New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 09:42 AM

Urdu Section ( 13 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Feeling of Being in the Minority Can Also Be an Important Source of Our Strength اقلیت میں ہونے کا احساس، ہماری طاقت کا ایک اہم سبب بھی بن سکتا ہے

مبارک کاپڑی

11 ستمبر،2022

۱۰۔  ’.....چونکہ ہم مائناریٹی ہیں‘ 

آزادی کے ۷۵؍برسوں کے درمیان ہماری پیش رفت کا جائزہ لیتے وقت ہمارے نوجوانوں کو یہ سوچنا ہے کہ (۱) ہم اس ملک میں ایک اقلیت ہیں، یہ حقیقت ہے (۲) جمہوریت میں بندوں (ووٹروں) کو صرف گنا کرتے ہیں۔ اس سیاسی گنتی میں اقلیتوں کے ساتھ توہمیشہ نا انصافی ہی کا امکان ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے اقدام کیا ہونے چاہئیں؟

 (الف) ہم یہ سوچیں کہ دنیا کے کئی ملکوں میں اقلیتوں نے ترقی کیسے کی؟ کچھ اس حد تک کہ وہاں اقلیتیں اپنی طاقت اور اہمیت کو منوانے میں کامیاب ہو گئیں؟ جیسے دنیا کی آبادی کا صرف ۲ء۰ ؍فیصد یہودی یا ۱۳۰؍کروڑ کی ہندوستان کی آبادی میں صرف ۵۷؍ہزار پارسی! ہمارے درمیان پائے جانے والے جوشیلے اور جذباتی لوگ  کہیں گے کہ یہودیوں نے صرف سودی نظام کی معیشت کے بَل بوتے پر ترقی کی ہے ۔ نوجوانو! آپ اُن جوشیلوں سے یہ سوال ضرور پوچھیں کہ آخر ہمیں غیر سودی نظام قائم کرنے سے کس نے روکا ہے؟ دراصل سُود کو ایک لعنت اور اللہ کے خلاف جنگ قرار دے کر ربِّ کائنات نے ہمیں ایک ’ہوم ورک‘ دیا ہے کہ ہم اس دنیا میں ایک کامیاب غیر سودی نظام قائم کریں اور اُسے دنیا کے سامنے ایک ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ پارسیوں کی ترقی پر ہمارے نام نہاد قائدین نوجوانوں سے یہ کہیں گے کہ وہ قوم تو گزشتہ چند صدیوں سے علم کی دلدادہ رہی ہے۔ کوئی اُنھیں بتائے کہ علم کا سب سے زیادہ دلدادہ تو اس قوم کو ہونا چاہیے تھا جس کو آخری کتاب کے ہزاروں احکامات میں اوّلیت’اقراء‘ کو دی گئی ہے۔

 (ب) اقلیت، اکثریت کا سیاسی کھیل ختم کرنے کیلئے ہمارے یہاں ایک بڑا  قدم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم حق و انصاف پسند غیر مسلموں کو اپنے ساتھ لیں۔ ہمارے خیال سے آج بھی اکثریتی فرقے میںشدّت  پسند ۵؍فیصد ہیں جو بقیہ ۹۵؍فیصد معتدل افراد کو ورغلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے نام نہاد قائدین اس محاذ پر ناکام ہوئے ۔اب ہمارے نوجوانوں کو دعوتی ماڈل تیارکرنا ہے اور صرف ۲۵؍فیصد افراد کو بھی حقائق سے روشناس کرانے میں وہ کامیاب ہوتے ہیںتو فرقہ پرستوں کے سارے کھیل ختم ہوجائیں گے۔

نوجوانو! اس ضمن میں ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ آپ اپنے دل اور اپنے ذہنوں میں ایک خیال ضرب المثل کی طرح بسا لیجئے اور وہ ہے: ’’چونکہ ہم اقلیت میں ہیں‘‘ جیسے :

 (الف) ’’چونکہ میں اقلیت میں ہوں اسلئے میرے لیے کوئی اور راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں اکثریتی فرقے سے دُگنی محنت کروں۔‘‘

 (ب)’’چونکہ میں اقلیت میںہوں اسلئے جدّو جہد حیات کیلئے اعلیٰ و جدید سارے علوم نافع حاصل کروں۔‘‘

 (ج) ’’چونکہ میں اقلیت میں ہوں اسلئے مجھے کسی نازک مسئلے پر بھی جوشیلا و جذباتی نہیں بننا ہے۔‘‘

 (د) ’’چونکہ میں اقلیت میں ہوں اسلئے  اپنے ہر رویے اور ہر برتائو میں اعتدال کا مظاہرہ کروں۔‘‘

 (و) ’’چونکہ میں اقلیت میں ہوں اسلئے  مجھے یہ  سمجھ لینا چاہئے کہ میرا کوئی دشمن نہیں ہے۔ میں داعی ہوں اور ہر کوئی میرا مدعو... اور اس رشتے کو مجھے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔‘‘

۱۱۔  معاشی بدحالی، اقتصادی بدنظمی:

آزادی کے ۷۵؍برسوں میں ہماری پیش رفت میں تعطّل کی ایک بڑی وجہ ہے: معاشیات سے ہماری لاعلمی، مکمل تساہلی اور لگ بھگ صد فیصد غفلت۔ نوجوانو! اس محاذ پر  ہمیں اپنے خود ساختہ سارے فلسفے اور ساری تھیوریاں رد کرنی ہیں اور صرف یاد یہ رکھنا ہے کہ اسلام میں دنیا سے لَو لگائے رکھنے اور مادہ پرست بننے سے منع کیا ہے، البتہ اس نکتے کو بھی یاد رکھنا ہے کہ یہاں رہبانیت کا کوئی تصوّر نہیں ہے لہٰذا جد وجہد حیات میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی ہے کہ سارے پیغمبروں نے ذریعہ معاش کیلئے جد و جہد کی تھی۔

نوجوانو! معاشیات کے محاذ پر بھی ہمیں رہنمائی کہاں سے حاصل کرنی ہے؟ یقیناً قرآن سے۔ قرآن کے کئی نام ہوسکتے ہیں جیسے کتابِ تقویٰ  اور کتابِ دعا بھی۔ اس آخری کتاب میںاللہ سے سارے پیغمبروں کی مانگی ہوئی دعائیں موجود ہیں۔ ا س کتاب نے مال او راولاد کو آزمائش قرار دیا ہے اور فتنہ بھی! البتہ والدین فوراً قرآن کی ایک دعا کو یاد کرلیں۔’’ اے میرے رب میری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما‘‘ اب اگر اس دعا کو پورا ہونے کیلئے ہماری اولاد کو وہ سب بنانا ضروری ہے جس سے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ کامیاب، حقیقی معنوں میں کامیاب اولاداور اس کیلئے معاشی معاملات میں استحکام ضروری ہے کیوں کہ محتاجی اور کامیابی دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔

آزادی کے ۷۵؍برسوں میں ہم معاشی محاذ پر ناکام رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ (الف) جو کامیاب ہیں وہ بے حد کامیاب ہیں مگر ایسی نفسا نفسی کا شکار ہیں جو دوسروں کو اپنی کسی کامیابی کے گُر شیئر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ (ب) معاشرے میں اسلام کے معاشی نظام کی روح زکوٰۃ میں نہ کوئی نظم ہے اور نہ شفّافیت (ج) قوم کے معاشی و تعلیمی پسماندہ افراد اُمراء و اشرفیہ کی (اکثر بھونڈی) نقل کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ہمارے اُمراء کی کم از کم اخلاقی   ذمّہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں بُری مثالیں قائم نہ کریں۔ امیر و خوشحال طبقہ شادی بیاہ ، ولیمے، جہیز وغیرہ پر بے دریغ دولت اُڑاتے رہے ہیں اور اُن کی نقل غریب لوگ بھی کرتے رہتے ہیں۔ مہاجن سے ماہانہ ۵؍تا ۱۰؍فیصد قرض لے کر بھی، ایک ایک بیٹی کی شادی کا قرض ۵۔۱۰؍سال تک ادا کرتے رہتے ہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے کے والدین کی ایک بڑی اکثریت نے دو اصطلاح سُنی ہی نہیں اور وہ ہیں: بجٹ اور بچت، جی ہاں، گھروں میں بجٹ کہیں کہیں بنتا بھی ہوگا مگر اس میںتعلیم کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔ بجٹ میں حصولِ تعلیم کوئی ایشو ہی نہیں۔ لڑکیوں کیلئے اگر کہیں بجٹ بنتا بھی ہے تو اس میں بچپن ہی سے ایک ہی موضوع غالب رہتا ہے کہ اُس کے جہیز کا انتظام کیسے اور کہاں سے کیا جائے گا!

11 ستمبر،2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/feeling-being-minority-important-strength/d/127936

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..