New Age Islam
Sat May 17 2025, 04:34 AM

Urdu Section ( 14 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Gaza Is Karbala: Israel Is Killing Through Ethnic Cleansing and Genocide غزہ آج کربلا بنا ہوا ہے: اسرائیل غزہ کے لوگوں پر بمباری کرکے ان کی نسل کشی کر رہا ہے

 محمد خاکو، نیو ایج اسلام

 12 دسمبر 2023

 تعطیلات کا موسم قریب آ رہا ہے، انتہائی ناکام سی او پی 28 ختم ہو جائے گا اور اس ارض مقدس پر نسل کشی ہوتی رہے گی اور کرسمس کی کوئی تقریب دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ یہ سال کا انتہائی دردناک انجام ہے۔ سی او پی 28 مبالغہ آمیز جھوٹے وعدوں اور فوسل فیول صنعت کے لیے وسیع پیمانے پر لابنگ کے ایک پلیٹ فارم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

Representative image

------

ایسی طاقتور صنعتیں ہیں جو فوسیل ایندھن سے نفع کماتی ہیں۔ امارات میں موسمیاتی سربراہی اجلاس کا ہونا ایک ستم ظریفی ہے جس کے حکمران کو نہ صیہونی حکومت کے قبضوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی فلسطین میں جاری نسل کشی کی۔

 انہیں صرف اپنی حکومت، پیسے اور طاقت کی حفاظت کرنا آتا ہے۔ جبکہ ارض مقدس میں صیہونی حکومت کے خلاف دفاع میں ان کا کردار سب سے اہم ہے۔

 کربلا کی جنگ کے برسوں بعد، امام حسین کی ایک اولاد نے کہا تھا، "ہر دن عاشورہ ہے؛ ہر خطہ زمین کربلا ہے۔ درحقیقت جو بھی انسان حق و انصاف کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا ہے، اس کے لیے ہر دن ’’عاشورہ‘‘ ہونا چاہیے اور ہر خطہ زمین کربلا۔

 آج کربلا کا میدان ایک ایسی جگہ سجا ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں پر جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، حراستی (موت) کیمپوں میں بمباری کی جا رہی ہے اور انہیں کربلا کی طرح کھانے پینے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

A child stands next to a cooking woman, as displaced Palestinians, who fled their houses due to Israeli strikes, shelter in a tent camp near the border with Egypt, amid the ongoing conflict between Israel and the Palestinian Islamist group Hamas, in Rafah in the southern Gaza Strip, December 11, 2023. (REUTERS)

-----

 بہت سے عرب حکمران ناانصافی اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے حسینی کردار کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہی حکمران اپنے ہی معاشروں میں کرپشن، ظلم اور ناانصافی کا بازار گرم کرتے ہیں۔ یہ آج کے فرعون اور یزید بن معاویہ ابن ابی سفیان ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ امام علی علیہ السلام کے پیروکار یعنی شیعہ یروشلم (القدس) کی آزادی اور فلسطینیوں پر ہو رہے ظلم کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں جبکہ عرب لیڈروں نے فلسطینیوں کو بے بس مرنے کے یے چھوڑ دیا ہے۔

 عربوں کی یہی منافقت آج فلسطینیوں کے تمام مصائب آلام کی جڑ ہے۔ جب تک ہم مکہ کی مقدس سرزمین کو ان عربوں کے ناپاک وجود سے آزاد نہیں کرا لیتے، فلسطینی کی آزادی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ صہیونی عزائم ایک گریٹر اسرائیل کی تشکیل اور فلسطینی عوام کو نیست و نابود کرنے کے پابند ہیں۔

 آج کا کربلا غزہ ہے، اور ہم اسرائیل کے حوالے سے واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ جسے امریکہ، یورپ اور عرب حکومتوں کی طرف سے عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسل کشی میں غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔

 اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپین یونین، ڈبلیو ایچ او، یونیسیف، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن وغیرہ میں اب کیا بھلائی بچی ہے۔

 شرم آنی چاہیے ان تمام تنظیموں کو، یہ تو جانوروں کے حقوق کا بھی تحفظ نہیں کر سکتیں، انسانیت کے حقوق کا تحفظ ان سے کیونکر ممکن ہے؟ یہ تنظیمیں تحلیل کی جائیں اور ٹیکس دہندگان کا مال ضائع ہونے سے بچایا جائے۔

مسئلہ آج بھی وہی ہے جو کل کربلا میں تھا۔ امت مسلمہ پر اختیار، قیادت اور ولایت کا حق کس کو ہے؟

 کیا اس کا حق اسرائیل، امریکہ، یا کرپٹ عرب حکومتوں کو ہے؟ اس کا حق ان میں سے کسی کو نہیں ہے، بلکہ اس کا حق صرف اور صرف امت مسلمہ کو جس کی قیادت متقی اسلامی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہو۔ آج کس ملک میں ایسا متقی لیڈر ہے جو لاکھوں لوگوں کی امامت کر سکے؟

 آج غزہ کربلا بنا ہوا ہے۔ اسرائیل غزہ کے عوام پر بمباری کر کے ان کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اپنے آپ کو اہل بیت سے جوڑ کر اس ناجائز محاصرے کو ختم کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے۔

 پچھلے 75 سالوں سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی بدعنوان مطلق العنان اور آمرانہ حکومت نے کیا خوب کیا ہے۔ انہوں نے صرف صہیونی کی مطابقت اور مماثلت اختیار کی ہے۔

 ہمیں غزہ کے لوگوں کو بچانا چاہیے اور نہ صرف غزہ بلکہ اس دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان پریشان حال ہیں اور مارے جا رہے ہیں ان کی حفاظت و صیانت کے لیے ہمیں کھڑا ہونا چاہیے۔

 آج ہماری باری ہے کہ ہم یوم عاشور کے موقع پر امام حسینؑ کی اس پکار پر لبیک کہیں کہ ’’ہے کوئی مدد کرنے والا‘‘۔ مشرق وسطی کے ارد گرد مجاہدین آزادی اور مزاحمتی جنگجوؤں نے لبیک یا حسین کی شکل میں اس کا جواب دیا ہے!

 کون ہے جو غزہ کے ان 26 لاکھ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو، جو آج صرف اس لیے مارے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے مزاحمتی تحریک کی حمایت کی اور انہیں چنا۔

 کھانا، پانی، بجلی اور طبی سامان کی فراہمی سے محروم کر کے اہل غزہ پر بمباری اور ان پر ناکہ بندی غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ یہ چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 کی صریح خلاف ورزی ہے۔

 1972 سے لے کر اب تک امریکہ کی طرف سے ویٹو کی گئی پچاس سے زائد قراردادوں پر عالمی رہنما بشمول عرب لیڈروں اور اقوام متحدہ کے، خاموش ہیں۔ جو بائیڈن سمیت سب کے خون کا رنگ ایک ہی جیسا ہے اور جو لوگ خاموش رہے یا صہیونی عزائم کی معاونت کر رہے ہیں ان کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

 صیہونی یہودیوں کو جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کوئی رحم نہیں آیا، تو وہ فلسطین کے عیسائیوں یا مسلمانوں پر کیسے رحم کریں گے۔ عیسائی تاریخ گواہ ہے کہ عیسیٰ مسیح کو کس نے قتل کیا؟ اور اس کی تحقیق پیش کرنا یا اس موضوع پر بحث کرنا سام دشمنی نہیں ہے۔

 میتھیو کی (26-27:25) میں صہیونی یہودی عیسی مسیح کی پھانسی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اب یہ تاریخ مٹائی نہیں جا سکتی۔

 https://slate.com/news-and-politics/2001/04/did-the-jews-kill-jesus.html

 ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کی مذمت کی ہے اور اسرائیل کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا ہے۔ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ غلط ہے، اور ہمیں بولنے کی ضرورت ہے۔ اب خاموشی برداشت نہیں!

 جب تک عالمی برادری خاموش رہے گی اسرائیل کے مظالم اسی طرح جاری رہیں گے۔ لیکن جو چیز مجھے زیادہ تکلیف دیتی ہے وہ مسلم لیڈروں کی خاموشی ہے، کیونکہ ان کے اندر ایسے کسی بھی ملک کے سفارت خانے کو بند کرنے کی طاقت ہے جو نسل کشی کی حمایت کرتے ہیں، یا ارض مقدس میں امن قائم کرنے کے لیے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔

 ضروری ہے کہ عرب اور مسلم لیڈر کھل کر اسرائیل کے مظالم کی مذمت کریں۔ وہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کو روک سکتے تھے لیکن اس کے بجائے وہ اسرائیل کے جنگی جرائم میں برابر کے شریک ہیں اور اس عظیم ترین انسانی المیے پر خاموش ہیں۔ آج ہم ارض مقدس میں ایک اور ہولوکاسٹ اور نازی ازم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

ایڈمنڈ برک نے کہا تھا، "برائی برے آدمیوں کی وجہ سے نہیں پھیلتی، بلکہ اس وجہ سے اس کا سایہ دراز ہوتا ہے کہ اچھے لوگ اس کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کرتے۔" فلسطینیوں کی طرف سے فائر کیے گئے راکٹوں کے جواب میں اسرائیلی حملے کی بات کہنا ایک ناقص استدلال ہے، اور اس سے اسرائیل کی سلامتی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 اور جب اپنے دفاع کی بات آتی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل کا غزہ کے باشندوں کو کھانا، پانی، بجلی اور ادویات سے محروم کرنے کے اقدامات سے اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت ملتی ہے، یا اس سے انتہا پسندی کی آگ اور تیز ہوتی ہے؟

 یہ رویہ فلسطینیوں کی نئی نسل کو، اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرے گا۔ غزہ کے محاصرہ سے نہ تو اسرائیل کے مشرق وسطیٰ میں ایک مستقل وطن حاصل کرنے کے مقصد کی تکمیل ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے اعتدال پسند مسلم ریاستوں کو یہودی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

 نیو کنزرویٹیو اور اسرائیلی لابی مثلا امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (اے آئی پی اے سی) نے امریکی انتظامیہ کو مجبور کیا اس بات پر کہ وہ سالانہ ٹیکس سے حاصل ہونے والے 3.5 بلین ڈالر اسرائیل کو دے۔

 مختلف مطالعات، اخباری کالموں اور کتابوں کے مطابق، ہماری مشرق وسطی کی پالیسیاں AIPAC طے کرتی ہے، جو اسرائیل کے لیے فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہے اور امریکی شہریوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ اسرائیل کوئی امریکی ریاست نہیں ہے جہاں ہمیں اربوں ڈالر دینے کی آزادی ہو۔

 نسل کشی کرنے والی غاصبانہ صیہونی ملٹری فورس (ZMF) - میں IDF کا لفظ استعمال نہیں کرتا، کیونکہ یہ ایک غاصب فوج ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف حملے نے امریکہ کی شبیہ کو مزید داغدار کیا ہے، اور امریکہ کو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ایک ایماندار دلال کے طور پر بھی نہیں دیکھا جاتا۔

 مزاحمتی تحریک کے دفاع اور ان کی مذمت کے حق کا سوال ایک کیڑے کی طرح ہے جو مکڑی سے اپنی آزادی مانگ رہا ہے، اور صیہونی جال کے مقصد غافل ہے!

 مزاحمتی جنگجوؤں کے ہاتھوں کھلی جیل یا حراستی کیمپ کی 75 سال کی آہنی دیواروں کے تباہ ہوئے تقریباً دو ماہ ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کی پاداش میں جنگ یا نسل کشی اب تک جاری ہے جس میں سولہ ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر بچے ہیں، اور یہ حماس کو بھی تباہ نہیں کرنا چاہتے۔

 تاہم، فوراً ہی اینگلو سیکسن سامراجی صیہونی، استعماری، سیاست دانوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں نے دو سوال پوچھنا شروع کر دیے ہیں۔ کیا آپ حماس کی قتل وغارتگری کی مذمت کرتے ہیں اور کیا اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے؟

 ظالم کی مذمت کرتے ہو، مظلوم سے پوچھو؟ یہ ایک احمقانہ سوال جس کا مقصد ہمیں گمراہ کرنا ہے۔ تاہم، ایک عقلمند شخص یہ سوچتا ہے کہ سوال کیوں پوچھا جا رہا ہے۔

 اس کے بعد صہیونی میڈیا کے عزائم ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جو ہماری توجہ حماس پر ہی جمائے رکھنا چاہتے ہیں، لیکن آئیے ہم اس پورے منظر نامے پر نظر کریں۔ کیا آپ حماس کی مذمت کرتے ہیں؟ ہم نے یہ راگ یا دھن پہلے بھی سنی ہے۔ درحقیقت، یہ صدیوں سے گونج رہی ہے۔

 یورپی آباد کاروں نے جنوبی، وسطی اور شمالی امریکہ میں ایک سو سال کے دوران پچاس ملین مقامی لوگوں کو ہلاک کیا۔ یہ مقامی امریکیوں کی نسل کشی تھی، لیکن سوال یہ تھا کہ کیا آپ جنگلی ریڈ انڈینز کی مذمت کرتے ہیں؟

 6 اگست 1945 کو جب ایک جوہری بم نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کر دیا جس میں کئی لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تو اس وقت بھی سوال یہی تھا کہ کیا آپ پرل ہاربر کی مذمت کرتے ہیں؟

ہو چی منہ نے آزادی کے لیے فرانسیسی اور امریکیوں (نوآبادیاتی طاقت) کے خلاف جنگ لڑی، لیکن سوال یہ تھا کہ کیا آپ کمیونزم کی مذمت کرتے ہیں؟

 براعظم جنوبی امریکہ اور افریقہ میں برطانویوں کی تین صدیوں کی نوآبادیاتی حکمرانی کے بعد۔ پرتگالی، اسپین، فرانسیسی اور بیلجیم سے سوال یہ تھا کہ کیا آپ سوشلزم کی مذمت کرتے ہیں؟

 نائن الیون کے بعد افغانستان، پاکستان، شام، صومالیہ، یمن اور لیبیا میں چالیس لاکھ سے زائد افراد مارے گئے جس میں امریکی ٹیکس دہندگان کو ایک بھاری قیمت چکانی پڑی۔ لیکن تب بھی سوال یہی تھا کہ کیا آپ 9/11 کی مذمت کرتے ہیں؟

 عراق میں ایک ملین سے زیادہ لوگ مارے گئے اور سوال یہ تھا کہ کیا آپ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) کی مذمت کرتے ہیں، علی ھذا القیاس فہرست کافی لمبی ہے، لیکن اب آپ پوری بات سمجھ گئے ہوں گے۔

 اب آپ کے سامنے مکمل منظر نامہ ہے۔ کوئی بھی ان لوگوں سے کسی حل کی توقع نہیں کر سکتا جنہوں صیہونیت کا جال خود بچھایا ہے۔ اس کی مثال ایک کیڑے کی طرح ہے جو مکڑی سے اپنی آزادی مانگ رہا ہے، اور جال کے مقصد سے ناواقف ہے۔

 کیا اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے؟

 ہر ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اسرائیل کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ انسانوں پر 75 سال تک قبضہ مسلط رکھے اور غزہ پر فلاڈیلفیا کے برابر دو ایٹمی بم گرائے۔

 1953 میں سوویت قبضے کے خلاف ہنگری کا انقلاب دیکھیں جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، کیا روس کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بطور غاصب کے، ہنگری انقلاب کے خلاف اپنا دفاع کرے؟ نہیں۔

 یوکرین کی جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا، کیا روس کو کریمیا کے مقبوضہ علاقوں اور ڈونیٹسک، کھیرسن اور لوہانسک کے کچھ حصوں کے دفاع کا حق حاصل ہے؟ نہیں!

تو پھر ہم اسرائیل کو دفاع کا حق کیسے دے سکتے ہیں جب کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر ایک ناجائز وجود ہے اور روس ہی کی طرح ایک قابض حکومت ہے۔ چنانچہ فلسطینیوں کو بھی صہیونی قبضے کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے۔

 میں ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتا ہوں، لیکن نسل پرست حکومت اور نسل کشی کی بھی مذمت کی جانی چاہیے۔ تاریخی حقائق سے غافل ہو کر بات کرنے میں ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے، لیکن کس کے خلاف؟

 ان لوگوں کے خلاف جنہیں اسرائیل نے خود ان کی زمینوں، کھیتوں، پانی، کھانے اور ایندھن سے محروم کر رکھا ہے، اور جن کے چھوٹے بچوں کو قید کر کے ان پر تشدد کیا ہے۔

 اسرائیل نے غزہ کو حراستی کیمپ اور اب موت کا خیمہ بنا دیا ہے۔ جب تک ہم اسرائیل کے بارے میں بات نہ کریں کہ وہ اقوام متحدہ کی سینکڑوں قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل خود کو مظلوم ظاہر کر رہا ہے، لیکن کس کے خلاف؟

ان 2.6 ملین لوگوں کے خلاف جن کے پاس بہتا ہوا پانی نہیں ہے اور 90 فیصد پانی آلودہ ہے، پینے کے قابل نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کے 75 سال کے قبضے کی تاریخ ہے جسے نوبل انعام یافتہ مورخین نے دستاویزی شکل دی ہے۔

 اسرائیل کو اپنا قبضہ مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی اپنے دفاع کا کوئی حق ہے اور نہ ہی میں مزاحمتی جنگجو حماس کی مذمت کرتا ہوں جب تک صیہونی اسرائیل کو اس کی نسل کشی کے لیے انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا کھڑا کیا جاتا۔

 میں ایسی باتیں نہیں کرتا! لیکن وہ حقیقت کو پلٹ کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں! یہ فلسطینیوں کے خلاف جھوٹ اور میڈیا کی ایک بڑی جنگ ہے، سچ کو پلٹنے سے لے کر حقیقت کے پلٹنے تک۔

 یہ ایک پروپیگنڈا ہے - نازی جرمنی کے حماس کے دفاع اور مذمت کے حق کی پیداوار ہے، جسے اینگلو سیکسن سامراجی استعماری صیہونی میڈیا استعمال کرتا ہے۔

 یہ افسوسناک ہے کہ جو کبھی نازی ازم کا نشانہ بنے تھی اب خود نازی ازم کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کوئی کیسے 6000 سے زیادہ بچوں کے قتل، 20000 سے زیادہ گھروں کی تباہی، کھنا، پانی، ایندھن اور طبی سامان پر پابندی کا جواز پیش کر سکتا ہے۔

English Article: Gaza Is Karbala: Israel Is Killing Through Ethnic Cleansing and Genocide by Bombing the People of Gaza

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/gaza-karbala-israel-ethnic-genocide/d/131311

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..