New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 02:49 AM

Urdu Section ( 6 Dec 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Essence of Religious teachings اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ’ سورہ العصر

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

1 دسمبر 2018

قرآن کے اندر ایک ایسی سورت ہے جس میں اللہ نے مذہب و ملت سے قطع نظر تمام انسانوں کو خسارہ اٹھانے والا قرار دیا ہے سوائے چند لوگوں کے، اس سورت کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورت کو غور و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں تو صرف یہی ایک سورت دینا و آخرت میں ان کی کامیابی و کامرانی کے لئے کافی ہے ، چند صحابہ کا معمول تھا کہ وہ جب بھی آپس میں ملتے تو رخصت ہونے سے قبل برائے نصیحت یہ سورت پڑھ کر ایک دوسرے کو ضرور سنا دیتے (طبرانی)۔

وہ سورت اس طرح ہے؛

وَالْعَصْرِ﴿1﴾ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴿2﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴿3﴾

ترجمہ : اس زمانہ محبوب کی قسم - بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے - مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ (کنز الایمان)

نام اور وجہ تسمیہ :

اس سورت کا نام العصر ہے اس لئے کہ اس کی ابتدا لفظ عصر کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب کسی مہتم بالشان امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو زبان و بیان کا اصول یہ ہے کہ گفتگو شروع کرنے سے قبل کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جسے سننے کے بعد سامعین کے کان کھڑے ہو جائیں اور وہ اپنے منشر خیالات کو سمیٹتے ہوئے یکسو ہو جائیں تا اس کے بعد جو بات کہی جانے والی ہے وہ نظر انداز نہ کر دی جائے ۔ اور قسم کے بعد بیان کیا جانے والا مضمون جتنا عظمت اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے قسم بھی اتنی ہی بڑی اٹھائی جاتی ہے۔ اور اس آیت کی ابتدا ہی اللہ نے زمانے کی قسم کے ساتھ فرمائی اس سے اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد آنے والا بیان انتہائی اہم اور دنیا و آخرت میں فلاح و نجات کے حوالے سے ضروری اور ناگزیر ہو گا۔ اور اسی زمانے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس سور کا نام ‘‘العصر’’ بھی رکھا گیا ہے۔

اب ہمیں یہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے زمانے کی قسم کیوں فرمائی ؟ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ نصیحت اور عبرت کے نقطہ نظر سے زمانے سے بڑی کوئی قسم انسانی فہم و فراست کے دائرے میں نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے کہ کائنات کا تمام حسن اسی زمانے کی گود میں ہے ، کل زمانوں کے متقین کا تقویٰ ، پرہیزگاروں کی پرہیزگاری ، اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والی تمام پیشانیوں کی عظمت ، تمام انبیاء کی دعوت و تبلیغ کی امانت ، ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سیرت کا تقدس ، کعبے کی عظمت ، فرشتوں کی لطافت ، کل زمانوں کے زہاد کے زہد و تقویٰ کا نور ، چٹختے گلوں کا تبسم ، باغوں اور کھلتے کلیوں کی تمام تر رعنائیاں ، ماں کی مامتا اور شفقت پدری کی دولت نایاب ، کائنات رنگ و بو کا حسن و جمال ، سمندر میں موجوں کی طغیانی اور آسمانوں کا کلیجہ چیرتے ہوئے سر بفلک پہاڑ یہ تمام قدر کی تخلیق کردہ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی دنیا قسمیں کھاتی ہے اور اس میں کسی کو شک نہیں کہ ان تمام کے اوپر زمانے کی چادر تنی ہوئی ہے ۔ گویا کہ اللہ نے صرف ایک زمانے کی قسم کھا کر زمانے کی ہر قابل رشک شئی کو اپنی قسم میں شامل فرمالیا ۔ اور اسی اصول کی رو سے تین و زیتون ، شمس و قمر ، لیل و نہار اور لوح و قلم کی جتنی بھی قسمیں قرآن مقدس میں اس سے قبل گزر چکی ہیں وہ تمام قرآن کے اس آخری حصے میں وارد ہونے والی زمانے کی ایک ہی قسم میں شامل ہو گئیں اس لئے کہ ان میں سے کوئی بھی شئی زمانے کے دائرے سے باہر نہیں ہے ، یہی وجہ ہے اس کہ اس کے بعد قرآن میں پھر کوئی قسم وارد نہیں ہوئی۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ بات کیا ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرنے کے لئے اللہ رب العزت نے اس قدر اہتمام فرمایا ۔ زمانے کی قسم فرمانے کے بعد اللہ فرماتا ہے۔

إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴿2﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴿3﴾

بلا شک و شبہ انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو اللہ و رسول پر ایمان لائے ، نیک عمل کیا ، ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ اس سورہ مبارکہ سے بنیادی طور پر چار باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور یہی چار باتیں اس آیت کا خلاصہ اور پورے قرآن کا نچوڑ ہیں ؛

 ۱۔ اللہ اور اس کے رسول پر اس طرح ایمان لانا جو اللہ کے کلام اور رسول ﷺ کی تعلیمات سے ثابت ہے۔

۲۔ اللہ کے حکم اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق نیک اعمال کرنا۔

۳۔ لوگوں کو حق کی تاکید کرنا اور اسکی ترغیب دینا یہ آیت ان لوگوں سے مخاطب ہے جو دوسروں کو گناہ کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ کہہ کر اس سے صرف نظر کر لیتے ہیں کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اس سے ہمیں کیا سروکار! یہ آیات ایسے لوگوں کو یہ بتاتی ہے کہ ناحق ظلم ، برائی اور گناہ ہوتا ہوا دیکھ کر خاموش رہنے میں بھی انسانوں صرف تمہارا ہی خسارہ ہے۔

۴۔مشکل ، مصیبت اور کسی آزمائش کی گھڑی میں ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا بھی ہماری کامیابی و کامرانی کے لئے انتہائی ضروری ہے اس لئے کہ ہر عقلمند اور حساس انسان یہ جانتا ہے کہ بے صبری میں اٹھائے گئے قدم اور بے خودی میں لئے گئے فیصلے ہمیشہ مہلک ہی ثابت ہوئے ہیں ، اور خود قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی رحمت اور اس کی توجہ خاص حاصل کرنے کے لئے صبر کا دامن ہاتھ میں تھامے رہنا ناگزیر ہے اور تم جسے بھی صبر کرتا ہوا پاؤ یہ یقین جانو کے اللہ اس کے ساتھ ہے۔

اللہ عز و جل کا فرمان ہے:

إِنَّ اللّه مَعَ الصَّابِرِینَ (بقرہ : ۱۰۱)

بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے – (کنز الایمان)

و اللہ اعلم......

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/essence-religious-teachings-/d/117077

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..