ادیس دودیریجا، نیو ایج اسلام
7 فروری 2024
میرا یہ مضمون ذیل کے اقتباس
سے متاثرہے:
"مسلمانوں کا ماننا ہے کہ وحی ایک جاری عمل ہے۔ اسلام کے مطابق،
وحی کا آغاز آدم کے ساتھ ہوا، جب انھیں اپنے رب کا کلام موصول ہوا، اور اللہ ان کی
طرف متوجہ ہوا۔ اور اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں، کہ وحی تکنیکی طور پر، پیغمبر اسلام پر
اپنی انتہا کو پہنچی، جسے ہم ترقی پسند وحی کہتے ہیں، اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا
ہے کہ وحی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، وحی کی شکل میں نہیں (جو تکنیکی طور پر وحئ نبوت
کو مانا جاتا ہے) بلکہ الہام کی شکل میں، جس کا دروازہ خدا کے دوستوں اور عبادت گزار
بندوں کے لیے اب بھی کھلا ہے۔ وحی کا یہ ذریعہ کبھی بند نہیں ہوگا۔ اس کا سلسلہ وحئ
نبوت کے ختم ہونے کے بعد شروع نہیں ہوا تھا، بلکہ، میرے خیال میں، وحئ نبوت کے دور
میں بھی، اس کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔ یعنی، جسے میں اجتماعی الہام کہہ سکتا ہوں،
اس کی ابتداء ہی ہماری اساطیر کا بھرپور ورثہ ہے۔"
محمود ایوب، Mormons
and Muslims: Spiritual Foundations and Modern Manifestations ، ایڈ۔ اسپینسر جے پالمر (پروو، یو ٹی: بریگھم ینگ
یونیورسٹی، 1983)، 16-105۔
خالص پسند اسلام کے برعکس،
اسلامی روایت سے متعلق کچھ نقطہ ہائے نظر، خاص طور پر ترقی پسند اور پروسس-ریلیشنل
اسلام ، اس نظریہ پر مبنی ہیں، کہ اسلام میں
وحی کا عمل کسی خاص وقت تک محدود نہیں ہے، یا اس دور تک محدود نہیں ہے، جسے روایتی
طور پر پیغمبرانہ وحی کا دور بیان کیا گیا ہے۔ اگر چہ اس قسم کی
وحی کو تکنیکی طور پر وحی کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن وحی کی ایک اور شکل
بھی ہے، جسے روایتی طور پر الہام کے نام سے جانا جاتا ہے، جو اب بھی اہل ایمان پر جاری
ہوتا ہے۔ اور میرا ماننا ہے کہ، یہ جاری وحی،
ہمیشہ وحئ نبوت کے ساتھ موجود رہا ہے، جو ہماری اساطیر اور تصوف کے بھرپور ورثے میں
محفوظ، اجتماعی حکمت میں پایا جاتا ہے۔ اس تحریر میں، میں اس جاری وحی کی اہمیت اور
عصر حاضر میں اس کی افادیت پر روشنی ڈالوں گا۔
وحی کی وسیع نوعیت:
کچھ ایسی اسلامی روایتیں بھی ہیں، جن میں وحی کو ایک متحرک اور مسلسل عمل کے
طور پر دیکھا گیا ہے ۔ وحی کا آغاز سب سے پہلے انسان آدم کے ساتھ ہوا، جب انھیں اپنے
رب کا کلام موصول ہوا، اور اللہ ان کی طرف متوجہ ہوا۔ اگرچہ اس وحئ نبوت کا اختتام
روایتی طور پر نبی اکرم محمد ﷺ سے منسوب ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ یہ وحئ الٰہی کے خاتمے کی دلیل نہیں
ہے۔ بلکہ، یہ روایتی طور پر براہِ راست وحی سے، الہام کی ایک مزید لطیف شکل کی طرف،
ایک تبدیلی کی علامت ہے، جو اب بھی خدا کے نیک بندوں اور اس کے دوستوں پر جاری ہے۔
یہ جاری وحی، جسے اکثر الہام کہا جاتا ہے، لوگوں کے لیے رہنمائی، علم اور روحانی بصیرت
کا ذریعہ ہے۔
اجتماعی وحی اور اساطیر:
اس جاری الہام کا ایک اہم پہلو، اجتماعی حکمت کا کردار ہے، جو
ہماری اساطیر کے بھرپور ورثے میں پایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں اساطیر کا مطلب ،جھوٹ
یا من گھڑت افسانے نہیں، بلکہ یہ ان اجتماعی
کہانیوں، علامات اور آثار قدیمہ سے عبارت ہے، جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں۔ یہ اساطیری حکایات ایسی گہری روحانی اور اخلاقی تعلیمات پر
مبنی ہو سکتی ہیں، جن سے انسانی کیفیت اور
خدا کے ساتھ ہمارے تعلق کی معرفت حاصل ہوتی
ہے۔
اساطیری حکایات اجتماعی وحی کے ذخیرے کا کام کرتی ہیں، جو
ہمارے اسلاف کی جمع کردہ حکمت اور تجربات کا آئینہ دار ہے۔ یہ ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے
ہم لازوال سچائیوں کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں، اور زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ اساطیری حکایات کے ذریعے، ہم تخلیق، مقصد حیات، اخلاقیات،
اور خدا کی معرفت جیسے آفاقی موضوعات کو سمجھتے ہیں۔ یہ حکایتیں اکثر گہرے استعارے
اور تشبیہات پیش کرتی ہیں، جو انسانی نفسیات کے لیے معنی خیز ہیں، جن سے ہمیں اپنے
روحانی سفر کی گہرائیوں کو سمجھنےکا موقع ملتا ہے۔
اجتماعی وحی کی طاقت کو قبول
کرنا:
موجودہ دور میں، جہاں ہر آن
بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، اجتماعی وحی کی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
بحیثیت مسلمان، ہمیں اپنی اساطیر میں موجود، تبدیلی کی صلاحیت کو پہچاننا چاہیے، اور
اس کی حکمت کو غور و فکر کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ اپنے اجتماعی ورثے کے ساتھ منسلک
ہو کر، ہم کمیونٹی اور تسلسل کے گہرے احساس کو پروان چڑھا کر، ان گنت نسلوں کی جمع
کردہ بصیرت سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔
مزید برآں، اجتماعی وحی مختلف
ثقافتوں اور مذہبوں کے درمیان ایک پل کا کام کر سکتی ہے۔ جس طرح اسلامی حکایتوں میں گہری حکمت پائی جاتی ہے، اسی طرح دوسری تہذیبوں
کے افسانوں میں بھی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ تعمیری بین المذاہب مکالمے میں مشغول ہو کر
اور مشترکات کو تلاش کر کے، ہم مشترکہ اقدار کی تلاش کر سکتے ہیں اور باہمی افہام و
تفہیم کو فروغ دے سکتے ہیں۔ یہ جامع نقطہ نظر، ہمیں الہام ِالہی کی آفاقیت کو پہچاننے
اور پوری انسانیت میں موجود اجتماعی وحی کی مختلف شکلوں اور صورتوں سے لطف اندوز ہونے
کے قابل بناتا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا،
کہ پروسس-ریلیشنل اسلام ، اس نظریہ پر مبنی
ہے، کہ اسلام میں وحی کا عمل جاری اور مسلسل ہے، جس کا دائرہ پیغمبرانہ وحی کے دور سے بھی وسیع ہے۔ یہ جاری وحی، ہماری صوفیانہ فکر اور اساطیر
کے بھرپور ورثے میں موجودہے، جو کہ ہمارے لیے اجتماعی حکمت کا ایک ذخیرہ ہے۔ اس اجتماعی
وحی کو اپنانا، ہمیں کمیونٹی اور تسلسل کے گہرے احساس کو پروان چڑھا نے، لازوال سچائیوں
اور زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے قابل بناتا ہے۔
بحیثیت مسلمان، ہمیں جاری
وحی کی صوفیانہ اور اجتماعی شکلوں کی طاقت کو پہچاننا چاہیے، اور اپنے اساطیری حکایتوں پر بامعنی (نہ کہ لفظی) انداز میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ ایسا کر کے، ہم اسلام کے بارے میں اپنی سمجھ
کو بہتر بناتے ہیں، دوسری ثقافتوں اور مذہبی روایات کے ساتھ روابط استوار کرتے ہیں،
اور ایک زیادہ جامع اور ہم آہنگ دنیا کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ آخر کار،
وحی کا جاری عمل ہمیں ہدایاتِ الہیہ کی پائیداری اور اس کے استحکام کی یاد دلاتا ہے، اور ہمیں اپنی زندگی
کے ہر پہلو میں حکمت اور الہام حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
English
Article: The Enduring Revelation in Islam: Embracing Mystical
and Collective Wisdom as Ongoing Revelation
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism