By Ghulam Ghaus Siddiqi, New Age Islam
02 April 2020
غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
کروناوائرس ایک متعدی وبا ہے جس کی جنگ سے آج پوری دنیا نبرد آزما ہے ۔ بالخصوص امریکہ، اٹلی ، چین ، فرانس ، اسپین اور انگلینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اس وائرس نے لوگوں کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے ۔اب تک ۶ لاکھ سے زائد لوگ اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور ۲۵ ہزار سے زیادہ لوگ اس مہلک وبا سے مر چکے ہیں۔ ایسے نازک حالات میں دنیا کے ہر شہری پر یہ لازم ہے کہ وہ سماجی دوری اختیار کریں۔ میڈیکل سائنس کی تحقیق کے مطابق یہ ایک سے دوسرے شخص میں بہت تیزی سے منتقل ہوتا ہے اسی لیے آج دنیا کے بہت سارے ممالک میں لاک ڈاون کیا گیا ہے او رلوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ وہ اس جان لیوا بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کوئی بیماری کسی کو نہیں لگ سکتی لیکن اس کا تعلق ایمان سے ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم انسان پر اللہ تعالی نے ہلاکت سے بچنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے : ‘‘وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ’’ ترجمہ : ‘‘اور اپنے ہاتھوں، ہلاکت میں نہ پڑو’’ (سورہ بقرہ ۱۹۵)۔
کروناوائرس ایک متعدی مہلک مرض ہے ، لہذا اس سے بچنے کی جو بھی تدبیریں ہوں اسے اختیار کرکے رب العالمین کے فرمان پر عمل کیا جائے ۔متعدی وبائی امراض کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو احادیث ہیں ان کی روشنی میں ہمیں دونوں اعتقاد وعمل کی بہترین تعلیم ملتی ہے ، اعتقاد اس طور پر کہ متعدی بیماری بھی اللہ کے اذن سے ہی لگتی ہے اور عمل اس طور پر کہ جو جہاں ہے وہیں رہیں ، مثلا ،
عن سعد رضی اللهعنه عن النبی صلی الله عليه وسلم، قال: إذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تدخلوها وإذاوقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا منها
ترجمہ : حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون (متعدی مرض) پھیل جائے اورتم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔’’ (اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں کی تصحیح حاصل ہے)
لہذا اس دنیا میں رہنے والے انسان پر لازم ہے کہ وہ رب العالمین اور رحمۃ للعالمین کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپناکرکروناوائرس کی اس جنگ عظیم میں کامیابی حاصل کریں ۔ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین طب کی جانب سے آج وہی مشورے دیے جارہے ہیں جس کا اعلان ۱۴۰۰ سال پہلے ہمارے آقا علیہ السلام فرماچکے ہیں ۔
میڈیکل سائنس اور ماہرین طب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے آج دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاون اور کرفیو جیسا ماحول بنا ہوا ہے ۔ایسے ماحول میں ایک بے چینی عوام کے قلوب و اذہان میں تھی کہ وہ موجودہ کرفیو یا لاک ڈاون کی صورت میں نماز جمعہ کا کیا حکم ہے ؟کیا ان پر ترک جماعت کا گناہ ہوگا یا نہیں ؟اسی طرح پانچوں اوقات کی نماز مسجد میں جماعت سے ادا نہ کرنے کی صورت میں کیا وہ گناہ گار ہوں گے یا شریعت مطہرہ نے کروناوائرس جیسے ضرر سے بچنے کے لیے ترک جماعت یا ترک جمعہ کی اجازت دی ہے یا نہیں؟ اس بے چینی کے عالم میں محقق مسائل جدیدہ، ماہر افتا وتدریس مفتی نظام الدین رضوی کا فتوی نظر سے گزرا جو کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے قابل عمل ہے۔
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین موجودہ حالات میں کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری سے بچنے کے لیے حکومت نے پورے ملک میں دفعہ ۱۴۴ نافذ کردیا ہے جس کی وجہ سے ۵ افراد ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے اس بنیاد پر حکومت نے تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے ۔ہماری مسجدوں میں بھی تالے لگ گئے ہیں اور انتظامیہ کی طرف سے حکم یہ ہے کہ صرف امام موذن اور ٹرسٹیان ہی مل کر نمازیں ادا کریں اور اگر زیادہ لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں تو امام اور ٹرسٹیان پر کیس کر دیا جائے گا ۔اس سلسلے میں پولس اس قدر سختی کر رہی ہے کہ بعض علاقوں میں مسجدوں سے مصلیوں کو نکال نکال کر مارا گیا ۔
انتظامیہ کی طرف سے نافذ اس پابندی سے حق مسجد تو ادا ہو جاتا ہے اور جماعت پنجگانہ کے ذریعہ مسجدیں آباد ہیں مگر جمعہ کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔۲۷ مارچ ۲۰۲۰ کا جمعہ بے شمار علاقوں میں معطل رہا ، وجہ یہ ہے کہ جمعہ کے لیے اذن عام اور مسجد کا درواہ کھلا رکھنا شرط ہے اور موجودہ حالات میں دروازہ کھولا نہیں جا سکتا ورنہ لوگ کثیر تعداد میں آجائیں گے اور پھر وہی قانونی دشواری پیش آئے گی جس کا ذکر کیا گیا ۔
لہذا صورت حال میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا مجبوری کی صورت میں چند لوگ جو نماز پنجگانہ ادا کر رہے ہیں وہی لوگ اگر دروازہ بند کرکے نماز جمعہ بھی ادا کر لیں تو اس کی اجازت ہوگی یا نہیں ؟
واضح رہے کہ دروازہ مسلمانوں کی طرف سے بند نہیں کیا گیا ہے یہ تو حکومت کا دباو ہے اور وہ بھی ہماری حفاظت کے لیے ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ اذن عام کی جو شرط فقہ کی کتابوں میں بیان کی گئی ہے مثلا در مختار ، بہار شریعت ، فتاوی رضویہ وغیرہ یہ شرط کتب ظاہر الروایہ میں نقل نہیں کی گئی بلکہ یہ شرط کتب کتب النوادر میں نقل کی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہدایہ جیسی مشہور کتاب میں اس شرط کا کوئی ذکر تک نہیں ہے اس لیے اس شرط کا موجودہ حالات میں لحاظ کیے بغیر جمعہ پڑھ لیا جائے تو کیا حرج ہے کم سے کم جمعہ تو پوری دنیا میں معطل نہیں ہوگا جو شعار اسلام سے ہے اور مسجدیں تو ویران نہیں ہوں گی، اور پھر کروناوائرس کی ستم گری کا یہ سلسلہ کتنا دراز ہوگا اور یہ پابندی کب تک عائد رہے گی اس کا بھی کچھ علم نہیں جس سے آنے والے کئی جمعے معطل ہو سکتے ہیں جو کہ حرج عظیم بھی ہے اور مسلمانوں کو گوارا بھی نہیں ۔لہذا امید ہے کہ جمعہ کی بحالی کے لیے جواز کی کوئی صورت پیش کی جائے گی ۔
بینوا توجروا ۔المستفتی : محمد یوسف رضا قادری ، بھیونڈی ، مہاراشٹر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب : جمعہ قائم کرنے والے کم از کم چار افراد ہوں ، ایک امام تین مقتدی اور ان کی طرف سے اذن عام ہو تو کروناکرفیو کے موجودہ حالات میں نماز جمعہ صحیح ہے کیوں کہ اس وقت جو کرفیو جاری ہے وہ تمام انسانی برادری کو ‘‘کروناوائرس ’’ کے مضر اور مہلک اثرات سے بچانے کے لیے ہے ، نماز اور جماعت نماز سے روکنے کے لیے نہیں ، اس لیے اس کرفیو سے جمعہ کی ساتویں شرط ‘‘اذن عام’’ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
وناوائرس کو ناگاساکی کے ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک مانا جا رہا ہے اور یہ ایک سچائی ہے کہ اس وائرس نے جہاں اپنے قدم جما لیے ہیں وہاں روز سیکڑوں لوگ ہلاک ہو رہے ہیں جیسے اٹلی ، ایران ، امریکہ ، چین میں ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ۔اس بیماری کی ابتدائی علامت زکام ، سوکھی کھانسی ، بخار ہے لیکن جن لوگوں کی قوت مدافعت اچھی ہے ان میں یہ علامت ابتدائی طور پر ظاہر نہیں ہوتی ، لوگ انہیں ٹھیک سمجھتے ہیں اور ایسے لوگوں کے قریب ہونے سے ان کے وائرس (جراثیم) دوسروں کے بدن میں سرایت کر جاتے ہیں اور پھر واسطہ بواسطہ یہ وائرس منتقل ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ کچھ دنوں بعد وہ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں پھر ہلاکتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، اس سے بچنے بچانے کی تدبیر ‘‘سماجی دوری’’ تجویز کی گئی ہے جس کے لیے ‘‘لاک ڈاون ’’ اور ‘‘جنتا کرفیو’’ ضروری ہوا ۔
لاک ڈاون کا اصل مقصد مطلقا انسانی برادری کو ایک دوسرے کے قرب واختلاط سے دور رکھنا ہے جو وائرس کے ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے اور پھیلنے کا سبب ہے ، تو یہاں جمعہ اور جماعت نماز سے روکنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف کروناوائرس اور اس کے مضر ومہلک اثرات سے دور رکھنا مقصود ہے ۔
اور ایسی ممانعت سے جمعہ کے ‘‘اذن عام ’’ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
‘اذن عام ’’ کا مطلب ہے ہر نمازی کو مسجد میں آنے کی اجازت ۔حالانکہ عورتوں کو اندیشہ فتنہ کی وجہ سے اور موذی کو اندیشہ ایذا کی وجہ سے مسجد آنے کی ممانعت ہے تو جیسے اندیشہ فتنہ کی وجہ سے عورتوں کو اور اندیشہ ایذا کی وجہ سے موذی کو ممانعت ‘‘اذن عام ’’ پر اثر انداز نہیں اور جمعہ صحیح ہو تا ہے ویسے ہی وائرس کے اندیشہ وضرر کی وجہ سے عام انسانی برادری کو قرب واختلاط سے ممانعت بھی ‘‘اذن عام ’’ پر اثر انداز نہ ہوگی اور جمعہ صحیح ہوگا ۔
در مختار میں ہے :
فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة لأن الإذن العام مقرر لأهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي و نعم لو لم يغلق لكان أحسن كما في مجمع الأنهر معزيا لشرح عيون المذاهب . اهـ
(الدر المختار على هامش رد المحتار ج1، ص 601 باب الجمعة)
ترجمہ : کسی دشمن کی وجہ سے یا قدیم تعامل کی وجہ سے قلعہ کا گیٹ بند کردینا اذن عام میں مضر نہیں ہے اس لیے کہ اذن عام اہل شہر کے لیے ثابت ہے اور گیٹ بند کرنا دشمن کو روکنے کے لیے ہے ، ہاں اگر گیٹ بند نہ کیا جائے تو اچھا ہوگا جیساکہ مجمع الانہر میں شرح عیون المذاہب کے حوالے سے ہے ۔
رد المحتار میں ہے : فلايضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر .ط
ترجمہ: دشمن کو روکنے کے لیے یا قدیم تعامل کی وجہ سے حاکم کا قلعہ کا گیٹ بند کرانا اذن عام میں خلل انداز نہیں ۔طحطاوی (رد المحتار ، ج ۱ ص ۶۰۱ ، باب الجمعہ )
مختصر یہ کہ ممانعت کی بنیاد نماز وجماعت نماز ہو تو یہ اذن عام کے منافی ہوگی اور اگر اس کی بنیاد فتنے کا اندیشہ یا دشمن سے ضرر کا اندیشہ ہو تو وہ اذن عام کے منافی نہ ہوگی ، لہذا جمعہ صحیح ہوگا ۔
اور موجودہ حالات میں لاک ڈاون یا سماجی دوری کی بنیا داندیشہ ضرر ہے نماز وجماعت نماز نہیں ہے ، لہذا باب مسجد بند ہونے کی صورت میں بھی نماز جمعہ صحیح ودرست ہوگی ، ہاں دروازہ کھلا رہے تو اچھا ہے ۔
یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ ظاہر الروایہ (جو اصل مذہب حنفی ہے) میں ‘‘اذن عام’’ کی شرط کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جیساکہ بدائع الصنائع ، بحر الرائق اور رد المحتار ، باب الجمعہ میں اس کی صراحت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہدایہ جیسی عظیم الشان کتاب میں بھی اس کا ذکر نہ ہوا مگر کہا جا سکتا ہے کہ عدم ذکر ، ذکر عدم نہیں ہے ، کبھی کوئی بات دلیل کی روشنی میں مجتہد پر عیاں ہوتی ہے اس لیے وہ اس کے ذکر کی حاجت نہیں محسوس کرتے ۔
خلاصہ یہ کہ :
شاشن وپرشاشن کی طرف سے پانچ لوگوں کو جمعہ اور جماعت مسجد میں قائم کرنے کی اجازت ہے تو مسلمان اس کا لحاظ کریں ، خلاف ورزی کی صورت میں اپنے آبرو کو آنچ آسکتی ہے جیساکہ کچھ جگہوں پر ہوا ۔
مسلمان اسے سنجیدگی سے لیں ، باقی لوگ اپنے اپنے گھروں میں جمعہ کے بدلے تنہا تنہا ظہر کی نماز ادا کریں اور مسجد والے جمعہ کے وقت دروازہ ہلکا سا کھلا رکھیں ۔
(۲)اور اگر یہ محسوس کریں کہ دروازہ بند رکھنا چاہیے ورنہ دقت آسکتی ہے تو دفع ضرر کے مقصد سے دروازہ بند رکھ سکتے ہیں جیساکہ دفع فتنہ وضرر کے لیے بند رکھنے کی اجازت ہے جو فقہ حنفی کی معتمد ومستند کتب ‘‘شرح عیون المذاہب’’، ‘‘مجمع الانہر ’’، ‘‘طحطاوی’’ اور ‘‘رد المحتار ’’ میں مذکور ہے ۔واللہ تعالی اعلم
کتبہ محمد نظام الدین الرضوی
رئيس قسم الإفتاء وهيئة التدريس بالجامعة الأشرفية بمبارك فور أعظم جراه 4 شعبان المعظم 1441 / 30 مارس 2020 م
A regular Columnist with NewAgeIslam.com, Ghulam Ghaus Siddiqi Dehlvi is an Alim and Fazil (Classical Islamic scholar), with a Sufi-Sunni background and English-Arabic-Urdu Translator. He has also done B.A (Hons.) in Arabic, M.A. in Arabic and M.A in English from JMI, New Delhi. He is Interested in Islamic Sciences; Theology, Jurisprudence, Tafsir, Hadith and Islamic mysticism (Tasawwuf).
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/fatwa-validity-friday-prayer-prevention/d/121464
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism