ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
18 جنوری 2023
ارشد مدنی
نے حال ہی میں مسلم لڑکیوں کو گمراہ کرنے کے لیے مخلوط تعلیم کو مورد الزام ٹھہرایا
اہم نکات:
1. جمعیۃ علماء کے صدر
ارشد مدنی نے کہا ہے کہ مخلوط تعلیمی نظام مسلم لڑکیوں کو ارتداد کی طرف لے جا رہی
ہے۔
2. انہوں نے اسے مسلمانوں
کو اسلام کے راستے سے منحرف کرنے کی ایک عظیم سازش قرار دیا۔
3. شاید، وہ ایران میں
ہونے والے واقعات سے پریشان ہیں جہاں لڑکیوں کی بڑی تعداد لازمی حجاب کے خلاف احتجاج
کر رہی ہے
4. مدنی کا بیان بحیثیت
ایک طبقے کے علمائے کرام کی بے چینی کی علامت ہے۔
5. تیزی سے، مسلمان لڑکیاں
(اور لڑکے) روایتی اسلامی فقہ کی حکمت اور افادیت پر سوال اٹھا رہی ہیں جو کہ مدنی
جیسے قدامت پسند مولویوں کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔
------
مولانا ارشد مدنی
-------
اسلامی فقہ
میں ارتداد کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ اس اصطلاح کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ تقریباً
ہر چیز کو ارتداد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ خدا، پیغمبر، نام نہاد خلفائے راشدین کے
بارے میں اعتراضات اٹھانا، یا کسی دوسرے مرتد کی حمایت کرنا بھی ارتداد قرار دیا جا
سکتا ہے۔
-------
اس ماہ کی 9 تاریخ کو منعقدہ اپنی
قومی ایگزیکٹو میٹنگ میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر ارشد مدنی نے کہا کہ مسلمان لڑکیوں
کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ مرتد ہونے کی راہ پر گامزن ہیں اور
اس میں مخلوط تعلیمی نظام کا بڑا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل لڑکیوں
کے لیے مزید اسکول کھولنے میں مضمر ہے تاکہ وہ زمین کے سب سے بڑے فتنہ یعنی مخلوط تعلیمی
نظام سے بچ سکیں۔
ارشد مدنی کے اس رجعت پسندانہ
بیان کو ہم کیا سمجھیں؟ لوگ یقینی طور پر یہی مانتے ہیں کہ قوم مسلم محاصرے میں ہے:
ان کے مذہب، ان کی ثقافت، روایت، زبان اور تاریخ پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات
میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشرہ ترقی پسند بننے کے بجائے دفاعی پوزیشن میں
آ جاتا ہے اور اپنی روایات پر اور بھی زیادہ مضبوطی کے ساتھ کار بند ہو جاتا ہے۔ تاہم
اس ملک میں علمائے کرام کی تاریخ اور ان کی حثیت کو دیکھ کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے
کہ انہیں ترقی پسند اصلاحات کے سوال میں کبھی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ خواہ وہ مدارس کو
جدید بنانے کا سوال ہو یا مسلم پرسنل لا میں معمولی تبدیلی لانے کا، علمائے کرام نے
ہمیشہ ترقی پسند تبدیلیوں کی ہر تجویز کی مخالفت کی ہے۔ اور یہی ضد آزادی کے بعد سے
اور اس سے بھی پہلے سے ہی ہندوستانی علماء کی پہچان رہی ہے۔ لہٰذا ارشد مدنی کے بیان
کو سمجھنے کے لیے علمائے کرام کے نقطہ نظر کو سمجھنا پڑے گا۔
ایسا نہیں ہے کہ مدنی مسلم لڑکیوں
کی تعلیم کے خلاف ہیں جیسا کہ کچھ پریس نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا مسئلہ صرف یہ
ہے کہ لڑکیوں کو مخلوط تعلیمی اسکولوں اور کالجوں میں نہیں جانا چاہیے۔ اسی لیے مدنی
یہ کہہ رہے ہیں کہ لڑکیوں کے لیے مخصوص زیادہ سے زیادہ اسکولیں ہونی چاہئیں۔ لیکن وہ
چاہتے ہی کیوں ہیں کہ مسلمان لڑکیاں تعلیم یافتہ ہوں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتے
ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، ملازمت کے میدان میں آئیں اور مالی طور پر خود مختار
بنیں؟ نہیں! ایسا بالکل نہیں ہے۔ ان کی اپنی سمجھ کے مطابق، وہ چاہتے ہیں کہ قوم لڑکیوں
کے لیے زیادہ سے زیادہ اسکولیں قائم کرے تاکہ وہ گمراہ ہو کر مرتد نہ بن جائیں۔ لہذا
ان کی بنیادی فکر یہ ہے کہ لڑکیاں غیر مذہبی ہوتی جا رہی ہیں اور اس رجحان کو روکنے
کا واحد طریقہ انہیں زیادہ سے زیادہ تعلیم دینا ہے۔ مدنی کو یہ خیال کہاں سے آتا ہے
کہ مسلمان لڑکیاں بے دین ہو رہی ہیں اور ان میں سے کچھ ارتداد کی راہ پر چل رہی ہیں؟
وہ اپنے دعوے کی تائید میں
کسی ڈیٹا کا حوالہ نہیں دیتاے۔ لیکن ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا تعلق کہاں سے
ہے۔ مسلم دنیا خصوصاً ایران میں ہونے والے حالیہ واقعات، جہاں لڑکیاں حجاب کے لازمی
قانون کے خلاف احتجاج کے لیے بڑی تعداد میں باہر نکلی ہیں، اس کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔
ہندوستان اور دنیا بھر میں، زیادہ سے زیادہ مسلم نوجوان مذہب اسلام کے کچھ بنیادی اصولوں
پر سوال اٹھا رہے ہیں کیونکہ یہ اسلامی فقہ کے ذریعے ان تک پہنچا ہے۔ ایک سروے کے مطابق
30 فیصد سے زیادہ ایرانی اور سعودی نوجوان اب اسلام سے واقف نہیں ہیں۔ ہندوستان میں،
ثقافتی اور سابق مسلم جماعتیں موجود ہیں جو اسلام کے نام پر ان نفرت انگیز تعلیمات
کی نشاندہی کر رہے ہیں جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مسلمانوں
کے ذہنوں کا کھلنا اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک مروجہ فقہ کو سوالات کے گھیرے میں
نہ لایا جائے۔ اس کے بعد، اصلاح پسند مسلم جماعتوں کا نمبر آتا ہے جو عصری تقاضوں کے
مطابق مذہبی کتابوں کی دوبارہ تشریح کر رہے ہیں۔ اس سب کا اثر مسلم نوجوانوں پر ضرور
ہوگا، لڑکیوں اور لڑکوں دونوں پر۔
مسلمانوں کے اندر اس قسم کی بحث
پیدا کرنے میں اس طرح کی کوششوں کے اثرات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن جو بات
واضح ہے وہ یہ ہے کہ اس نے یقیناً علمائے کرام کو بے چین کر دیا ہے۔ مدنی کا تعلق اسی
طبقے سے ہے اور اس لیے وہ ہندوستانی مسلم معاشرے میں اس طرح کی پیش رفت پر صرف اپنے
ہی لوگوں کی پریشانی کو اجاگر کر رہے ہیں۔ علمائے کرام کی طاقت اس وقت تک برقرار رہتی
ہے جب تک مسلم عوام ان سے سوال کرنا شروع نہ کر دیں۔ علمائے کرام اب شاید یہ محسوس
کرنے لگے ہیں کہ ان سے مشکل سوالات کیے جا رہے ہیں، اس لیے یہ بے چینی پائی جا رہی
ہے۔ چونکہ مدنی مسلم معاشرے سے گھلے ملے ہیں، اس لیے انہوں نے اس نئے رجحان کا تجربہ
کیا ہوگا اور اسی لیے انہوں نے اس کا سدباب کرنے کی ضرورت پر بات کی ہے جسے وہ ارتداد
قرار دیتے ہیں۔
اسلامی فقہ میں ارتداد کی مختلف
تعریفیں کی گئی ہیں۔ اس اصطلاح کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ تقریباً ہر چیز کو ارتداد
سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ خدا، پیغمبر، نام نہاد خلفائے راشدین کے بارے میں اعتراضات
کرنا، یا کسی دوسرے مرتد کی حمایت کرنا بھی
ارتداد قرار دیا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ جب تک مسلمان اسلامی فقہ کی فرسودہ حکمت پر
سوال نہیں اٹھاتے، انہیں کوئی فرق نہیں پڑے والا۔ لیکن جس لمحے وہ جمود پر سوال اٹھانا
شروع کرتے ہیں اور اسلامی فقہ میں مسلمانوں کے جمود کے مسئلے کو تلاش کرنے کی کوشش
کرتے ہیں، انہیں خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن کوئی بھی انسان اس چیز ہر سوال اٹھائے
بغیر کیسے اسلامی فقہ کی تنقید کر سکتا ہے جس پر اس کی بنیاد ہے: نبوی ضابطہ اور قدیم
ترین مسلمانوں کا طرز عمل۔ لہٰذا ارتداد کا قانون قدامت پرست علما کے ہاتھ میں ایک
انتہائی طاقتور ہتھیار کے علاؤہ اور کچھ نہیں ہے جو عوام، خاص طور پر اختلاف کرنے والوں
پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے بغیر وہ اپنی طاقت استعمال نہیں
کر سکتے۔ اس لیے مدنی کی تشویش اور خوف سمجھ میں آتی ہے: اگر مسلمان مرتد ہو رہے ہیں
تو پھر علماء کی کون سنے گا؟
لیکن اس کے خصوصی علاج کے لیے صرف
لڑکیوں کی ہی کیوں نشاندہی کی جائے؟ ایرانی مظاہروں کا اس سے کچھ لینا دینا ہو سکتا
ہے۔ اس کے علاوہ، کیونکہ علمائے کرام جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب کو پھلنے پھولنے اور
ہماری بالادستی کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو ہماری باتوں میں کچھ دم خم معلوم
ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوتا، تو انہیں کنٹرول کرنا ہوگا۔ بہر حال، خواتین کے جسم ان اولین
مقامات میں سے ایک ہیں جن کے ذریعے علمائے کرام اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ خواتین
ہی مستقبل کی نسل کی پرورش کرتی ہیں۔ لہذا اگر آپ انہیں کنٹرول کر لیتے ہیں تو آپ مسلمانوں
کی نسلوں کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔ تاہم اب بہت سی مسلم خواتین یہ سوال کر رہی ہیں کہ
دین اسلام کے پاس ہمارے لیے کیا ہے۔ انہیں جائیداد میں آدھا حصہ ملتا ہے، ان سے فرمانبردار
بیویوں بننے کی توقع کی جاتی ہے اور یہ سب کرنے کے باوجود مسلمانوں کی جنت میں ان کے
لیے کچھ نہیں ہے۔ مدنی کے مطابق جو خواتین اس طرح کے سوالات پوچھ رہی ہیں وہ ارتداد
کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس لیے ان کی تجویز ہے کہ اس عمل کو روکنے کے لیے لڑکیوں کے مزید
اسکول کھولے جائیں۔
اس طرح، اگرچہ مدنی چاہتے ہیں کہ
مسلمان لڑکیاں تعلیم حاصل کریں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ سیکولر لبرل تعلیم کی بات
کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو جب اسلام کی صحیح تعلیمات کا علم ہو
جائے گا، تو وہ اپنے مذہب کے بارے میں اس طرح کے پریشان کن سوالات اٹھانا چھوڑ دیں
گی۔ ان کا خیال ہے کہ اسکولوں میں دوسرے مذاہب کے لڑکوں سے میل جول ہونے کی وجہ سے
مسلمان لڑکیاں اپنا ایمان کھو رہی ہیں۔ شاید یہ لڑکے مسلم لڑکیوں کے ذہنوں میں زہر
گھول رہے ہیں۔ مدنی اردو پریس میں مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کے بارے میں خبروں
کی بھی عکاسی کر رہے ہیں۔ انقلاب میں شائع ہونے والی ایسی ہی ایک رپورٹ میں بتایا گیا
ہے کہ بریلی کے منی آشرم میں 2013-2022 کے دوران 66 مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کیا
گیا ہے۔ آشرم چلانے والے شخص نے اخبار کو بتایا کہ ایسی شادیوں کے لیے وہ سب سے پہلے
مسلمان لڑکی کی شدھی کرتا ہے، یعنی انہیں ہندو مذہب میں داخل کرتا ہے۔ کسی کو اس خبر
کی حقیقت کا علم نہیں ہے کیونکہ ضلع انتظامیہ پورے معاملے سے لاعلمی کا اظہار کرتی
ہے، لیکن اس طرح کی خبریں مدنی کے ذہن میں اپنا بیان دینے سے پہلے ضرور گردش کر رہی
ہوں گی۔ لیکن کیا مدنی جیسے لوگوں کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے: اگر مسلمان دوسروں
کا مذہب تبدیل کرنے کے لیے آزاد ہیں، تو پھر اس کے برعکس سے اس طرح کی پریشانی کیوں
ہونی چاہیے؟ مدنی کی شاید یہ سوچ درست ہو کہ
اس طرح کے بین المذاہب میل جول اسکول یا کالج میں دوستی سے شروع ہوتے ہیں۔ اور اس لیے
ان کی منطق کے مطابق اس مخلوط تعلیمی نظام کو ہی ایسی افسوسناک حالت کا ذمہ دار ٹھہرایا
جانا چاہیے۔
لیکن مدنی کا یہ سوچنا غلط ہے کہ
اگر انہیں صرف لڑکیوں کے اسکولوں میں ڈال دیا جائے تو تنقیدی سوچ کے حامل مسلمان بننے کا خطرہ ٹل جائے گا۔ اگر ہندو
لڑکیاں مسلمان لڑکیوں کے دماغ میں زہر بھرنے لگیں تو کیا ہوگا؟ اگر وہ انہیں بتانے
لگیں کہ ہندو لڑکیوں کا اب جائیداد میں برابر کا حصہ ہے۔ اگر وہ مسلمان لڑکیوں کو بتائیں
کہ ہندو خواتین کو طلاق دینے کا حق ہے؟ اگر وہ مسلم لڑکیوں کو بتا دیتی ہیں کہ ان کی
گواہی مردوں کے مقابلے میں آدھی نہیں ہے تو کیا ہوگا؟ مدنی یہ سب کیسے روکیں گے؟
لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ
مدنی صرف لڑکیوں کے اسکول نہیں بلکہ تمام مسلم اسکول کی بات کر رہے ہوں؟ ہو سکتا ہے
کہ یہی بات مدنی کے ذہن میں ہو جب وہ مسلم لڑکیوں کو گمراہ کرنے کی عظیم سازش کے بارے
میں بات کر رہے تھے۔ یقیناً مسلمان کرہ ارض کی سب سے معصوم قوم ہیں! باقی پوری دنیا
مل کر ان کے خلاف منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ عیسائی، یہودی اور اب ہندو سب اسلام کو ختم
کرنا چاہتے ہیں کیونکہ صرف اسلام ہی سچا مذہب ہے۔ ان مجہول نظریات کے اثر کو کم کرنے
کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو صرف مسلم اسکولوں میں ہی تعلیم دی
جائے۔ لیکن اس سے بھی مدنی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ وہ ان کتابوں کے اثر کو کیسے
ختم کریں گے جنہیں مسلم لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھیں گی، جن میں سے کچھ انہیں
اسلامی راسخ العقیدگی پر سوال اٹھانے کا باعث بنیں گی۔
لیکن ہم یہ جانتے بھی کیسے ہیں
کہ مدنی سیکولر لبرل اعتبار سے تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں؟ بہر حال، ان کے دیوبند
مدرسے نے فلسفہ اور دیگر عقلی علوم کی تعلیم کو برسوں پہلے ہی ختم کر دیا تھا اور اب
بھی وہ ایسا کرنا درست سمجھتے ہیں۔ تو شاید مدنی بنیادی طور پر جو کہہ رہے ہیں وہ یہ
ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو صرف مسلم اسکولوں میں ہی نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ انہیں کسی بھی
طرح کے فلسفے یا سائنس سے روشناس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ طالبانی
سوچ ہے تو آپ غلط ہیں۔ یہ ہماری اپنی گھریلو دیوبندیت ہے، جہاں سے طالبان نے یہ خیال
اپنایا تھا۔
افسوس! کہ ایسی پابندیاں لگانے
کے بعد بھی مدنی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت علم کا پھیلاؤ اب صرف
اسکولوں اور یونیورسٹیوں تک ہی محدود نہیں رہا۔ مختلف فورموں کے ذریعے اسلام کے مثبت
اور منفی پہلوؤں پر علمی گفتگو آن لائن ہو رہی ہے جن تک کوئی بھی اسمارٹ فون کے ذریعے
رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ مدنی اس حوالے سے کیا کرنے والے ہیں؟ کیا وہ مسلمان لڑکیوں
کو اسمارٹ فون رکھنے سے روک دیں گے؟ شاید، اگر ان کے پاس حکومت کی طاقت ہوتی تو وہ
ایسا ہی کرتے۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔
مدنی جیسے لوگوں کو یہ سوچ چھوڑ دینا چاہیے کہ مسلمانوں کی زندگیوں، اور خاص
کر لڑکیوں کی زندگیوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ مسلمانوں کے طبقے عقلیت پسندی کی راہ
پر تیزی کے ساتھ گامزن ہیں اور اس رجحان کو روکنا بہت مشکل ہوگا۔ علماء اگر آپنی افادیت
برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کریں! اور
ان تضادات کو دور کرنے کی کوشش کریں جن اس جدیدیت کے دور میں مسلمانوں کی زندگیوں میں
اہم کردار ہے۔ مخلوط تعلیمی نظام کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ علمائے کرام کی ہٹ دھرمی
ہی آج حقیقی فتنہ ہے۔
English Article: The Real Fitnah Is the Reluctance of the Ulama to
Move with Times
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism