علی سردار جعفری
13 دسمبر 2020
اس سوال نے مجھے ہمیشہ
پریشان رکھا کہ یہ دنیا ایسی کیوں ہے؟
میرے والد کے پاس مذہبی
کتابوں کا اچھا ذخیرہ تھا۔ قرآن بچپن میں بہار کے ایک مولوی صاحب سے پڑھا تھا۔ وہ
دن میں بیدوں سے مارتے تھے اور رات میں پیغمبروں کے قصے سنایا کرتے تھے۔ والد کی
کتابوں سے میں نے تمام پیغمبروں اور چودہ معصومین کے حالات پڑھ لئے تھے اور چونکہ
اس عمر میں مرثیہ خوانی کے علاوہ حدیث خوانی بھی کرنے لگا تھا اس لئے وہ حالات اور
قرآن کی بہت سی آیتیں زبانی یاد تھیں اور ان سب کا مجموعی اثر مجھ پر یہ تھا کہ
میں نے حق اور صداقت کو ہمیشہ زمین کی چیز سمجھا۔ نمرود و خلیل کی داستان سے لے کر
شہادت حسین تک کے واقعات نے میرے خون میں حرارت پیدا کردی تھی۔
اس زمانے میں چند سوالات
نے مجھے بے چین کردیا اور چند واقعات نے میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب پیدا
کردیا۔ مجھے اس سوال نے کبھی پریشان نہیں کیا کہ یہ دنیا کیوں ہے اور کہاں سے آئی
ہے لیکن اس سوال نے ہمیشہ پریشان رکھا کہ یہ دنیا ایسی کیوں ہے۔
میں نے ایشیائی افلاس کے
بدترین نمونے دیکھے ہیں۔ ریاست کے گاؤں میں پہلے اور اپنے گھر میں بعد کو۔ مجھے
شکار اور گھوڑے کی سواری کا بے انتہا شوق تھااور میں بندوق لئے گاؤں گاؤں اور
جنگل جنگل پھرتا تھا اور ریاست کی تحصیلوں اور ذیلداروں میں ٹھہرتا تھا۔ اس طرح
میں اودھ کے دیہات کی زندگی سے آشنا ہوا۔ یہ خوبصورت گیتوں، دھان اور گیہوں کے
کھیتوں اور انتہائی افلاس کی سرزمین ہے۔ اس میں اتنی پگڈنڈیاں نہیں ہوں گی جتنے
خون کے دھارے اس کے جسم میں جذب ہوچکے ہیں۔
میری یاد میں اس کی
انتہائی بھیانک تصویریں محفو ظ ہیں۔ گرمیوںکی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں جھکے ہوئے
کسان جن کی پیٹھوں پر اینٹیں لدی ہوئی ہیں، پیڑوں کی شاخوں میں بالوں سے لٹکی ہوئی
عورتیں، پتلی پتلی سوکھی ٹانگیں اور باہر نکلے ہوئے پیٹوں کے بچے، بڑی بڑی سیاہ
مگر بجھی ہوئی آنکھیں۔ ایک بار میرے
سامنے ایک کسان عورت ننگی کردی گئی۔ یہ اور اس قسم کی بے شمار تصویریں ہیں جو اگر
کوئی مصور پردے پر بنادے تو دنیا چیخ اٹھے۔ ان دیہاتوں میں جا کر مجھے پہلی بار
معلوم ہوا کہ لاکھوں آدمی چوبیس گھنٹوں
میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔
اودھ کی دوسری تعلقہ
داریوں کی طرح بلرامپور میں بھی ہرداہی کا راج تھا۔ خود ہمارے گاؤں میں ہرداہے
اور ہرداہیاں تھیں۔ ان کے پاس اپنی زمین اور اپنا گھر نہیں ہوتا تھا۔ یہ زمینداروں
اور ٹھیکیداروں کے کھیتوں پر کام کرتے تھے اور فصل کٹنے کے بعد موٹے اناج کی شکل
میں ان کو مزدوری دی جاتی تھی جس سے ان کا پیٹ نہیں بھرتا تھا اور یہ قرض لینے پر
مجبور ہوتے تھے جسے نہ وہ خود زندگی بھر ادا کرسکتے تھے نہ ان کی آنے والی نسلیں۔
اس لئے ان کی نسلوں کی نسلیں زمینداروں اور ٹھیکیداروں کے کھیتوں کے ساتھ بندھی ہوتی
تھی۔ وہ ایک طرح کے نیم غلام تھے اور ان کی جان اور مال اور عزت و آبرو پر
زمیندار کا پورا حق تھا۔ ان سے زیادہ تباہ حال مخلوق میں نے کبھی نہیں دیکھی ہے۔
یہ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ ہرداہی کے عذاب
سے بچنے کیلئے ہی یہ لوگ بمبئی اور کلکتہ جیسے شہروں کی طرف بھاگتے ہیں۔
افلاس کچھ مضحکہ خیز
تصویریں بھی بناتا ہے لیکن وہ حقیقتاً بڑی دردناک ہوتی ہیں۔ مجھے اپنے اسکول میں ماسٹروں
کی یاد اسی طرح آتی ہے۔ ان میں ایک منشی
بدری پرشاد چھوٹے سے قد کے
بوڑھے آدمی تھے۔ دھوتی باندھتے تھے اور ایک نیلا سا کوٹ پہنے رہتےتھے۔
مشین سےکٹے ہوئے خشخاشی بالوں کے سر پر فیلٹ کی کالے رنگ کی میلی چکٹ ٹوپی چھوٹے
سے تنگ ماتھے پر جھکی رہتی تھی۔ گردن کوتاہ تھی اور کندھے اوپر کو اٹھے رہتے تھے
اوروہ چلتے بھی تھے ذرا جھک کر۔ تیسرے سے چھٹے درجے تک حساب پڑھاتے تھے اور بیچ
بیچ میں کھنکارتے جاتے تھے۔ منشی جی اپنی چھوٹی سی پرانے فریم کی عینک لگا کر
حاضری لیتے اور پھر پڑھانے کھڑے ہوجاتے۔ پھر سوال پوچھتے۔ جو بچہ سوال کا ٹھیک
جواب نہ دے پاتا اس کی شامت آجاتی۔ تین چار بید مارنے کے بعد منشی جی کھنکارتے
اور طالب علم کے دماغ کو کمزور قرار دے کر اسے تیل لگانے کی ہدایت دیتے تاکہ دماغ
روشن اور حافظہ تیز ہوجائے اور حساب سیکھنے میں کوئی مشکل نہ پیش آئے۔ یہ کہتے
کہتے وہ جیب سے تیل کی شیشی نکال لیتے اور طالب علم کے ہاتھ بیچ دیتے۔ معلوم نہیں
وہ یہ تیل خود بناتے تھے یا خرید کر لاتے تھے۔ ایک بار میں نے بھی ان کا تیل خریدا
اوراس یقین کے ساتھ سر میں لگایا کہ اس کی ہر بوند سے دماغ اسی طرح روشن ہوجائے گا
جیسے مٹی کے تیل سے لالٹین جل اٹھتی ہے لیکن صبح روشن دماغی کے سلسلے میں اپنی ماں کا یہ فقرہ سنا کہ چھچھوندر کی بو
کہاں سے آرہی ہے۔
آج منشی بدری پرشاد کا
خیال آتا ہے تو مجھے ان پر بے انتہا پیارآنے لگتا ہے حالانکہ بچپن میں ان کے بید
کھا کر میں نے بھی دوسرے لڑکوں کی طرح درختوں کے پیچھے چھپ کر ان پر آوازیں لگائی
ہیں، لیکن منشی جی نے کبھی لڑکوں کےفقروں پر مڑ کر نہیں دیکھا۔ گردن جھکائے آتے تھے اور گردن
جھکائے چلے جاتے تھے۔ میں کبھی ان کے گھر نہیں گیا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان
کی زندگی میں کیسی کیسی ناکامیاں اور حسرتیں تھیں شاید خواہشوں کا گلا وہ بہت پہلے
گھونٹ چکے ہوں گے اور تیل صرف اس لئے بیچتے ہوں گے کہ ان کی قلیل سی تنخواہ ان کے
لئے ناکافی ہوگی اور ان کی دال گھی سے محروم رہتی ہوگی۔ اب اگر مجھے منشی بدری
پرشاد مل جائیں تو میں ان کے پیر چھو کر اپنی گستاخیوں کی معافی مانگوں، جن کا
غالباً انہیں علم بھی نہیں ہوگا، اور ان کی تیل کی شیشیاں خریدنے کے لئے تمام عمر
ان سے بید کھاتا رہوں اور اف بھی نہ کروں۔
13 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/feeling-pain-needy-writing-sardar/d/123836
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism