سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
18 ستمبر 2021
ہر مسئلے پر واضح رہنمائی
کے باوجود مسلمان اجتماعی اور انفرادی مسئلے پر شدید تفرقہ کا شکار ہیں
اہم نکات:
1. قرآن فرقہ واریت کی مذمت کرتا ہے لیکن مسلمان 72 فرقوں میں
منقسم ہیں۔
2. قرآن سائنس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن مسلمان مدارس کے نصاب
میں سائنس کو شامل کرنے پر منقسم ہیں۔
3. قرآن میں پردہ کے بارے میں واضح رہنمائی ہے لیکن مسلمان اس
مسئلے پر بھی منقسم ہیں۔
4. قرآن میں طلاق کے بارے میں واضح ہدایات ہیں لیکن مسلمان طلاق کے
طریق کار پر بھی منقسم ہیں۔
5. قرآن دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے لیکن مسلمان دہشت گرد تنظیموں
کی حمایت پر بھی منقسم ہیں۔
-----
قرآن پاک کو کتاب مبین
کہا جاتا ہے جو کہ ایک واضح کتاب ہے۔ اسے ایک ایسی کتاب کہا جاتا ہے جس میں شک اور
شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خدا کہتا ہے کہ میں قرآن کو تحریف سے قیامت تک محفوظ
رکھوں گا۔ کتاب آج بالکل اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں یہ چودہ سو سال پہلے
نازل ہوئی تھی۔ یہ 114 چھوٹی بڑی سورتوں پر مشتمل ہے۔
مسلمان اس بات پر فخر
کرتے ہیں کہ قرآن دیگر تمام آسمانی اور نازل شدہ کتابوں کے برعکس اپنی اصل شکل پر
موجود ہے جب سے یہ نازل ہوئی ہے اس میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور یہ
مسلمانوں کے ہر اہم سماجی اور ذاتی زندگی کے معاملے میں واضح رہنمائی فراہم کرتی
ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ پہلے کی تمام آسمانی کتابیں تحریف شدہ ہوچکی ہیں
اور بعد کے علماء نے ان میں خرد برد کر دیا ہے اس لیے ان کے پیروکار فرقہ وارانہ
اور معاشرتی معاملات میں خدا کے قوانین کے حوالے سے تفرقہ اور شکوک و شبہات کا
شکار ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کی واضح ہدایات موجود ہیں
اس لیے مسلمانوں کو اپنے مذہبی فرائض کی تکمیل میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا
نہیں کرنا پڑتا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کو قرآن سے بڑا فائدہ ہے۔
لیکن حقیقت میں معاملہ
اتنا سیدھا نہیں ہے۔ عملی طور پر مسلمانوں نے اس فائدہ کو ایک بڑے نقصان میں بدل
دیا ہے۔ مسلمانوں کو درپیش تقریبا ہر مسئلے پر واضح رہنمائی اور احکامات کے باوجود
وہ شدید تقسیم کا شکار ہیں اور تقریبا ہر سماجی اور انفرادی مسئلے پر ان کے درمیان
شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ در حقیقت بعض صورتوں میں مسلمان قرآن کے احکامات اور
اسلام کی روح کے بھی خلاف چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن گروہ بندی اور فرقہ
واریت کی مذمت کرتا ہے لیکن آج مسلمان 72 فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ اختلافات صرف
نظریاتی نہیں ہیں بلکہ تکفیر کا باعث بھی بن جاتے ہیں جو کہ آپس میں تشدد اور
خونریزی کا باعث بنتے ہیں۔ قرآن (دفاع میں یا انصاف فراہم کرنے جیسے) بغیر کسی
معقول وجہ کے تشدد اور خونریزی کی مذمت کرتا ہے لیکن مسلمان تشدد میں ملوث ہوتے
ہیں اور معصوم لوگوں کو آیات کی غلط تشریح کی وجہ سے قتل کرتے ہیں۔
قرآن میں طلاق کے مسئلے
پر واضح ہدایات موجود ہیں لیکن طلاق کے طریق کار کے مسئلے پر مسلمان شدید اختلافات
کا شکار ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے سروے میں تقریبا 50
فیصد مسلمانوں کا ماننا ہے کہ فوری تین طلاق درست نہیں ہے جبکہ دیگر 50 فیصد
مسلمان کہتے ہیں کہ فوری طلاق کو درست ماننا چاہیے۔ تقریبا 64 فیصد مسلم خواتین کا
کہنا ہے کہ فوری تین طلاق پر پابندی لگانی چاہیے۔ قرآن کہتا ہے الطلاق مراتان
(طلاق دو ہے) اور تیسرا طلاق بہت سوچ بچار کے بعد دینا چاہیے کیونکہ تیسرا طلاق
شادی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم کر دیگا۔ لیکن اس قرآنی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
ہمارے علماء کہتے ہیں کہ طلاق تین مرتبہ ہے اور فوری طور پر واقع ہوتی ہے جس کے
بعد سوچنے سمجھنے یا ثالثی کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔
ایک اور مسئلہ آیات کی
منسوخی کا مسئلہ ہے۔ یہ نظریہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دو
صدیوں بعد پیش کیا گیا تھا اور اس کی قرآن یا حدیث میں کوئی بنیاد نہیں ہے لیکن
علمائے اسلام اس مسئلے پر شدید اختلافات کا شکار ہیں۔ علمائے اسلام کا ایک طبقہ
نظریہ تنسیخ پر یقین نہیں رکھتا جبکہ دوسرا طبقہ یہ مانتا ہے کہ نظریہ تنسیخ کی
بنیاد قرآن میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گروہ ان آیات کی تعداد پر بھی منقسم ہے
جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ منسوخ ہو چکی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ سو
آیات منسوخ ہیں جبکہ بعض کا خیال ہے کہ صرف پانچ آیات منسوخ ہیں۔
آمین کہنے اور رفع یدین
کے معاملے پر بھی مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہے۔ وہ اس بات پر بھی منقسم ہیں کہ
کھڑے ہوکر سلام پڑھنا چاہیے یا بیٹھ کر۔
اذان کے لیے مائیکروفون
کے استعمال پر بھی مسلمانوں میں تقسیم ہے۔ مسلمانوں کے راسخ العقیدہ طبقے کا خیال
ہے کہ اذان صرف مائیکروفون پر ہی دی جا سکتی ہے جبکہ دوسرے طبقے کی رائے ہے کہ
اذان کے لیے مائیکروفون لازمی نہیں ہے۔ اذان کے بارے میں یہ اختلافات کثیر ثقافتی
معاشرے میں خاص طور پر رمضان کے مہینے میں شدید تشدد اور خون خرابے کا باعث بنتے
ہیں۔
سائنس مذہبی طبقے کے ایک
بڑے حصے کے لیے ایک کمزور نقطہ ہے۔ اگرچہ علمائے اسلام کے ایک طبقے کی رائے یہ ہے
کہ قرآن سائنس کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لہٰذا اسے مدارس کے نصاب میں
شامل کیا جانا چاہیے، لیکن علمائے اسلام کی اکثریت کا خیال ہے کہ اسلام سائنس کو
سیکھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اس لیے کہ یہ مادیت پرستی کی طرف لے جاتا ہے اور
مسلمانوں کو روحانیت سے دور کر دیتا ہے۔ ماضی میں بہت سارے سائنسدان اور فلسفی موت
کے گھاٹ اتار دئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کو مدارس سے دور رکھا گیا ہے۔
سب سے اہم مسئلہ جس پر
علمائے اسلام نے سب سے زیادہ وقت صرف کیا ہے (میں انکے پیروکاروں کے ردعمل کے خوف
سے علماء کا لفظ استعمال کرنے سے ڈرتا ہوں)، وہ پردے کا مسئلہ ہے۔ بہت سے علماء،
اوہ… اسلامی اسکالرز اور محققین نے اس اہم مسئلے پر ایک اتفاق رائے تک پہنچنے کے
لیے کافی وقت صرف کئے ہیں لیکن وہ سب بے سود رہے۔ کچھ علماء کا خیال ہے کہ مسلم
خواتین کو پردہ کے لحاظ سے کچھ آزادی دی جانی چاہیے جبکہ کچھ علماء کا خیال ہے کہ
خواتین کو مکمل پردہ کرنا چاہیے اور پردے میں صرف ایک آنکھ کے سامنے ایک چھوٹا سا
سوراخ ہونا چاہیے۔ اردو کے شاعر اقبال نے ان کے بارے میں کہا تھا۔
آہ ، بیچاروں کے اعصاب پہ
عورت ہے سوار۔
اس کے باوجود مسلمانوں کی
یہ صورتحال ہے کہ قرآن ایک واضح کتاب ہے جس میں ہر مسئلے کا بڑا ہو یا چھوٹا خشک
ہو یا تر احاطہ کیا گیا ہے۔ تمام اسلامی اسکالرز مل کر بھی ان تمام اور جہاد اور
دہشت گردی جیسے بہت سے دیگر مسائل پر اتفاق رائے قائم نہیں کر سکے۔
English Article: Followers of the Clear Book Quran Have Turned Its Advantage into a Disadvantage
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism