New Age Islam
Wed Mar 26 2025, 01:07 AM

Urdu Section ( 2 May 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Exploring the Limits of Discourse on God: Avoiding Extremes and Embracing Nuance خدا کے وجود پر مکالمے کی حدود : انتہا پسندی سے گریز اور احتیاط سے کام

ادیس دودیریجا، نیو ایج اسلام

 7 مارچ 2024

 اسرار کو تسلیم کر کے، متنوع نقطہ ہائے نظر کو مان کر، اور رواداری کو فروغ دے کر، ہم ایسے بامعنی مکالمے میں مشغول ہو سکتے ہیں، جس سے خدا کے بارے میں ہماری سمجھ کو تقویت ملے، اور متنوع مذہبی روایات کے درمیان یکسانیت کا فروغ ہو۔

 ------

خدا کے وجود اور فطرت کے سوال کے پیچ میں، صدیوں سے انسانیت پھنسی رہی ہے۔ اگرچہ مذہب کے حوالے سے مذبذب افراد، یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو قطعی طور پر ثابت بھی نہیں مان سکتے، اور نہ ہی سرے سے اس کے وجود کا انکار ہی کر سکتے، لیکن ایک درمیانی راستہ ہے، جو ہمیں مکمل یقین یا مکمل انکار کے نقصانات سے بچتے ہوئے، گفتگو اور تحقیق کی اجازت دیتا ہے۔ اس مضمون میں، میں خدا کے بارے میں گفتگو کے تین درجوں پر بات کروں گا، جس میں انتہاپسند خیالات سے گریز کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے گا، جو عدم برداشت، بت پرستی، الحاد، یا لاادریت کا باعث بنتے ہیں، اور اس کے بجائے احتیاط اور وسیع ذہنی کو اپنانے کی بات کی جائے گی۔

سطح 1: زبانی فارمولوں کی حدود

ذات باری کے بارے میں گفتگو کے پہلے درجے میں، ہمیں عین زبانی فارمولوں کے اندر ذات باری کو سمیٹنے کی آزمائش درپیش ہوتی ہے۔ تعین کی یہ خواہش، اس شئی کو سمجھنے کی ہماری فطری ضرورت سے جنم لیتی ہے، جو مجموعی طور پر ہمارے لیے ناقابل فہم ہے۔ تاہم، ایسی کوششیں ناکام ہوتی ہیں، کیونکہ ذات باری انسان کی زبان اور سمجھ سے ماواء ہے۔ سب سے بڑی قابل فہم ہستی، جو اکثر ذات باری کو مانا جاتا ہے، اسے مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا، اور اسے شک یا ابہام سے خالی، ایک سادہ فارمولے میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔

اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے، آئیے مختلف مذہبی روایات، اور ذات باری تعالی کے بارے میں ان کے متنوع تصورات پر غور کریں۔ ہر روایت ایک منفرد تناظر فراہم کرتی ہے، اور اس ثقافتی اور تاریخی سیاق و سباق کی عکاسی کرتی ہے، جس میں اس کا جنم ہوا ہے۔ ایک واحد زبانی فارمولے کے اندر ذات باری تعالی کو مکمل طور پر محدود کرنے کی کوشش میں، نہ صرف یہ کہ معرفت الہی کے پیچیدہ پہلوؤں کو حد سے زیادہ آسان بنا دیا جاتا ہے، بلکہ انسانی تجربات کی فراوانی اور معرفت الہی کے مختلف پہلو بھی نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔

سطح 2: اسرار کو تسلیم کرنا

گفتگو کی دوسری سطح میں، جب بات ذات باری تعالی کو سمجھنے کی آتی ہے، تو زبان و بیان اور ہماری فکری صلاحیتوں کی حد کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ نقطہ نظر تسلیم کرتا ہے، کہ خدا کے بارے میں کیا کہا جائے، ہم اس حوالے سے مکمل طور پر اندھیرے میں نہیں ہیں۔ اگر چہ ہماری عقل، ذات باری تعالی کا پوری طرح سے احاطہ نہیں کر سکتی، پھر بھی ہم بامعنی مکالمے، غور و فکر اور تلاش و جستجو میں لگے رہ سکتے ہیں۔

