New Age Islam
Mon May 12 2025, 06:17 PM

Urdu Section ( 4 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Fatwa by Ulema In Favour Of Hindu-Muslim Unity ہندو مسلم اتحاد کے حق میں علمائے کرام کا فتویٰ

 ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام

 2 مارچ 2023

 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل کا مقصد 1857 میں پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستانیوں کو ایک جھنڈے کے نیچے دوبارہ منظم کرنا تھا۔ ہندوستانی قوم پرستوں کو کانگریس میں امید کی کرن نظر آئی جبکہ برطانوی وفاداروں کو خطرہ محسوس ہوا۔ برطانوی راج کے سب سے پرجوش حامیوں میں سے ایک سر سید احمد خان نے کانگریس کے خلاف محاذ کھول دیا۔ انہوں نے 1888 میں میرٹھ میں اسلام کی مذہبی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

Unity of faiths: A Representational image

------

 سر سید نے دعویٰ کیا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں جن کے الگ الگ مفادات ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عیسائی فطری طور پر مسلمانوں کے حلیف ہیں جبکہ ہندو دشمن ہیں۔ انہوں نے 800 سے زائد مسلمانوں کے اجتماع سے کہا، ’’ہمیں اس قوم کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے جس کے ساتھ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ کوئی مسلم یہ نہیں کہہ سکتا کہ انگریز ’’اہل کتاب‘‘ نہیں ہیں۔ کوئی بھی محمڈن اس سے انکار نہیں کر سکتا: کہ خدا نے کہا ہے کہ عیسائیوں کے علاوہ کوئی دوسرے مذہب کے لوگ محمڈن کے دوست نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے یہ کہا کہ مسلمانوں کو انگریزوں سے تجارتی تعلقات استوار کرنے چاہئیں نہ کہ ہندوؤں سے۔

 سرسید نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ کانگریس کا بائیکاٹ کریں کیونکہ اس کے ارکان ہندو ہیں۔

 علمائے کرام اور اسلامی ماہرین، 1857 میں انگریز مخالف جنگ آزادی میں سب سے آگے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے ہندو راجاؤں، زمینداروں اور سرداروں کے ساتھ تعاون کیا۔ یہ تعاون اس اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا جس کی وہ تعلیم دیتے تھے۔

A screenshot of the Book Nasratul Abrar.

-----

 لدھیانہ کے تین علمائے کرام: مولانا محمد لدھیانوی، مولانا عبداللہ لدھیانوی، اور مولانا عبدالعزیز لدھیانوی نے ہندوؤں اور کانگریس کے بائیکاٹ کی سرسید کی تحریک کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ سرسید سے متاثر ہو کر، ممبئی کے ایک مسلمان علی محمد نے پوچھا کہ کیا ہندوؤں کے ساتھ تجارت اور دیگر کاموں میں مشغول ہونا جائز ہے؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا مسلمانوں کو ’ہندو‘ کانگریس کے بجائے سرسید کی قائم کردہ انجمن میں شامل ہونا چاہیے۔

 مولانا عبدالعزیز نے اس سوال کا جواب ایک خطبہ دیتے ہوئے دیا جسے ان کے بھائی مولانا محمد لدھیانوی نے فتویٰ کی صورت میں جمع کیا تھا۔ واضح رہے کہ دونوں نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی تھی۔

 فتویٰ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’دنیاوی معاملات میں عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں سے تعلقات رکھنا بالکل جائز ہے‘‘۔ یہ ثابت کرنے کے لیے اسلامی نصوص کا حوالہ دیا گیا کہ ہمارے نبی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم اور آپ کے صحابہ کے یہودیوں کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے۔ فتویٰ میں سرسید کے اس دعوے کا جواب دیا گیا تھا کہ قرآن مسلمانوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ غیر مسلموں سے دوستی نہ کریں۔

 مولانا نے کہا کہ قرآن کے اس خاص جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے غیر مسلموں سے دوستی ناجائز ہے۔ اس میں اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ صرف جو ہندو جو مسلمانوں کو مارنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہوں، ان کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر مسلمانوں کو ہندوؤں سے تعلقات قائم رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 فتویٰ میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ کانگریس میں شامل ہونا ٹھیک ہے اور سرسید کی طرف سے بائیکاٹ کی تحریک بے بنیاد ہے۔ بلکہ مولانا نے لوگوں سے کہا کہ وہ سرسید کی انجمن میں شامل ہی نہ ہوں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ مسلمانوں کو دنیاوی معاملات میں سرسید اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں ان کے پیروکاروں کے ساتھ تجارتی یا ازدواجی تعلقات نہیں رکھنا چاہئیے کیونکہ وہ اسلام کے ساتھ وفادار نہیں ہیں۔ مولانا نے کہا کہ کانگریس کے خلاف سرسید کی بائیکاٹ کی تحریک ان پر اور ان کے ساتھیوں پر لاگو ہوتی ہے۔

 اس کے بعد لدھیانہ کے علمائے کرام نے ہندوستان اور بیرون ملک سینکڑوں علمائے کرام کو خطوط لکھے تاکہ اس فتویٰ کی تائید حاصل کی جا سکے۔ اس وقت کے چند معزز اسلامی ماہرین نے فتویٰ کی توثیق کی۔ ان میں مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا محمود حسن دیوبندی، روضتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور روضہ عبدالقادر جیلانی (بغداد) خدام وغیرہ شامل تھے۔

 رشید احمد گنگوہی نے 1857 میں جنگ لڑی اور دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے ہندوؤں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا مکمل طور پر جائز ہے۔ ان کے خیال میں اگر سرسید حقیقی معنوں میں بھی قوم مسلم کی بھلائی چاہتے تھے تو ان کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے اور ان کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔

 احمد رضا خان بریلوی نے آگے کہا کہ ’’انہیں (ہندو) کافر حربی نہیں کہا جا سکتا‘‘۔ انہوں نے لکھا کہ اسلامی حکومت کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ احمد رضا خان بریلوی کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کے ساتھ وہ تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں"، جو پوری قوم کے لیے فائدہ مند ہیں"۔

 اصل فتویٰ کی یہ تمام توثیق اپنی اپنی جگہ فتوے کی شکل میں موجود تھے اور مولانا محمد لدھیانوی اور مولانا عبدالعزیز لدھیانوی نے انہیں نصرۃ الابرار نامی کتاب کی شکل میں مرتب کیا تھا۔ اگرچہ علمائے کرام نے کانگریس کے حق میں اور سرسید کی انجمن کے خلاف فیصلہ دیا لیکن وہ کانگریس میں شامل نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ مکمل آزادی پر ان کا یقین تھا جو کہ کانگریس کا موقف نہیں تھا۔ پارٹی نے تقریباً چار دہائیوں بعد مکمل آزادی کا مطالبہ اٹھانا شروع کیا۔

 یہ کتاب اسلامی اسکالرشپ کا عکس ہے جو سیاسی مفادات کے لیے اسلامی لب ولہجہ کے استعمال کی مذمت کرتی ہے، جیسا کہ سرسید کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سے مزید ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات ہندو مسلم اتحاد اور متحد قوم کے نظریہ سے متفق ہیں۔ فتویٰ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بعض سیاست دانوں کی یہ دعوت کہ مسلمانوں کو اپنی سیاسی تنظیمیں ہونی چاہییں اس کی کوئی اسلامی بنیاد نہیں ہے ورنہ سینکڑوں علمائے کرام مسلمانوں کے لیے کانگریس کی ’ہندو‘ قیادت کو تسلیم نہ کرتے۔

English Article: A Fatwa by Ulema In Favour Of Hindu-Muslim Unity

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/fatwa-ulema-hindu-muslim-unity/d/129245

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..