حافظ ثناء قریشی
31اکتوبر،2023
آج یورپ تہذیب وتمدن کی
راہوں پہ بہت آگے نکل گیا ہے، برطانیہ جیسے چھو ٹے سے ملک میں چالیس سے زیادہ
یونیورسٹیاں ہیں، ہر یونیورسٹی کے تحت بیسیوں کالج ہے۔تعلیم وتدریس پر بڑے بڑے
ماہرین متعین ہیں جن سے فیض پانے کے لئے دنیا کے ہر گو شے سے طلبہ آتے ہیں۔ تالیف
و تصنیف کے سینکڑوں ادارے ہیں۔ جو ہرفن پر کتابوں کے انبار لگارہے ہیں۔صرف طبیعیات
(کیمیا، فزکس،حیوانات، جمادات، نباتات، طبقات الارض وغیرہ) پر تیس سے زائد کتابیں
لکھی جاچکی ہیں۔ یہی حال فرانس،و جرمنی،اور روس کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یورپ
ہمیشہ سے ایسا ہی تھا؟ مطلقاً نہیں۔ یورپ صدیوں تک وحشت وبربریت او رتہہ پر تہہ
جہالت میں گرفتار رہا۔وہاں تہذیب واخلاق کا کوئی تصور نہیں تھا۔
آٹھویں صدی عیسویں میں
مسلمان اسپین میں پہنچے اور سوسال بعد سسلی میں و ارد ہوئے،یہ اپنے ساتھ تاریخ،
فلسفہ،طبیعیات،طب، ریاضی، شعر وداب، تاریخ وعلم الکلام، اور دیگر درجنوں علوم لے
گئے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ علوم،اٹلی، جرمنی، فرانس اور دیگر ممالک میں پہنچے۔اور
بارہویں صدی میں یورپ مائل بہ علم ہوگیا۔یہ شوق بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ سولہویں
صدی میں ایک عام بیداری پیدا ہوگئی۔جسے یورپ کی حیات ثانیہ کہاجاتا ہے ڈاکٹر ڈریپر
(1882ء) لکھتا ہے کے قر ون وسطیٰ میں یورپ کا بیشتر حصہ لق ودق بیابان یا بے راہ
جنگل تھا۔کہیں کہیں راہوں کی خانقاہیں اور چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں۔ جا بجا
دلدلیں اور غلاظت سے بھر ے راستے تھے،لندن اور پیرس جیسے شہروں میں لکڑی کے ایسے
مکانات تھے جن کی چھتیں گھانس کی تھیں۔ چمنیاں، روشندان،کھڑکیاں مفقود،آسودہ حال
امراء فرش پر گھاس بچھاتے اور بھینس کے سینگ میں شراب انڈیل کر پیتے تھے، صفائی کا
کوئی انتظام نہ تھا، نہ گندے پانی نکالنے کے لیے نالیوں اور سیوروں کا رواج تھا،
گلیوں میں فضلات کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ سڑکوں پر بے اندازہ کیچڑ ہوتاتھا اور روشنی
کا کوئی انتظام نہیں تھا، اس لیے رات کے وقت جو شخص گھر سے نکلتا وہ کیچڑ سے لت پت
ہوجاتا، تنگی رہائش کا یہ عالم تھا کہ تمام آدمی اپنے مویشیوں سیمت ایک ہی کمرے
میں سوتے تھے، عوام ایک ہی لباس سالہا سال تک پہنتی تھی جسے دھوتے بھی نہ تھے،
نتیجتاً وہ چرکین،میلا او ربدبودار ہوجاتاتھا، نہانہ اتنا بڑا گناہ تھا کہ جب
پاپائے روم نے سسلی اور جرمنی کے بادشاہ فریڈرک ثانی (1212-1250ء) پے کفر کا فتویٰ
لگایا فہرست الزامات میں یہ بھی درج تھا کہ وہ روز انہ مسلمانوں کی طرح غسل کرتا
تھا۔
جب اسپین 4/ہجری میں
اسلامی سلطنت کو زوال آیا تو فلپ روم (1006-1098ء) نے تمام حمام بطور حکم
بندکروادیئے کیونکہ ان سے اسلام کی یادتازہ ہوتی تھی۔ اسی بادشاہ نے اشبیلہ کے
گورنر کو محض اس لیے معزول کردیا تھا کہ وہ روزانہ اپنا منہ ہاتھ دھوتا تھا۔
غلیظ جسم او رمیلے لباس
کی وجہ سے جوؤں کی یہ کثرت تھی کہ جب کینٹربری(برطانیہ) کالاٹ پادری باہر نکلتا
تھا تو اس کی قبا پر سیکڑوں جوئیں چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ فقر وفاقہ کا یہ عالم
تھا کہ لوگ سبزیاں پتے اور درختوں کی چھال ابال کر کھاتے تھے۔ متوسط طبقہ کے ہاں
