔ اس کے تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے، سپریم کورٹ نے سختی کے ساتھ یہ فیصلہ دیا، کہ شاہ بانو بیگم سی آر پی سی 125 کے تحت، اب بھی اخراجات کی حقدار ہیں۔ اس فیصلے میں نہ صرف سیکولر قانون کو مذہبی قانون سے بالاتر رکھا گیا، بلکہ یہ ایک سیکولر ملک میں، مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی لیے بھی ضروری تھا۔

اس فیصلے کے خلاف مذہبی رہنماؤں نے، ملک بھر میں تحفظ شریعت کے نام پر ریلیاں نکالیں۔ مذہبی رہنماؤں اور مذہبی سیاست دانوں نے مل کر، 43 سال تک شوہر کے ساتھ رہنے والی خاتون کو اخراجات ادا کیے جانے کے، انسانیت پسند فیصلے کے خلاف تحریک چلائی۔

 وزیر اعظم جناب راجیو گاندھی کو، بالآخر بنیاد پرست اسلام پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑا۔ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے، مسلم ڈیورسی پروٹیکشن ایکٹ 1986 منظور کیا گیا۔ راجیو گاندھی کے وزیر قانون اشوک سین نے، اس دن ایوان میں بل پیش کیا۔ اس وقت کے مسلم اتحاد، اور مذہبی بنیاد پرستوں کے حامی قوانین کی تشکیل سے، ہندوتوا سیاست کو کافی تقویت ملی۔ انہوں نے اس ’’مسلم اپیزمنٹ پالیسی‘‘ کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلائی۔ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا، اور ایودھیا جلایا گیا۔

 1986 کا ایکٹ ایک غیر منصفانہ قانون ہے، جو آزاد ہندوستان میں مسلم خواتین کے خلاف کھڑے ہونے والے مردوں کے ہاتھوں، سیاسی قیادت کو زیر کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ اگرچہ 1986 کا ایکٹ بہت سی دوسری خصوصیات کا بھی حامل تھا، لیکن جس طرح سے اسے نافذ کیا گیا، وہ ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے کے لیے کافی تھا، اور تاریخ میں یہ بات درج کر دی گئی، کہ مذہبی بالادستی نے سیاسی قیادت کو زیر کر دیا۔ اس سے ہندوتوا سیاست کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔

اس قانون سازی کو ظاہری طور پر، شرعی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے، مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی سیاسی حکمت عملی کے طور پر دیکھا گیا۔ شریعت کے مطابق، نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر صرف عدت کے دوران ہی ہوتی ہے، جس کے بعد یہ ذمہ داری خاندان کے ورثاء یا ریاستی وقف بورڈ کو منتقل ہو جاتی ہے۔ تاہم، یہ اصول اکثر طلاق یافتہ خواتین کو، نان و نفقہ حاصل کرنے کے لیے، ایک طویل قانونی لڑائی میں جھونک دیتا ہے، جس سے ان کی صحت، عمر اور زندگی سب برباد ہو جاتی ہے۔

 حالیہ عدالتی پیشرفت

 سپریم کورٹ کے 2024 کے فیصلے سمیت، حالیہ عدالتی فیصلے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں، کہ سی آر پی سی کی دفعہ 125، تمام مذہب و ملت کے ماننے والوں پر لاگو ہوتی ہے، جس سے مساوات اور غیر امتیازی سلوک کی آئینی ذمہ داری اجاگر ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ مسلم خواتین کو عدت کی مدت کے بعد بھی، نان و نفقہ طلب کرنے کا حق دیتا ہے، کیونکہ اس میں اس سابقہ قانون کو چیلنج کیا گیا ہے، جو نان و نفقہ کے مطالبے کو شرعی یا سول قانون کی دفعات تک محدود کرتا ہے۔ یہ فیصلہ تمام ہندوستانی شہریوں کے لیے مساوی نتائج کو یقینی بناتے ہوئے، مذہبی معمولات کو آئینی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی طرف، ایک اہم تبدیلی کی علامت ہے۔

 اس معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا، کہ شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937 کو، ناقابل اطلاق قرار دینے والا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے۔ 2010 اور 2024 میں، سپریم کورٹ نے، 1985 کی طرح ہی فیصلہ دیا۔ لیکن 1985 کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے، حکومت نے 1986 میں مردوں کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے قانون بنایا۔ سپریم کورٹ نے تین اہم فیصلے اس انداز میں جاری کیے ہیں، جن سے 86 کا ایکٹ کمزور ہوتا ہے۔ لیکن 1985 سے 2024 تک، بنیادی طور پر یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے، کہ مذہبی طبقہ یا مذہبی سیاست دان سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوال اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی طبقہ بھی، اگر عورت مخالف موقف اختیار کرتا ہے، تو امت اسے مسترد کر دیتی ہے۔ یہ بات بھی امید جگانے والی ہے، کہ کانگریس پارٹی جیسی کوئی تنظیم، جس نے 1986 میں اس قانون کا مسودہ تیار کیا تھا، یا جماعت اسلامی، مسلم لیگ، مسلم پرسنل لا بورڈ وغیرہ، جنہوں نے اس وقت اس کی حمایت کی تھی، 2024 کے فیصلے کے خلاف قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔

مہر اور اقتصادی تحفظ کا مسئلہ

مہر، شادی میں ایک روایتی اسلامی اہتمام ہے، جس کا مقصد عورت کے مالی مستقبل کو محفوظ بنانا ہے۔ تاہم، ہندوستان میں، مہر کی رقم اکثر برائے نام ہی ہوتی ہے، جس سے طلاق کے بعد طویل مدت تک گزر بسر کرنا ناکافی ہوتا ہے۔ اور اس تفاوت کی بنیاد پر، اس بحث میں مزید پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے، کہ آیا جدید مالیاتی حقائق کی روشنی میں مہر کا یہ شرعی اہتمام کافی ہے یا نہیں۔ عدالتوں نے فیصلہ دیا، کہ مسلم خواتین سی آر پی سی 125 کے تحت، اضافی نان و نفقہ طلب کر سکتی ہیں، جس سے طلاق کے بعد جامع مالیاتی حفاظتی اقدامات کی ضرورت کا تسلیم کیا جانا ظاہر ہوتا ہے۔

 سماجی اور ثقافتی چیلنجز

اگرچہ قانونی پیشرفت اس سلسلے میں کافی اہم ہے، لیکن سماجی قدریں اور ثقافتی اصول اب بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ تاہم، اس سلسلے میں تعلیم اور تحریک، عوامی مزاج میں تبدیلی پیدا کرنے، اور ایک ایسے جامع قانونی فریم ورک کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے، جس سے ہر مذہب و ملت کے اندر خواتین کے حقوق کا احترام اور تحفظ یقینی ہو سکے۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ مرد گھریلو خواتین کے مالی انحصار کو سمجھیں، اور اس سلسلے میں پیش قدمی کریں، ان کے حق میں صنفی انصاف کا ماحول سازگار کرنے، اور انہیں معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے ضروری ہے۔

اگر 1980 کے بعد کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے، تو یہ دیکھا جاسکتا ہے، کہ تعدد ازدواج کی شرح میں تیزی سے کمی آرہی ہے، اور عملی سطح پر یہ محسوس ہوگا کہ مسلمان اب تعدد ازدواج سے منہ موڑ رہے ہیں۔ لیکن سیاسی قیادت ایک ایسے حق کو ثابت کرنے کے لیے، مسلمانوں کے مذہبی طبقہ کی حمایت میں جھکتی ہوئی نظر آ رہی ہے، جو بالکل بیکار ہے۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 494 کے مطابق، ایک شخص کو صرف ایک ہی شادی کی اجازت ہے۔ اس دفعہ کا مقصد ایسے شخص کو سزا دینا ہے، جس نے ایک سے زیادہ شادی کی ہو۔ یکم جولائی کو نافذ ہونے والے، تعزیرات ہند کی دفعہ 82 بھی ایسی ہی ہے۔

نتیجہ

طلاق اور نفقہ کے معاملات میں مسلم خواتین کے حق میں، صنفی مساوات کی طرف سفر، قانونی تشریحات، ثقافتی روایات اور سیاسی تحفظات سے پیوستہ، طرح طرح کی پیچیدگیوں اور مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ اب جبکہ قانونی نظیریں ہمارے سامنے آ رہی ہیں، تو تمام ہندوستانیوں کے لیے، ایک مزید منصفانہ اور جامع معاشرے کو فروغ دینے کے لیے، سماجی مزاج اور قانون سازی کے ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں آنی چاہیے۔ ان اصولوں کو برقرار رکھنے میں عدلیہ کا کردار کافی اہم ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے، کہ ہر عورت قانون کے سامنے، پورے وقار اور مساوات کے ساتھ، اپنے حقوق کا دعویٰ کر سکے۔

English Article: The Complex Route to Gender Equality for Muslim Women in Divorce and Alimony Issues

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/gender-equality-muslim-divorce-alimony/d/132805

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..