گفتگو کی اس سطح میں، apophaticism کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ Apophatic تھیولوجی میں، ذات باری کو بیان کرنے کی کوشش کرتے وقت، انسانی تصورات اور صفات کی نفی پر زور دیا جاتا ہے۔ محدود انسانی خصوصیات کو اللہ سے منسوب کرنے کے بجائے، apophaticism میں ذات باری کو، انسانی عقل اور زبان و بیان سے ماوراء تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ نقطہ نظر عاجزی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ خدا کے بارے میں ہماری سمجھ ہمیشہ نامکمل ہی رہے گی۔

ساتھ ہی ساتھ، انتہائی جارحانہ apophaticism سے بچنا بھی ضروری ہے، جو ذات باری کے بارے میں کسی بھی مثبت بیان کو مسترد کرتا ہے۔ اس طرح کی انتہاپسندی، مذہب کی یکسر نفی کا باعث بنے گی، اور لوگوں کو الحاد یا لاادریت کی طرف لے جائے گی۔ اسرار کو مان کر، اور اپنی فہم و فراست کی حدوں کو تسلیم کر کے، ہم اپنی زبان و بیان کی خامی کو تسلیم کرتے ہوئے، ذات باری کے امکان کے تئیں، اپنا ذہن کھلا رکھ سکتے ہیں۔

سطح 3: احتیاط کا راستہ اختیار کرنا

گفتگو کا تیسرا درجہ، مطلق یقین اور مکمل جہالت کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سطح میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے، کہ اگرچہ ہماری عقل پوری طرح سے ذات باری کا احاطہ نہیں کر سکتی، لیکن ہم ایسے محتاط مباحث سے کام لے سکتے ہیں، جن میں متعدد نقطہ ہائے نظر اور متنوع افکار و نظریات کی گنجائش ہو۔

اس سطح کے اندر، مذہبی تعلیمات سے وابستہ ممکنہ خامیوں کو دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عدم برداشت اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کسی خاص مذہب کے پیروکار، یہ دعوی کرتے ہیں، کہ ذات باری کو سمجھنے کا ایک واحد درست فارمولا ہمارے پاس ہے، اور دوسروں کے نقطہ ہائے نظر کو غلط یا گمراہی قرار دیتے ہیں۔ یہ تنگ نظری مکالمے کا دروازہ بند کرتی ہے، اور تقسیم اور تنازع کو فروغ دیتی ہے۔

اسی طرح، بت پرستی اس وقت جنم لیتی ہے جب لوگ ذات باری کے بارے میں اپنی محدود سمجھ پر قائم ہو جاتے ہیں، ذات باری کی وسعت اور گہرائی کو نہیں پہچانتے۔ ذاتی باری کو ایک بت میں محدود کر کے، وہ ذات باری کی ایک نامکمل اور مسخ شدہ تصویر کی عبادت کرنے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔

ذات باری کو سمجھنے کی جستجو میں، گفتگو کی پیچیدگیوں کو باریک بینی اور کھلے ذہن کے ساتھ سمجھنا، انتہائی ضروری ہے۔ جب ذات باری کو سمجھنے کی بات آتی ہے، تو قطعی یقین یا مکمل جہالت کے دونوں انتہائی کناروں سے بچتے ہوئے، ہمیں انسانی زبان و بیان اور فہم و فراست کی حدود کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اسرار کو تسلیم کر کے، متنوع نقطہ ہائے نظر کو مان کر، اور رواداری کو فروغ دے کر، ہم ایسے بامعنی مکالمے میں مشغول ہو سکتے ہیں، جس سے ذات باری کے بارے میں ہماری سمجھ کو تقویت ملے، اور متنوع مذہبی روایات کے درمیان یکسانیت کا فروغ ہو۔

جب ہم تلاش کے اس سفر کا آغاز کرتے ہیں، تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے، کہ خدا کی تلاش ایک انتہائی ذاتی اور انفرادی کوشش ہے۔ ہر فرد کی سوجھ بوجھ، اور خدا کے ساتھ اس کے تعلق کا انداز منفرد ہے۔ عاجزی، احترام، اور ایک دوسرے سے سیکھنے کے جذبے سے لیس ہو کر، اگر ہم اس موضوع کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو ہم ایک ایسا ماحول قائم کر سکتے ہیں، جس میں ترقی، افہام و تفہیم اور ذات باری کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے، مشترکہ قدروں کا فروغ ہو۔

English Article: Exploring the Limits of Discourse on God: Avoiding Extremes and Embracing Nuance

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/exploring-discourse-god-embracing-nuance/d/132246

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..