New Age Islam
Sat May 17 2025, 05:50 AM

Urdu Section ( 2 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Future of Muslims in India ہندوستان میں مسلمانوں کامستقبل

مفتی ثناء الہدی قاسمی

29دسمبر،2023

بدلتے ہندوستان میں ہر چھوٹے بڑے کے ذہن میں ایک سوال گردش کررہاہے کہ موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیاہے؟ ظاہر ہے یہ بات صرف اللہ رب العزت جانتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔انسان حالات کا تجزیہ کرسکتاہے،اندازہ لگا سکتاہے اور زیادہ سے زیادہ نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں جو چیزچھن کر سامنے آئے گی وہ حتمی چیز تو نہیں ہوگی البتہ ایک ظنی بات ہوسکتی ہے او ریہ گمان حقیقت کے قریب بھی ہوسکتا ہے اور دور بھی۔

واقعہ یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان کے موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہندتوا کی تیز لہر نے مسلمانوں کو جانی او رمالی نقصان پہنچایا ہے۔ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے او رمسلمان خوف کی نفسیات میں جی رہے ہیں۔ماب لنچنگ،فسادات،مسلم پرسنل لا سے متعلق قوانین میں عدالت کے ذریعہ ترمیم کے واقعات کثرت سے ہورہے ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہوچکاہے۔بنارس کی گیان واپی مسجد،متھرا کی شاہی عید گاہ او ردہلی کی سنہری مسجد پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔تین طلاق کالعدم ہوکر قابل تعزیر معاملہ بن گیا ہے۔ لیون ریلیشن شپ یہاں جائز ہے او راس میں تعداد کی بھی قید نہیں ہے،لیکن کثرت ازدواج کو جرم قرار دیا جارہا ہے۔آسام میں اس سلسلے کا بل اسمبلی میں پیش ہونے والا ہے۔ بعض جگہوں پر فرقہ پرستوں نے مسلم تاجروں او رچھوٹے دکانداروں سے سامان کی خریداری پر روک لگا رکھی ہے۔ یوٹیوب پر اس مہم کی کئی کلپ آپ کو مل جائیں گی۔غرض یہ کہ مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ کی جارہی ہے انہیں جانی،مالی وسماجی بلکہ اعتقادی مسائل ومشکلات کا سامنا ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے۔

سماجی طور پر مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو الگ تھلگ کر دینے او رانہیں نفسیاتی دباو کے ذریعہ مضمحل کرنے کی مہم بھی زو روں پرچل رہی ہے،جس کی وجہ سے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔داڑھی اور حجاب کامعاملہ اسی زمرے میں آتا ہے۔حکومتی سطح پر معاملات کے نمٹانے کے بھی پیمانے دو ہوگئے ہیں۔کنور دانش علی کو پارلیمنٹ میں گالیاں دے کربھی بچ جاتاہے اور حکومت پر تنقید کرنے پر بعضوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتاہے۔جوہر یونیورسٹی برباد کی جاتی ہے، جب کہ غیر وں کی کتنی عبادت گاہیں غیر قانونی طور پر قبضہ کی زمینوں پر قائم ہیں، کوئی جرم کرکے بھی دندناتا پھرتاہے او رکئی بے گناہی کے باوجود اروگیر کا شکار ہوتاہے۔ حالات تو یہی ہیں اور ان حالات کی روشنی میں اگر مستقبل کی طرف جھانکیں تو وہ تاریک نظر آتاہے بہتری کی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ لیکن ہم مسلمان ہیں، قنوطیت یاس اور ناامیدی میں جانے سے ہمیں روکا گیا ہے اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ کی رحمت سے ناامیدی کو کفر کا شعار بتایا گیاہے اس لیے ان تاریک راتوں کے بعد ہمیں صبح نو کی نمود دکھائی پڑتی ہے فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے۔

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

رات کی تاریکی سے دن کے سورج نکلنے کی بات وہم وخیال نہیں، مشاہدہ او رصداقت پر مبنی ہے،جس کاہم لوگ روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اس شب دیجور کی سحر یقینا ہوگی، تاریخ نے اس کامشاہدہ بار بار کیا ہے کہ ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘۔

معاملہ نادرشاہ درانی کا ہویا تاتاریوں کا، مسلمانوں پر بڑا سخت وقت گذر ا اور کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ مسلمان اس سیل بلا خیز سے کبھی نکل پائیں گے لیکن نکلے اور آب وتاب کے ساتھ نکلے۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی حکومت کو تاراج کیا، شیر میسور ٹیپو سلطان او رمغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر بھی اس کے ظلم وستم کی بھینٹ چڑھ گئے۔اس وقت بھی دنیا مسلمانوں کے لیے تاریک سی ہوگئی تھی۔ کم و بیش آٹھ سو سال تک حکمرانی کے بعد یہ زوال ظاہر ہے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنے والا تھا، لیکن 1947، میں ملک آزاد ہوا تو مسلمان اسی شان وشوکت کے ساتھ دوبارہ منظر عام پرآئے۔ زمینداری ختم ہوئی،فاختہ اڑانے اور مرغوں کی لڑائی ختم ہوئی، شان وشوکت پربھی زوال آیا، کئی مسلم ریاستیں ہاتھ سے نکل گئیں۔ ہر طرف گھور اندھیرا ہی اندھیرا تھا، ایسے میں مسلمان نئے حوصلے اور جذبہ کے ساتھ میدان میں آئے۔مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانوں کے اکھڑتے قدم او رپاکستان کی طرف تیزی سے ہجرت کررہے لوگوں کو آواز لگائی تو مسلمان ہندوستان میں جم گئے اور وہ اس وقت پوری ملکی آبادی میں کم وبیش اٹھارہ فیصد ہیں۔ بعضے تو یہ تعداد بائیس فیصد بتاتے ہیں۔ اس لمبی مدت میں تاریخ کی آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا، بہت سارے مدوجزرآئے،سُدھی تحریک چلی لڑکیوں کو مرتد کرنے کیلئے مختلف طریقے اپنائے گئے۔مسلمانوں کو ان کی تہذیب وثقافت سے دور کرنے کی مہم پہلے بھی چل رہی تھی او راب بھی چل رہی ہے،لیکن مسلمان وہ قوم ہے جسے روئے زمین سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ اس لئے یہ ابدی او ردائمی امت ہے اور اسے ہر طوفان سے نکلنے کا فن آتاہے۔سامنے کی بات ہے کہ اگر اسلام قیامت تک کے لئے ہے تو اس کے ماننے والے بھی قیامت تک رہیں گے۔

اس رجائیت کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نہ تو اب ابابیل کالشکر آئے گا اورنہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کی طرح آسمان سے من و سلویٰ کا نزول ہوگا۔ قدرت کانظام ہے کہ سارے کام اسباب کے ذریعہ ہوتے ہیں۔ اسباب سے پہلو تہی کرکے صرف امید کا دامن تھام کر ہم حالت کوبدل نہیں سکتے۔ ہمیں ان حالات کو بدلنے کے لیے بڑے عزم وارادہ کے ساتھ مثبت او رمضبوط فیصلے لینے ہوں گے او راسے ترجیحی بنیادوں پر تنقید کے مراحل سے گذارنا ہوگا، ہم ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے ایک روشن مستقبل کی داغ بیل ڈال سکیں گے۔تبدیلیاں لانے کے لئے درج ذیل کام ہمیں لازماً کرناہوگا۔

1۔سب سے پہلے ہمیں متحد ہونا ہوگا۔ اتحاد میں قوت ہے، ہم جس قدر بھی اس بات کی تردید کریں کہ ہم ٹکڑوں میں بنٹے  ہوئے نہیں ہیں، واقعہ یہی ہے کہ ذات برادری، مسلک ومشرب،ادارے، جمعیت اور جماعتوں کے ٹکڑوں میں بنٹ گئے ہیں، رفیق بن کر کام کرنے کے بجائے ہم آپس میں فریق بن گئے ہیں۔ہمیں ملی کاموں میں ایک امت اور ایک جماعت کی حیثیت سے خود کو متعارف کراناہوگا۔

2۔دوسری چیز میدان عمل کی تبدیلی ہے۔ پتہ نہیں کن کن امور میں ہم اپنی توانائی صرف کرتے ہیں، ہمیں ترجیحی طور پر تعلیم کی ترویج واشاعت او رمعیاری تعلیم کے فروغ پر اپنی وجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ یہ وہ میدان ہے جس میں تصادم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

3۔تیسرا میدان اقتصادیات کاہے، مفلس قومیں او رافراد نفسیاتی کمتری کا شکار ہوتی ہیں او راپنی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے دوسروں کی طرف دیکھتی ہیں۔ اس صو رت حال کو بدلنے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتی ہیں۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتی ہیں۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہمیں چھوٹی بڑی صنعتوں او رگھریلو پیداوار کی طرف توجہ دینی ہوگی، تبھی ہمارے لیے مفلسی کے عذاب سے نکلنا ممکن ہوسکے گا۔ ان صنعتوں کے قیام کیلئے مختلف ادارے او رتنظیموں کو بھی آگے آنا پڑے گا،تبھی یہ بیل سر چڑھ سکے گی۔ طریقے اور بھی ہیں،لیکن پہلے مرحلہ میں ترجیحی طور پر ہندوستان میں ان کاموں کوکیا جائے۔ انشاء اللہ حالات بدلیں گے او رمسلمانوں کامستقبل روشن ہوگا۔ ہمیں یہیں رہناہے، اب دوسری ہجرت ہم سے نہیں ہونے والی، اورکریں بھی توکون ملک ہمیں قبول کرنے کو تیار ہوگا۔

29دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/future-muslims-india/d/131437

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..