New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 03:11 AM

Urdu Section ( 30 Jul 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Female Qur'an Interpretations and Kerala Muslim Responses - Part 1 قرآن کی نسوانی تشریحات اور کیرالہ کے مسلمانوں کا رد عمل

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 25 جولائی 2022

 مستشرقین کی تحریروں میں مسلمان عورت کو اسلام کے پدرسرانہ نظام اور مسلم مردوں کی بے اعتنائی کی 'شکار' کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

 -----

Amina Wadud, an American-African-Muslim scholar

-----

 قرآن کے حقوق نسواں کے علم بردار مترجمین کا کہنا ہے کہ مسلم خواتین کو تاریخی طور پر اسلام کے علمی اور سماجی شعبوں سے الگ رکھا گیا ہے کیونکہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مستند تشریحات پر مردوں کا غلبہ ہے۔ یہ مکتبہ فکر تفسیر کے روایتی طریقوں پر تنقید کرتے ہوئے اور صنفی انصاف کے موضوع پر زور دیتے ہوئے قرآن کا مطالعہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ امینہ ودود کی Qur'an and Woman: Rereading the Sacred Text from a Woman's Perspective (1992) کو اس باب میں ایک کلاسکی متن کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ اس مکتبہ فکر کا کیرالہ کے مسلم علمی حلقوں اور ساتھ ہی ساتھ عالمی سطح پر بھی تجزیہ کیا گیا ہے اور اس نے بہت سے مباحثوں کا راستہ کھولا ہے۔ آمنہ ودود کی کتاب کے ملیالی ترجمہ کے ساتھ کیرالہ میں یہ مباحثہ اب تک زندہ ہے۔ اس سلسلے میں  ملیالیوں نے ودود کے ساتھ کم و بیش دیگر نسواں مفسرین پر بھی بحث کی ہے۔ اس مضمون کا مقصد کیرالہ کے علمی حلقوں، خاص طور پر مسلم علاقوں میں قرآن کی حقوق نسواں کے علمبرداروں کی تشریحات سے پیدا ہونے والے مباحثوں کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے۔

 اسلامی صنفی انصاف کے مباحثوں کا تاریخی پس منظر

 اس کی دو اہم وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مسلم دنیا صنفی انصاف کے بارے میں ایک عالمی اجلاس پیش کرنے پر مجبور ہے جیسا کہ اسلام نے تصور کیا ہے۔ ان میں پہلا اسلامو فوبیا اور اس کے بعد کی بیگانگی ہے جو عالمی سطح پر اسلام کے خلاف زور پکڑ رہی ہے۔ دوم وہ سوالات ہیں جو خود اسلام کے اندر سے صنفی انصاف کے بارے میں اٹھتے ہیں۔ اسلام میں صنفی انصاف پر مباحثوں کا فتوحات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔  مستشرقین کی تحریروں میں مسلمان عورت کو اسلام کے پدرسرانہ نظام اور مسلم مردوں کی بے اعتنائی کی 'شکار' کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مرکزی دھارے کی حقوق نسواں کی تحریکوں نے فتوحات کی اس منطق کے امکانات کو استعمال کرتے ہوئے مسلم عورت کو موضوع سخن بنایا ہے۔ اس طرح، نوآبادیاتی مسلم اکثریتی علاقوں میں حقوق نسواں کی تحریکوں کے ابتدائی دنوں میں اس پر ایک جدید سیکولر رنگ غالب تھا۔ لہٰذا، وہ بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والی مذہبی قدروں کی حامل خواتین کی سرگرمی کو جذب کرنے میں ناکام رہے۔

لیکن، اسلامی نظریات کے اثرات، مسلم اکثریتی خطوں کے جبری سیکولرائزیشن، اور مسلم معاشرے کے اندر تشکیل پانے والے نشاۃ ثانیہ کے خیالات نے اسلام میں صنفی انصاف کے بارے میں نئی بحثیں شروع کر دیں۔ متعدد ماہرین تعلیم نے اسلامی حقوق نسواں کو 1980 اور 90 کی دہائی کے مغربی ایشیائی اور شمالی افریقی خطوں میں خواتین کی مذہبی سرگرمی قرار دیا ہے۔ مارگٹ بدران، افزانہ نجم آبادی اور زیبا میر حسینی اس شعبے کے ممتاز علماء ہیں۔ واضح رہے کہ نام نہاد اسلامی حقوق نسواں کے علمبردار عام طور پر اس اصطلاح کو قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔

 رفعت حسن، عزیزہ الحبری، فاطمہ مرنیسی، آمنہ ودود، اسماء برلاس اور دیگر نے اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ کاسیہ علی، عائشہ ہدایت اللہ اور سعدیہ شیخ جیسی محققین کو پہلی نسل کے حقوق نسواں کے اسلامی متون کے مطالعہ سے دوسری نسل قرار دیا جا سکتا ہے۔ عائشہ ہدایت اللہ کے مطابق، ودودم برلاسم نے اس سلسلے میں قرآن میں صنف کے موضوع پر کافی تفصیل کے ساتھ  تفسیریں لکھی ہیں۔ زہرہ ایوبی کا کہنا ہے کہ ودود کی کتاب روایتی قرآنی تشریحات کی نسوانی تنقید پر پہلی تحقیق ہے۔

 ودود اور برلاس کہتی ہیں کہ مسلمان خواتین کا مذہبی مکالموں سے باہر ہونا ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ وہ بھی اللہ کا نمائندہ ہیں۔ ودود کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم خواتین کی حقیقی شناخت کی بازیافت اور بیگانگی کو ختم کرنے کے لیے خواتین کا قرآن پڑھنا ضروری ہے۔ ودود کا ماننا ہے کہ میرے مطالعے کو مابعد نوآبادیات کے اسلامی مباحث مانا جا سکتا ہے کیونکہ وہ عظیم داستانوں سے آگے بڑھ کر اور صنف کے موضوع کو متعارف کراتے ہوئے قرآن کی تشریح کرتی ہے، یا ایک نسوانی مطالعہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ میں نمائندہ حقوق نسواں کا طریق کار استعمال کرتی ہوں۔ اس استدلال کی تردید کرتے ہوئے کہ قرآن ایک جابرانہ متن ہے، عاصمہ برلاس کی تشریح کی پہچان ان کے آزادی پر زور دینے سے ہے۔

 ناقدین کا الزام ہے کہ مغربی حقوق نسواں کے اثرات نے نسواں مفسرین کو متاثر کیا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح نسواں مفسرین نے روایتی مفسرین (دوار اوائل کے مفسرین) کے نظریات پر تنقید کی ہے۔ نسواں مفسرین پر ایک اور قابل ذکر تنقید یہ ہے کہ انہوں نے قرآن پر جدید نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ جدید تشریحات کو اپنانے کے لیے اسلامی روایت کو یکسر مسترد کرتی ہیں اور ان کا مشن جدید عورت کو اسلام میں فٹ کرنا ہے۔ (2005) میں ودود کی نماز جمعہ کی امامت کے سلسلے میں، جس سے عالم اسلام میں ایک بڑا شور برپا ہو گیا تھا، ان کی قرآن کی تفسیر پر کافی تنقیدیں کی گئیں تھیں۔ سوائے چند رد عمل کے، پوری اسلامی برادری نے ودود کی امامت کو محل نزاع بنا دیا ہے۔ ناقدین خواتین کی قیادت اور اختیار کے مسائل اور ودود کی تشریح میں تضادات کی نشاندہی کرکے ودود کی ایک اسلام مخالف تصویر پیش کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

English Article: Female Qur'an Interpretations and Kerala Muslim Responses - Part 1

URL: https://newageislam.com/urdu-section/female-quran-interpretations-part-1/d/127605

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..