راشد سمناکے،
نیو ایج اسلام
3 ستمبر 2022
نہ صرف سیلاب بلکہ دیگر آفات مثلاً
زمینی زلزلے، جنگلات میں آگ، خشک سالی وغیرہ بھی اسی طرح دنیا بھر میں بیک وقت رونما
ہوتے ہیں۔
مغرب میں مراکش کے صحرا سے مشرق
میں انڈونیشیا کے گرم جنگلات تک پھیلے ہوئے مسلم ممالک، اور ان کے درمیان موجود ہر
چیز کا کسی نہ کسی لحاظ سے موسمیاتی تبدیلی میں دخل ہے، لہٰذا انہیں ماحولیاتی انحطاط
کے الزام سے مستثنیٰ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لیکن اس تحریر میں صرف ان کے اسباب و علل
اور ان کے تدارک پر گفتگو کی گئی ہے!
خداتعالیٰ کبھی بھی انسانوں کے
ساتھ ہونے والے ان حادثات اور نقصانات کے کسی بھی منفی اثرات کی ذمہ داری قبول نہیں
کرتا، جس میں اس آفت سے حیوانی زندگی کو ہونے والے نقصانات بھی شامل ہیں، لیکن کائنات
کے اس نظام سے بنی نوع انسان کو پہنچنے والے فوائد کا سارا کریڈٹ وہ خود لیتا ہے۔
"تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟"
پاکستان اور بہت سے دوسرے ممالک
میں سیلاب کا حالیہ تباہ کن واقعہ تباہی سے دوچار ہوتی نعمتوں کی ایک مثال ہے!
نہ صرف سیلاب بلکہ دیگر آفات مثلاً
زمینی زلزلے، جنگلات میں آگ، خشک سالی اور اسی طرح حادثات دنیا بھر میں بیک وقت رونما
ہوتے ہیں۔
خُداوند اِن آفات سے بنی نوع انسان
کے ساتھ ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار ہمیشہ بنی نوعِ انسانی کو ہی ٹھہراتا ہے، کیونکہ
یہ انسانوں کے قوانینِ فطرت کے نظام سے لاعلم ہونے کا نتیجہ ہے۔ تم کیوں نہیں دیکھتے
کہ ہم آسمان سے بارش کیسے برساتے ہیں..."!
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ فطرت
کے نظام کے بارے میں علم حاصل کرنے میں بنی نوع انسان کی پیشرفت "سست" رہی
ہے اور ان کے پاس آتش فشاں کے پھٹنے، زمیں کھسکنے اور اس طرح کے قدرتی افات کے تباہ
کن اثرات سے بچنے کے لیے اب وقت بچا ہی نہیں ہے۔
لیکن کیا رب العالمین ان حادثات
کو ملتوی نہیں کر سکتا تھا تاکہ بنی نوع انسان چند لاکھ سالوں میں فطرت کے قوانین اور
نظام کا علم حاصل کر سکیں؟
ایسا نہیں ہے کہ انسان کوشش نہیں
کر رہا ہے اور اس نے سائنسی علم میں کوئی ترقی نہیں کی ہے، وہ چاہتا ہے کہ پوری انسانیت
ان تباہ کن حادثات کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ کیا یہ انسان چاند اور خلا میں نہیں گیا،
جن کی کنجیاں رب کے پاس ہیں؟
یہاں جن واقعات پر بات کی گئی ہے
وہ وہی ہیں جنہیں سائنسی دنیا آج کلائمیٹ چینج کا نام دیتی ہے۔ کیا وہ تمام تبدیلیاں
جو آج تک رونما ہوئی ہیں، کیا وہ علم کی کمی کے سبب انسانوں کی ناکامی کا نتیجہ ہیں؟
زمین پر بنی نوع انسان زمینی زلزلوں
کو کیسے کنٹرول کر سکتا ہے، اگرچہ وہ اس کے وقوع اور شدت کی پیشن گوئی کر لے تب بھی۔
ہاں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ موسمیاتی
تبدیلیوں میں بنی نوع انسان کا عمل دخل رہا ہے اور یہ اب بھی جاری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ
بالا قدرتی آفات ماحول کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں!
لہٰذا اللہ کو انسانوں کو پیدا
کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی کہ وہ تخلیق کا کر قدرتی آفات کا سبب بنیں؟ کیا آدم اور
حوا باغ جنت میں تھوڑی دیر نہیں اور رہ سکتے تھے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں
لکین!
شیطان سے گمراہ ہونا اتنا بڑا گناہ
تو نہیں تھا؟ اس کے علاوہ، کیا اس شیطان کو یہ ذمہ داری اس کے رب نے نہیں سونپی تھی؟
اللہ نے انسانوں کو مطلوبہ علوم
حاصل کرنے اور انسانیت کے لیے اپنے رب کے منصوبے کو جاننے کے لیے جو وقت انسانوں کو
عطاء کیا اس میں اور اللہ کی مشیت میں یقینی طور پر ایک قسم کی ہم آہنگی ضرور ہے!
رب کہتا ہے کہ میں نے کائنات میں
جو کچھ ہے وہ سب بنی نوع انسان کے استعمال اور انتظام کے لیے بنایا ہے۔ لہٰذا جب بنی
نوع انسان ان "نعمتوں" سے استفادہ کرتے ہیں تو وہ ماحولیاتی انحطاط، آلودگی
کا باعث بنتے ہیں جس کے سبب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بنتے ہیں، اور ان کے عمل کو ان
نعمتوں کا غلط استعمال قرار دیا جاتا ہے!
اور پھر ہماری سرزنش کی جاتی ہے
کہ یہ ہماری غلطی ہے کہ ہمیں ان نعمتوں کے استعمال کا علم نہیں ہے۔
اسراف نہ کرو، فضول خرچی نہ کرو
اور خود غرض نہ بنو وغیرہ وغیرہ۔
اب ہم واپس اپنی بات پر لوٹتے ہیں!
سڑک پر ایک وقت میں چند سو ملین
کاروں کا دھواں چھوڑنا اور ہوا میں ایک ملین یا اس سے زیادہ ہوائی جہازوں کا اڑنا،
ایک آتش فشاں کے پھٹنے، یا ایمیزون میں کہیں آسمانی بجلی گرنے سے جنگل میں لگنے والی
آگ، اور پاکستان، بھارت اور آسٹریلیا کی بدترین سیلاب اور یورپ میں ڈرافٹ، کے مقابلے
میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟
ارے ہاں، یہ تو انسانوں کا قصور
ہے کہ اس نے موسم توازن بگاڑ رکھا ہے!
لیکن پھر، اے میرے رب، تو نے یہ
کائنات اس قدر مسخر کیوں کی کہ بنی نوع انسان اس میں دخل اندازہ کر سکے؟ اور اگر ایسا
ہے تو
آئیے رب کی دی ہوئی "شرائط"
کو مان کر اپنے آپ کو چھڑا لیں:
- فضول خرچی نہ کریں۔
- اسراف نہ کریں۔
- دولت کو منصفانہ طریقے سے
تقسیم کریں۔
- انسانوں کے ساتھ عزت سے پیش
آئیں۔
- پائیداری پیدا کریں۔
فطرت کے نظام کو سمجھنے کے لیے
سائنسی علوم حاصل کریں۔
- علم تقسیم کریں۔
- ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔
- انصاف کریں۔
بین الاقوامی کانفرنسوں میں کئے
گئے وعدوں کا احترام کریں۔
- خواتین کے ساتھ انصاف کریں۔
- محنت کی قدر کریں۔
- ہمیشہ یاد رکھیں کہ سیارہ
زمین ایک "زندہ چیز" ہے اور اس کے وسائل محدود ہیں۔
براہ کرم مندرجہ بالا میں کچھ اور
چیزیں شامل کرلیں، یقینی طور پر کچھ اور بھی ہیں، جیسے اپنے کوڑے کو بن میں ڈالیں،
سمندر میں نہیں۔
----
نیو ایج اسلام کے لیے باقاعدہ تعاون
کرنے والے، راشد سمناکے ایک ہندوستانی نژاد انجینئر (ریٹائرڈ) ہیں جو آسٹریلیا میں
چالیس سالوں سے مقیم ہیں۔
-------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism