گریس مبشر،
نیو ایج اسلام
حصہ 2
29 جولائی 2022
قرآن کی نسوانی
تشریحات اور کیرالہ کے مسلمانوں کے نظریات کیرالہ کے عوامی حلقے میں بھی جھلکتے ہیں،
جو مسلم خواتین کے حقوق کے بارے میں بحث و مباحثے کا ایک عالمی بازار بنا ہوا ہے۔
اہم نکات:
1. کیرالہ کے مسلم علماء عام
طور پر خواتین کے ذریعے قرآن کی تلاوت کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔
2. حقوق نسواں کے علمبرداروں کے پاس ان خصوصیات کی
کمی ہے جو اسلام میں مستند اجتہاد کے لیے ضروری ہے۔
3. دوسری طرف، نسوانی مفسرین
الہامی الفاظ کی تشریحات میں ناانصافی کے خلاف دفاع کے لیے ایسی کوششوں کو اپنی ذمہ
داری قرار دیتی ہیں۔
-----
حقوق نسواں
کی قرآنی تشریحات
کیرالہ کے مسلمان علماء عام طور
پر خواتین کے ذریعے قرآن کی تلاوت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس مخالفت کی بنیادی
وجہ یہ تھی کہ یہ مغربی حقوق نسواں سے متاثر تھا اور اس میں غیر اسلامی طریقہ علم کے
ذریعے قرآن سے رجوع کیا گیا تھا۔ اس پر یہ بھی الزام ہے کہ حقوق نسواں کے علمبرداروں
میں ان خصوصیات کا فقدان ہے جو اسلام میں مستند اجتہاد کے لیے ضروری ہے۔ دوسری طرف
نسوانی مفسرین الہامی کلام کی تشریحات میں ناانصافی کے خلاف دفاع کے لیے ایسی کوششوں
کو اپنی ذمہ داری قرار دیتی ہیں۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اسلامی اصول و قواعد کے مطابق
نسوانی تشریحات کو اجتہاد نہیں سمجھا جا سکتا، ایسی کوششوں کو غیر اسلامی قرار دینے
کا کوئی جواز نہیں ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی
کے عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ خواتین کی کوششوں کو تعصب کے ساتھ دیکھا گیا جب مسلم مردوں
کے پیش کردہ دلائل کو اسلامی حکمت سے جوڑ دیا گیا۔ یہ مانا کہ طرح کے مطالعے کو اس
میدان کی ابتدائی کوششوں کے دائرے میں ہی رکھا جاتا ہے۔ تاہم، ایسی کوششوں کو ایک ایسے
مطالعے کی حیثیت سے مکمل طور پر مسترد کرنا بھی ممکن نہیں ہے جو اسلام میں خواتین کے
مقام کی عکاسی کرتا ہے اور مرد کے تسلط والے سماجی نظام سے آزادی کو فروغ دیتا ہے۔
قرآن کی نسوانی تشریحات اور کیرالہ
کے مسلمانوں کے نظریات کیرالہ کے عوامی حلقے میں بھی جھلکتے ہیں، جو مسلم خواتین کے
حقوق کے بارے میں بحث و مباحثے کا ایک عالمی بازار بنا ہوا ہے۔ مسلم عورت کے حقوق سے
لے کر اس کے ذاتی فیصلوں تک کی باتیں اکثر مرکزی دھارے کے ملیالی لوگوں کے لیے بحث
کے پسندیدہ موضوعات ہوتے ہیں۔ ودود کی تفسیر قرآن کے ملیالی ترجمہ کی اشاعت کے بعد
کیرالہ میں اسلامی حقوق نسواں، خواتین کا قرآن کا مطالعہ وغیرہ پر مبنی کئی مباحثے
ہوئے۔ مذکورہ ملیالم ترجمہ 2008 میں 'قرآن اورو پینوایانا' کے نام سے ادر بکس نے شائع
کیا تھا۔ مسلم اشاعتوں اور دیگر علمی حلقوں میں بشمول مرکزی دھارے/سیکولر مطبوعات کے،
بہت سے مثبت اور منفی ردعمل سامنے آئے۔
یہ بحثیں اسلام میں خواتین کی حیثیت
کے بارے میں بھی گہرے مطالعے کا باعث بنی ہیں۔ اگرچہ وہ سب ودود کی طرح مشہور معروف
نہیں، ملیالیوں نے رفعت حسن، عزیزہ الحبری اور اسماء برلاس سے لیکر اسماء لمربیت تک
نسوانی مفسرین قرآن کے خیالات پر بحث کی ہے، جو کہ اس رجحان میں ایک نیا چہرہ ہے۔ اس
مضمون میں ملیالی زبان میں قرآن کی نسوانی مفسرین پر شائع ہونے والے ردعمل کو تین اہم
زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا مسلم علمی و فکری حلقوں میں مردوں کا ردعمل ہے۔ دوسرا،
مسلم خواتین کا ردعمل۔ اور جو ردعمل مین اسٹریم سیکولر حلقوں میں دیے گئے ہیں۔
چند کو چھوڑ کر، مسلم اشاعتوں میں
شائع ہونے والے اکثر ردعمل میں نسوانی مفسرین کی ثقاہت پر سوالیہ نشان لگا گیا ہے۔
اکثر تبصرہ نگاروں نے سب سے بڑا جو اعتراض اٹھایا ہے وہ تبصرہ نگاروں کا مغربی نسوانی
پس منظر تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ نسوانی تفسیریں ان تحقیقات پر مشتمل ہیں جن کی
عالم مغرب نے مالی معاونت فراہم کی ہے تاکہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے، اور یہ
کہ مغربی حمایت کی وجہ سے ہی اس طرح کی تحریریں تیزی سے مرکزی دھارے کی بحث بن گئی
ہیں۔
یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ 11 ستمبر
کے واقعے کے ساتھ ہی مسلم خواتین کے بارے میں گفتگو زیادہ تیز ہو گئی ہے۔ صبا محمود
داخلی طور پر اسلام کی اصلاح کے امریکی منصوبوں کو ایک 'اعتدال پسند اسلام' کی تشکیل
کا ایک حصہ قرار دیتی ہیں۔
نسوانی تفسیروں کے لیے امریکی علمی
حلقوں کی خاص حمایت کو اس نظریے سے دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن جو نسواں مفسرین مسلم تشخص
اور معتقدات کو برقرار رکھتی ہیں اور اسلامی تاریخ سے اپنے نمونوں کو واضح کرتی ہیں
ان کے حق میں ایسے نظریات کو مغربی سازشوں کا الزام لگا کر مسترد کرنا جائز نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نسوانی تفسیریں اسلام میں صنفی انصاف کے حوالے سے بحث میں مسلم مفکرین
اور مختلف تنظیموں کی رہنمائی کے لیے ایک علمی انقلاب لانے میں کامیاب رہی ہیں۔ مسلم
خواتین کے مطالعہ کے لیے جغرافیائی سیاسی ایجنڈوں کو تسلیم کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔
نسواں تفسیریں
اور نئی تفسیریں
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی
نئی تفسیر کے تئیں عدم برداشت اسلامی معاشروں میں مروجہ پدرسرانہ نظام کی عکاسی ہے۔
خواتین کے ردعمل زیادہ تر مثبت انداز میں ظاہر ہوتے تھے۔ نسواں مفسرین کی حدود کو تسلیم
کرتے ہوئے، زیادہ تر نسواں مفسرین اسلامی علوم میں ایک نئے رجحان کے طور پر نسوانی
تفسیروں کا مطالعہ کرتی ہیں۔ خواتین مفسرین کے اسلامی علوم کے معیارات کا جائزہ لینے
کے بجائے، خواتین قارئین ان کے اٹھائے گئے سوالات کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دوسری
طرف، اسلام میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں شاید اس سے کہیں زیادہ بنیاد پرست دلائل
جو نسواں مفسرین نے پیش کیے ہیں، مسلم دنیا کے مرد مفسرین، کیرالہ میں نسوانی تفسیروں
کی بحث سے پہلے اور بعد میں بھی پیش کر چکے ہیں۔ مسلم پبلی کیشنز نے طارق رمضان، حسن
ترابی، ابو شقا، راشد الغنوشی اور فرید اسحاق کے نظریات کو متعارف کرایا ہے۔ لیکن مسلم
علمی حلقوں میں ان علماء کی معتبریت پر سوال اٹھانے والے ردعمل سامنے نہیں آئے۔ اور
نہ ہی ان کی تحریروں نے ردعمل کا وہ طوفان کھڑا نہیں کیا جو نسوانی تفسیروں سے ہوا
تھا۔ قرآن کی نسواں مفسرین کے مطالعے کو مرکزی دھارے/سیکولر مطبوعات اور آن لائن پلیٹ
فارموں پر شائع کیا گیا ہے۔
سیکولر پبلیکیشن ایسی تحریروں
کو مسلم کمیونٹی پر تنقید کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ تاہم، ایسے لوگ بھی ہیں جو اسے قرآن
میں عورت کی شناخت تلاش کرنے کوشش اور اسلام اور نسوانیت کے درمیان ایک مکالمے کے زاویے
سے بھی دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی تنقید کی گئی ہے کہ حقوق نسواں کے علمبرداروں
نے تعدد ازدواج، خواتین کی شہادت اور وراثت کے حقوق وغیرہ جیسے مسائل سے نمٹنے میں
اسلامی اصولوں پر تنقید کیے بغیر 'معذرت پسندانہ رویہ' کے ساتھ قرآن کا مطالعہ پیش
کیا ہے۔ جب کہ دوسری طرف یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ سیکولر میگزینوں نے مسلم مرد علماء
کی طرف سے پیش کیے گئے خواتین کی آزادی کے نظریات کو مسترد کر دیا ہے۔ اسے مسلم مردوں
کو بحث سے خارج کرنے کے لیے جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کیا جانا مانا جائے۔
Urdu Article Part: 1- Female Qur'an Interpretations and Kerala Muslim
Responses - Part 1 قرآن
کی نسوانی تشریحات اور کیرالہ کے مسلمانوں کا رد عمل
English Article Part: 1- Female Qur'an Interpretations and Kerala Muslim
Responses - Part 1
English Article Part: 2- Female Qur'an Interpretations and Kerala Muslim
Responses - Part 2
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism