فیروز بخت احمد
بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ گاندھی جی شستہ اردو تولکھتے ،بولتے اور پڑھتے تھے ہی ،عربی بھی وہ جانتے تھے اور فارسی کا بھی انہیں علم تھا کیونکہ اکثر سیاسی محفلوں میں وہ فارسی اشعار وکہاوتوں کا استعمال کیا کرتے تھے ۔اردوکلچر یا اسلامی اقدار سے قربت مولانا آزاد سے قربت کا نتیجہ تھی۔
کچھ لوگوں کےنزدیک گاندھی جی سیاستداں ہو ں گے ۔کچھ لوگوں کے لیے وہ فلسفی ہوں گے ،کچھ لوگوں کے لیے وہ آزادی ہند کے جاں نثار سپاہی ہوں گے اور کچھ لوگوں کے لیے و ہ محض ایک اچھے انسان ہوں گے ۔سیاست میں رہتے ہوئے انسان کا اچھا انسان بنے رہنا کچھ دشوار سا عمل ہے۔مگر گاندھی جی کی یہ خوبی تھی کہ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے ایک اعلیٰ انسان تھے ۔
بقول مولانا آزاد اچھا انسان ہونا ایک ایسی عظمت ہے جو بڑی عام سی دکھائی دیتی ہے مگر کم ہی خوش نصیبوں کےحصے میں یہ خصلت آتی ہے ۔واقعی گاندھی جی بہت اچھے انسان تھے۔ ایک مرتبہ جب بنگال کے نواکھالی علاقے میں خطرناک قسم کے ہند و مسلم فسادات چل رہے تھے تو گاندھی جی گھر گھر جاکر خیر سگالی کا پیغام دےرہے تھے ۔ یہ واقعہ راقم کے والد نورالدین احمد مرحوم کے پاس کلکتہ میں مولانا کے غیر مطبوعہ تحریری خزانہ سے اخذ کیا گیا ہے ۔جب بڑا لال بازار کے ایک گھر کے زینہ سے گاندھی جی اتر ے تبھی انہیں ایک جوشیلے بنگالی مسلمان نے پکڑ لیا اور گردن گرفت میں کر کے گلا دبا نا شروع کردیا ۔ان دنوں سیکورٹی گارڈ نہیں ہوا کرتے تھے ۔ اس سے قبل کہ مولانا آزاد جو کہ اس وقت ان کے ساتھ تھے اور دیگر اکابرین جیسے مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی ،مولانا حفظ الرحمٰن وغیرہ بھی ان کےساتھ تھے، یہ کوشش کرتے کہ مولانا کو چھڑائیں ،وہ شخص بولا ۔‘‘کوئی آگے نہیں آئے گا اس کافر کی کیسے ہمت ہوئی کہ یہ یہاں آگیا!’’ یہ کہہ کر اس نےگاندھی جی کو دھکا دیا، وہ دھان پان تو تھے ہی گرگئے ۔مگر گرتے ہوئے انہوں نے جب سورۃ فاتحہ پڑھی تو سب دنگ رہ گئے ۔ یہ دیکھ کر وہ بنگالی مسلمان بھی حیران رہ گیا اور دشمنی تھوک کر تاحیات ان کا چیلا بن گیا۔ اس کا نام تھا عبدالرحمٰن منڈل ۔
ایک مرتبہ جب ہندوپاک کی تقسیم کو روکنے کے لیے ایک اہم ترین میٹنگ سابرمتی آشرم میں چل رہی رہی تھی تودرمیان میں سے گاندھی جی اٹھ کر جانے لگے کہ وہ اپنی بکری کی زخمی ٹانگ پر کھڑیا مٹی لگانے جارہے ہیں۔ جو دیگر اہم شخصیات اس میٹنگ میں موجودتھیں وہ تھیں : سراسٹا فرڈ کرپس ، لارنس ،سرائے ۔وی۔الکونڈر پنڈت نہرو ،سردار ولبھ بھائی پٹیل اور مولانا آزاد ۔جب پندرہ منٹ تک گاندھی جی جہیں آئے تو 2مئی 1946کی اس اہم میٹنگ کے شرکا باہر آنگن میں آگئے وہاں وہ یہ دیکھتے ہیں کہ گاندھی جی اپنی بکری کی ٹانگ پر لیپ لگا کر اس پر پٹی باندھ رہے تھے۔ بکری ذرا چھٹپٹا رہی تھی ۔ یہ دیکھ کر سرپیتھک لارنس بولے، ‘‘کمال ہے گاندھی جی ! اتنی چھوٹی سی بات کے لیے آپ اتنی اہم میٹنگ چھوڑکر آگئے ’’۔قریب میں کھڑے مولانا آزاد نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہا: سرپیتھک !گاندھی جی عظیم ہیں اور اسی وجہ سے وہ عظمت کے اس درجہ کو پہنچے ہیں کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی اور معمولی سی دکھائی دینے والی باتوں کو اہمیت دیتے رہے ہیں ۔لوگ انہیں اسی لیے چاہتے ہیں کہ بڑی بڑی باتوں کے ساتھ گاندھی جی چھوٹی چھوٹی باتو کا بھی بے انتہا خیال کرتے ہیں!’’
گاندھی جی مولانا آزاد کے بڑے عقیدت مند تھے اور ان کی بے تحاشہ عزت کیا کرتے تھے ۔مولانا کے کردار کودیکھ کر ہی وہ مسلمانوں سے خود کو بہت قریب سمجھتے تھے ۔ گاندھی جی نے کئی رسائل کی ادارت کی تھی جن میں خاص تھے انگریزی کا انڈین اوپی نین (Indian Opinion)اور گجراتی کا ‘‘ہریجن’’ ۔ان دونوں جرائد میں گاندھی جی نے کھلے ذہن سے مولانا آزاد کی تعریفوں کے پل باندھے ہیں ۔‘‘ہریجن’’ میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں : ‘‘مولانا آزاد کی عادت تھی کہ وہ مخالفوں سے نہیں الجھتے تھے۔ گاندھی جی کو پتہ تھا کہ مولانا ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ کا نسخہ اختیار کرتے تھے جس میں شفا ہے۔دشمنوں سے کیا سلوک ہوناچاہئے وہ سب رسولؐ کے اسوۂ حسنہ میں ہے۔ اس کے بعد کسی سے سبق لینے یامدرسے کی ضرورت نہیں، ان کا اتباع ہی اس مرض کا علاج ہے۔مولانا مخالفوں کو جواب نہیں دیا کرتے تھے ۔بقول گاندھی جی مولانا صاحب سیاست کو دینوی چیز تسلیم کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی مثال اس مے کدے کی سی ہے کہ جام ہی نہیں ٹکراتے عمامے بھی اچھلتے ہیں۔ مخالفوں کو جواب دینے کا مطلب ہے کہ ہم نے انہیں تسلیم کرلیااور یہ عشق مقصود کی نفی ہے۔
گاندھی جی مولانا صاحب کی بذلہ سنجی و حاضری دماغی کےبھی قائل تھے۔ مولانا آزاد کے حافظے میں عرب شعرا کی حاضر جوابیاں ،عرب حکما کیے دقیقہ سنجیاں اور عرب کنیزوں کی برجستہ گوئیاں ڈھیر تھیں۔ وہ اپنی نکتہ رس طبیعت سے انہیں اور نکھار دیتے ۔کئی مسائل میں ان کے جواب اختصار کلمات کی رعایت سے خوب ہوتے اور بعض سیاسی سنگیوں کو مطائبات سے ٹال جاتے ۔ اس ذخیرے کو ایک علیحدہ کتاب میں جمع کیا جاسکتا ہے ۔ بذلہ سنجی سے متعلق ان کی رائے تھی کہ سمع اور ظرافت میں وہی رشتہ ہے جو حسن اور نزاکت میں ہے۔ خلوت پسندی بقول گاندھی جی مولانا صاحب کے کردار کا ایک اہم حصہ تھی تنہائی چاہے جس حالت میں بھی آئے گی ۔ ابتدا سے ہی مولانا کو جب سے ان کے کلکتہ بالی گنج سرکلر روڈ والے مکان میں دیکھا تو یہی پایا کہ شروع سے ہی طبیعت کی افتاد کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ خلوت سے خواہاں اور جلوت کے گریزاں رہتے تھے ۔لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے تھے مگر بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہی مولانا کا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جابیٹھتے اور کوشش رہتی کہ لوگوں کی نظر سے اوجھل رہیں۔
کس طرح سے آج کے سیاستدان سرکاری روپیہ کو بے دردی سے برباد کرتے ہیں ایک پرانی حقیقت ہوچکی ہے ،مگر گاندھی جی کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ مال مفت ،دل بے رحم والی بات گاندھی جی زخمیوں کی مدد کے لیے چندہ جمع کررہے تھے ۔ یہ چمپارن کا واقعہ ہے ۔ ان کو ایک طالب علم نے ان کے آٹو گراف کے عوض دس روپیہ کانوٹ دیا۔ گاندھی جی کو رات کو واپس اپنے میزبان دوست راجن مہاپاتر کے گھر لوٹنا تھا۔ گاندھی جی کے ساتھ اس وقت آچاریہ کرپلانی اور مسٹر بھنسالی بھی تھے ۔گاندھی جی نے آچاریہ کرپلالی کو دس روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ تانگہ کرلیں۔ تانگے والے سے پانچ روپے لینا بھول گئے ۔ادھر تانگے والے نے بھی ان کو ور رقم واپس نہ کی۔ جب رات کو گاندھی جی جے کرپلانی سے حساب مانگا تووہ بولے ، تانگے والے نے تو پیسے واپس ہی نہیں کرے’’۔اس پر گاندھی جی جو غصہ آگیا اور وہ بولے ‘‘ دیکھو کرپلانی یہ لوگوں کا پیسہ ہے ۔ اس امانت کو ہمیں بہت احتیاط سے استعمال کرنا ہے ۔آگے سے ہم چندہ کے پیسے میں سے کچھ نہیں خرچ کریں گے اور آنے جانے کا خرچہ بھی ہم تینوں میں سے ہی کوئی دے گا’’۔کرپلانی جی کو اس کےبدلہ میں رات کا کھانا چھوڑ نا پڑا ۔ اس بات سے گاندھی جی کے زندگی کے اس حصہ پر روشنی پڑتی ہے جس میں وہ اصولوں اور ڈسپلن کو سب سے زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے۔
گاندھی جی کی خاص عادت تھی کہ وہ کسی چیز کو پھینکا نہیں کرتے تھے بلکہ بہت سنبھال کر رکھ لیا کرتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا ک ان کو کباڑ جمع کرنے کا بہت شوق تھا ۔یہ واقعہ ۱۹۳۴کاہے جب گاندھی جی لندن جارہے تھے۔ جس جہاز میں وہ سفر کررہے تھے وہ پانی کا جہاز تھا اور اس پر ہر مسافر کو ایک رسالہ فری ملا کرتا تھا جس میں مزاحیہ اور اکثر وبیشتر بے ہودہ مواد بھی ہوتا تھا ۔ اس کا نام تھا ،‘‘اسکینڈل ٹائمس’’ ۔کئی دفعہ اس میں لوگوں کے ذاتی رشتوں پر بھی کیچڑ اچھالی جاتی تھی۔ جب گاندھی جی کو اس کی ایک کاپی دی گئی توورق گردانی کے بعد انہوں نے اس میں سے وہ کلپ نکال لیا جس سے کاغذ یکجا کئے گئے تھے ۔بقیہ ‘‘اسکینڈل ٹائمس’’ کے صفحات انہوں نے واپس لوٹاتے ہوئے کہا ،‘‘ اس میں صرف وہی چیز کام کی تھی، باقی تو فضول کاغذات ہیں ’’۔1931کی سردیوں کا ہے جب گاندھی جی انگلستان میں تھے ۔لندن میں جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے، ان کی حفاظت کے لیے دوپولس گارڈ ،سارجینٹ ایوانس اور سارجینٹ راجرس تعینات کئے گئے ۔دونوں گارڈوں کو جاسوسی کرنے کا کام بھی سپرد کیا گیا تھا۔ لہٰذا جب گاندھی جی سخت وجمادینے والی ٹھنڈ میں صبح ۴ بجے ہی اٹھنا پڑتا تھا ۔جب تک گاندھی جی کا ہندوستان لوٹنے کا وقت ہوا تب تک ان دونوں وگاندھی جی میں بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ گاندھی جی کو یوں تو انگریز ی حکمرانوں کے ساتھ اس دورہ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی مگر ہندوستان لوٹنے پر انہیں یاد آیا کہ انہوں نے اپنے دوست گارڈوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کو دو انگریزی گھڑیاں بطور تحفہ دیں گے، مگر مصروفیات میں ضرورت سے زیادہ مشغولیت کی وجہ سے وہ ان کو گھڑیاں انگلستان میں خرید کر نہ دے سکے ۔
بمبئی پہنچتے ہی گاندھی جی نے اپنے ذاتی سکریٹری سے کہا ،‘‘فوراً مارکیٹ سے دو انگلش گھڑیاں خرید کر لاؤ ۔ ان دنوں گاندھی جی کے ہی کہنے پر ‘‘سودیشی’’ چیزوں کے استعمال کی تحریک چل رہی تھی کیونکہ انگریزوں نے گاندھی جی کی بات نہیں مانی تھی اور ناکامیاب ہوکر انگلستان سے لوٹے تھے۔ لہٰذا گاندھی جی کے سکریٹری کو ایک بھی گھڑی نہیں ملی ۔دوبارہ جب وہ تمام مارکٹوں میں چھان بین کر کے کرافورڈ مارکٹ گیا تو دوکاندار نے ایک پورا کریٹ گھڑیوں کا بھجوادیا جس میں سوئس ،جرمن ، فرینچ گھڑیاں تو موجود تھیں مگر انگلش گھڑی نہیں تھی ۔آخر کا رہمت کر کے ان کے سکریٹری نے پوچھ ہی لیا، ‘‘گاندھی جی آخر آپ کو انگلش گھڑیوں کی ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ۔آپ نے ہی تو انگریزی سامان استعمال کے بائکاٹ کا حکم دیا ہے۔‘‘ تب گاندھی جی نے اسے تمام بات سمجھائی اور کہا ، ‘‘مجھے انگلستانی لوگوں سے کوئی گلے شکوے نہیں جس کی وجہ سے میں اپنا وعدہ اپنے دوستوں ایوانس اوراجرس کی خوشی کے لیے پورا کرنا چاہتاہوں ’’۔آخر کارگاندھی جی کو یہ گھڑیاں دلی میں مل گئیں اور انہوں نے بذریعہ پارسل اپنے دوستوں کو بھیج دیں۔
بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ گاندھی جی کرکٹ کےاچھے کھلاری بھی تھے ۔۲اکتوبر ۱۹۵۰کے دہلی کے روزنامہ ‘‘الجمعیۃ ’’ میں آفتاب احمد صدیقی (مرحوم) لکھتے ہیں ، ‘‘گاندھی جی کے الفریڈ ہائی اسکول ، راجکوٹ ، کے کلاس فیلورتی لال گھیلا بھائی مہتہ نے مجھے بتایا کہ گاندھی جی بہت اچھے کرکٹر تھے۔ ان کو بلے بازی اور فیلڈنگ میں مہارت حاصل تھی ۔ وہ کورز میں بہت تیزی سے گیند کو فیلڈ کرتے تھے۔ ان کے من پسند کھلاڑی انگلستان کے کپتان ڈکلس آر ۔ جارڈائن تھے ’’۔اسی مضمون میں آفتاب صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ گاندھی جی نے ایم ۔سی ۔سی کی ٹیم کے لیے میچ بھی کھیلا تھا۔یہ بات دسمبر 1934کی ہے ۔گاندھی جی نے کس طرح یہ میچ کھیلا بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں مگر تحریری طور پر اس کا ثبو ت لکشمی مرچینٹ کے پاس ہے جو وجے مرچینٹ کی بہن ہیں اور بمبئی کے روزنامہ ‘‘فری پریس جرنل’’ میں یہ بات 24جنوری 1949کو شائع ہوچکی ہے۔ آفتاب صاحب نے مس لکشمی مرچینٹ کے ذریعہ یہ بات بھی لکھی ہےکہ 1934میں گاندھی جی نے ایم ۔سی۔سی کی ٹیم کے لیے ایک میچ بھی کھیلا اور آٹو گراف بک میں دستخط بھی کئے ۔یہ آٹو گراف بک آج ایم ۔سی ۔ سی کے میوزیم کا پیش قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/gandhiji-injured-goat-/d/1832