New Age Islam
Thu May 01 2025, 01:36 AM

Urdu Section ( 17 Aug 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

In The Face Of Opposition from Multiple Sources, Islam Exhorts Muslims to Be Patient مخالفتوں کے ہجوم میں اسلام کی مسلمانوں کو صبر و تحمل کی تلقین

کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام

17 اگست 2022

· مخالفین ہمیشہ ایسی بات کہتا ہے جسے سن کر برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا ۔

· مخالفین کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کی بات سے کسی کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ، دل آزاری ہوتی ہے ، بدنامی ہوتی ہے ، امن و سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، یا ملکی یا عائلی رشتوں میں دراڑ ہو سکتا ہے ۔

· لیکن اگر آپ اس کے جواب میں ویسی ہی باتیں کرنے لگ جائیں تو مخالفین اسے نہ صرف برداشت نہیں کرتے بلکہ اس کے ذریعے آپ کے دین اسلام پر مزید طعن کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔

· اسی لیے ایسی فضا میں کامیابی کا سب سے بہترین راستہ ہمیشہ صبر ، عفو ، اور اعلی اخلاق کے اندر سے گزرتا ہے ۔

۔۔۔

اسلام کے ابتدائی دور، بالخصوص قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ مشرکین مکہ کی اسلام اور مسلمان مخالف سرگرمیاں تمام حدیں پار چکی تھیں۔ قرابت اور مروت کی پاسداری ایک افسانہ بن چکی تھی۔ قریش جو ہمیشہ خونی رشتوں اور ہمسائیگی کے تعلقات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، لیکن جب ان کے بعض رشتہ داروں نے اسلام کو قبول کیا تو ان میں نفرتوں کا سیلاب آ گیا ۔دوسری طرف اہل کتاب نے بھی بعض مواقع پر قریش کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاتے اور مسلمانون کے خلاف جنگی محاذ میں معاون و مددگار بن جایا کرتے تھے ۔سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۴۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالموں کی زبانیں پوری طرح بے روک ٹوک ہو چکی تھیں اور طنز و تعریض کے نشتر مکمل بے رحمی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے تمام جوہروں کو دکھانے میں مصروف تھے ۔

 ایسے پر آشوب ماحول میں دو باتوں کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ ایک بات تو یہ کہ مسلمان جب اپنے آپ کو مسلسل مصائب و آلام کا ہدف دیکھیں تو ان کے اندر نفسیاتی عوارض پیدا ہونے لگیں جس کے نتیجے میں وہ بجائے یکسوئی کے ساتھ مخالفتوں کا سامنا کرنے کے ایک دوسرے کے الجھنے لگیں ۔اس بات کا آپ نے ضرور مشاہدہ کیا ہوگا کہ مصیبت ایک وقت میں انسانوں کو اکٹھا بھی کرتی ہے اور پھر ایک دوسرے سے بد گمان بھی کرتی ہے ۔ مسلمانوں کے سروں پر اللہ تعالی کی رحمت تھی اور ایک عظیم قیادت کی رفاقت انہیں میسر تھی، تاہم کسی نہ کسی نفسیاتی عارضہ کا شکار ہونا ناممکن نہ تھا ۔ اس لیے ایک تو اس طرف توجہ دلانا ضروری تھا اور دوسری یہ بات کہ مخالفتوں کے رد عمل میں اس بات کا بھی امکان تھا کہ صبر و ضبط کا دامن کبھی کبھی مسلمانوں کے ہاتھ سے چھوٹنے لگے ۔ جب اہل مکہ اسلام قبول کرنے والے مکہ کے باشندوں سے توہین آمیز سلوک کرنے لگے جن کا قصور صرف اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ اللہ تعالی کے دین پر ایمان پر لا ئے ، اور اس سے بڑھ کر یہ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بیہودہ باتیں کرنے لگے، تو ایسی صورتحال میں ان کی طنز و تعریض کے جواب میں یہ ممکن تھا کہ مسلمان بھی ان کے انداز میں ان کا جواب دینا شروع کر دیں ۔ چنانچہ اس سے پہلے کہ مسلمان ظالموں کے نازیبا کلمات کے جواب میں صبر و تحمل کا دامن چھوڑ دیں ، اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ذریعے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ میرے بندوں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ مخالفین چاہے کچھ بھی کہیں اور وہ کیسی بھی غلط اور نازیبا باتیں کریں ، ان کے جواب میں مسلمان بہتر ، جائز اور مستحسن بات کے سوا کچھ نہ کہیں ۔

 چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(۱۷:۵۳)

ترجمہ : اور میرے بندوں سے فرماؤ وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو بےشک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتا ہے بےشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے’’ (سورہ بنی اسرائیل: ۱۷:۵۳)

مخالفین ہمیشہ ایسی بات کہتا ہے جسے سن کر برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا ۔مخالفین کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کی بات سے کسی کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ، دل آزاری ہوتی ہے ، بدنامی ہوتی ہے ، امن و سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، یا ملکی یا عائلی رشتوں میں دراڑ ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر آپ اس کے جواب میں ویسی ہی باتیں کرنے لگ جائیں تو مخالفین اسے نہ صرف برداشت نہیں کرتے بلکہ اس کے ذریعے آپ کے دین اسلام پر مزید طعن کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اسی لیے ایسی فضا میں کامیابی کا سب سے بہترین راستہ ہمیشہ صبر ، عفو ، اور اعلی اخلاق کے اندر سے گزرتا ہے ۔

آیت میں شیطان کو انسان کا کھلا ہوا دشمن کہا گیا ہے ۔ شیطان کی یہ دشمنی آپ کے دین کی وجہ سے ہے ۔ شیطان کی زندگی کا مقصد ہی لوگوں کو اللہ تعالی کے دین سے دور رکھنا ہے ۔ جب لوگ دین کی کسی بڑی شخصیت کی توہین کرتے ہیں تو شیطان دلوں میں وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے اور رد عمل کے لیے بھڑکانا شروع کر دیتا ہے اور ہر طرح کی زیادتی پر صبر کرنے کو کمزوری قرار دیتا ہے ۔ چنانچہ اسی صورتحال کی طرف توجہ دلانے کے لیے فرمایا کہ شیطان تمہارے دلوں میں وسوسہ اندازی کرے گا وہ کبھی تمہیں تمہارے دشمنوں سے لڑائے گا اور کبھی تمہارے اپنے اندر اختلاف رائے کو پیدا کرے تاکہ تمہاری ہم آہنگی اور یکسوئی کو نقصان پہنچے اور پھر دشمن کو تمہارے رد عمل کا بہانہ بنا کر اسلام پر مزید تنقید کا موقع ملے اس لیے تمہیں یہ بات ہرگز ذہن سے نہیں نکالنی چاہیے کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ۔ وہ ہر طرح سے کوشش کرے گا کہ تمہیں تمہارے راستے سے ہٹائے اور تمہارے اندر فساد پیدا کرے اس لیے تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم پوری طرح ہوشیار رہو اور ایسے پر فتن ماحول میں صبر و تحمل کا دامن مضبوطی سے تھامے رہو۔

مذکورہ بالا آیت کا شان نزول بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ مضمون کا اصل پیغام واضح ہو جائے ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مشرکین مسلمانوں کے ساتھ بدکلامیاں کرتے اور انہیں ایذائیں دیتے تھے۔ مسلمانوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی شکایت کی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ کفار کی جاہلانہ باتوں کا ویسا ہی جواب نہ دیں بلکہ صبر کریں اور انہیں صرف یہ دعا دے دیا کریں یَہْدِیْکُمُ اللّٰہ (اللّٰہ تمہیں ہدایت دے۔)

ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔ ایک کافر نے اُن کی شان میں بیہودہ کلمہ زبان سے نکالا تھا ، اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں صبر کرنے اور معاف فرمانے کا حکم دیا۔ ( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۱۷۷، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۵۳، ملتقطاً)

بہرحال آیت میں فرمایا گیا کہ اے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ مومنوں سے فرمادیں کہ وہ کافروں سے وہ بات کیا کریں جو نرم ہو یا پاکیزہ ہو، ادب اور تہذیب کی ہو، ارشاد و ہدایت کی ہو حتّٰی کہ کفار اگر بے ہودگی کریں تو اُن کا جواب اُنہیں کے انداز میں نہ دیا جائے۔

انفرادی طور پر تو کفار کی بداَخلاقی کا جواب اخلاق سے دینا اب بھی سنت ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ دلیل توقوی دو مگر بے ہودہ بات منہ سے نہ نکالو ۔ فی زمانہ اس حکم پر عمل کرنے کی سخت حاجت ہے کیونکہ ہمارے ہاں دلیل سے پہلے گولی اور گالی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ آیت کے آخری حصے میں بتادیا کہ بدتہذیبی اور بدتمیزی شیطان کے ہتھیار ہیں اور ان کے ذریعے وہ تمہیں غصہ دلواتا اور بھڑکاتا ہے کہ جس سے لڑائی فساد کی نوبت آجائے۔ یہ شیطان کی انسان سے دشمنی ہے اور شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (ماخوذ از صراط الجنان فی تفسیر القرآن ) ۔۔۔

۔۔

کنیز فاطمہ نیو ایج اسلام کی مستقل کالم نگار اور عالمہ و فاضلہ ہیں۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/face-multiple-islam-muslims-patient/d/127729

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..