ہفتے میں ایک مرتبہ گوشت عیاشی سمجھا جاتاتھا۔1030کے قحط میں لندن کے بازاروں میں
انسانی گوشت بھی پکتا تھا۔ اور فرانس کے ایک دریا ساؤن کے کنارے انسانی گوشت کی
کتنی ہی دکانیں تھیں امرا ء معدودے چند تھے۔جن کا کام زنا، شراب نوشی،اور جوا
تھا۔جاگیر داروں کے قلعے ڈاکوؤں کے اڈے تھے جو مسافروں پر چھاپے مارتے اور زرفدیہ
وصول کرنے کے لئے انہیں پکڑ لاتے تھے۔ حصول زر کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتے
تھے۔ مثلاً پاؤں کے انگوٹھوں کو رسی سے باندھ کرالٹا لٹکا دیتے تھے، یا گرم سلاخوں
سے جسم کو داغتے یا گرہ دار رسی کو سر کے گرد لپیٹ کر پوری طاقت سے مروڑ دیتے تھے۔
یورپ میں سڑکیں نہ تھیں۔ ذرائع حمل ونقل بیل گاڑیوں، خچر اور گدھے تھے، جنگلوں او
رپہاڑوں میں ایسے ڈاکو رہتے تھے جو آدم خور تھے،وبائیں عام تھیں،ان کے پادری فریب
اور جعلسازی سے کام لیتے تھے،غرض یہ کہ پورا یورپ بے راہ روی کا شکار تھا، ہر شخص
بری صفات کاحامل تھا۔
تاریخ کا قطعی فیصلہ ہے
کہ ایک مسلمان اسپین سسلی اور یورپ کے دیگر مقامات پر نہ جاتے تو یورپ
بربریت،ہلاکت اور انتہائی بداخلاقی کے دلدلوں سے کبھی نہ نکل پاتا۔ مسلمانوں نے
یورپ کو ایک تابعدار تمدن، عظیم الشان تہذیب بے شمار درسگاہیں اور ہرقسم کے علوم
دینی اور انہیں کپڑے پہننا، نہانا، اور انسانوں کی طرح رہنا سہنا سیکھایا،اخلاق
وآداب کا درس دیا، ان سے آٹھ سو برس تک نہایت عادلانہ وفیاضیانہ سلوک کیا، اپنے
درباروں میں بڑے بڑے منصب دیے،سب کچھ کیا،لیکن جونہی انہیں زوال آیا۔عیسائیوں نے
ان پر ظلم وستم کے پہاڑ گرانے شروع کردیے 1492ء میں اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہوا،
صرف آٹھ ہی برس گزرے تھے کہ فروینان نے مسلمانوں کے اسلام چھڑانے کی مہم شروع
کردی، وہ اس طرح کے تمام کردہ مسلمانوں کو جن کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تھی پکڑ کر
مذہبی عدالت کے سامنے پیش کردیا، ان میں سے اٹھائس ہزار پانسوں چالیس کو موت کی
سزا ملی او ربارہ ہزار کو زندہ جلادیا گیا۔ ان کی سینکڑوں لائبریریاں جن میں
لاکھوں کتابیں تھیں سپرد آتش کردی گئیں۔ 1006میں فلپ دوم نے حمام بند کروا دئے۔
1610 میں تمام مسلمانوں کو ترک ملک کا حکم مل گیا۔ڈیڑلاکھ عربوں کا ایک قافلہ
بندرگاہ کی طرف جارہا تھا بلیڈانامی ایک پادری نے اس پر حملہ کروا دیا، اور ایک
لاکھ نفوس قتل کرڈالے، 1630 میں ایک بھی مسلمان اسپین میں باقی نہ رہا۔اور اس یورپ
نے اتنی ترقی کی کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی، لیکن ان کی کامیابی کا راز
اسلامی تعلیمات تھیں اسلامی تہذیب وثقافت پر عمل کرنا تھا مسلمانوں کی حمایت و
نصرت تھی، مگر افسوس یہ مسلمانوں کے احسان فراموش ہی نہیں نکلے بلکہ ترقی کے خمار
میں یہ بھی بھول گئے کہ اسلام نے او رمسلمانوں نے ان کوکیسی پستی سے بلندی پر
پہنچایا ہے، ہم مسلمانوں کو اس سے یہ عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ انسان اپنی محنتوں
اور کاوشوں سے اوج ثریا پر پہنچ سکتاہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ماضی پر نظرثانی
کرنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین یا ربّ العالمین۔
31 اکتوبر، 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism