مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
28 جولائی 2023
اللہ تعالیٰ نے انسان کو
اس دنیا میں امتحان اور آزمائش کے لئے پیدا کیا ہے؛ اسی لئے جہاں اس میں خیر اور
نیکی کے جذبات رکھے گئے ہیں، انہیں کے پہلو بہ پہلو اس میں کچھ اخلاقی کمزوریاں
بھی رکھی گئی ہیں۔ ان میں بعض کمزوریاں وہ ہیں جو انسان کو لڑائی جھگڑے اور نزاع و
جدال کی طرف لے جاتی ہیں۔ جیسے قرآن مجید نے انسان کی نفسیات یہ بتائی ہے کہ اس
کے اندر مال ومتاع کی غیر معمولی محبت رکھی گئی ہے ۔(العادیات:۸) حُب
ِ مال کی سرحد بخل اور تنگ دلی سے ملتی ہے۔ جو شخص مال کا پرستار ہوتا ہے وہ چاہتا
ہے کہ اس کے پاس صرف دولت آنے کا راستہ ہو، جانے کا راستہ نہ ہو، اس کی آمدنی تو
خوب ہو، لیکن خرچ کم سے کم ہو، یہ وصف بھی انسان میں موجود ہے: قرآن مجید میں ہے
کہ ’’نفس تنگ دلی کی طرف جلد مائل ہو جاتے ہیں۔‘‘
(النساء: ۱۲۸) جوانسان صرف لینا
جانتاہو، دینانہ جانتا ہو، اس میں ناشکری اور احسان ناشناسی پیدا ہو جاتی ہے اور
وہ اپنے محسن کے احسان کو بھی بھول جاتا ہے۔ یہ نا شکری واحسان ناشناسی بھی انسان
کے اندر پائی جاتی ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے ۔‘‘
(العادیات: ۶) جب
انسان دوسرے کا مال بے جا طریقہ پر حاصل کرنا چاہتا ہے، دوسرے کا حق دینا نہیں
چاہتا، خود فائدہ اُٹھانے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کا خواہاں ہوتا ہے تو یہی
چیزاختلاف و جدال کا باعث ہوتی ہے؛ چنانچہ انسان کے اندر جنگ و جدال کا مادہ ہر
مخلوق سے بڑھ کر ہے، خود اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس فطری کمزوری سے پردہ اٹھایا
ہے:’’انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے ۔‘‘ (الکہف:۵۴)
اسی لئے افراد، جماعتوں،
قوموں اور ملکوں کے درمیان نزاع و اختلاف کی تاریخ قریب قریب اتنی ہی قدیم ہے،
جتنی خود انسان کی۔ آپ جانتے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل اور
قابیل کے در میان نزاع اتنی بڑھی کہ قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا۔ (المائدۃ: ۳۰)
عالم اسلام میں اقتدار کے
لئے تو خونریزیاں ہوتی رہی ہیں، ایک خاندان نے دوسرے خاندان سے، ایک رنگ و نسل کے
لوگوں نے دوسرے رنگ ونسل کے لوگوں سے؛
یہاں تک کہ بعض اوقات ایک بھائی نے دوسرے بھائی سے اقتدار کو چھیننے کے لئے
طاقت کا استعمال کیا ہے لیکن اکثر مذہبی اختلاف کی بنیاد پر اس وقت تک جنگ کی نوبت
نہیں آئی، جب تک برسراقتدار گروہ کے خلاف دوسرے گروہ نے ہتھیار نہیں اٹھایا۔
مسلمانوں کا عام رویہ یہ رہا ہے کہ وہ باہمی اختلاف کے باوجود اعداء اسلام کے
مقابلہ میں ایک طاقت بن کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ موجودہ دَور میں صورت حال بالکل
برعکس ہے، جو قو میں آپسی جنگ و جدال میں ضرب المثل تھیں، انہوں نے ایک دوسرے سے
خاموش صلح کرلی ہے اور مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ مشترک دشمن کا خوف بھی انہیں
ایک پلیٹ فارم پر لانے سے قاصر ہے۔
عام طور پر ہم لوگ اس
کیلئے صہیونی اور صلیبی طاقتوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور یہ بات بعید از حقیقت
بھی نہیں، یورپ نے نظام خلافت کو ختم ہی
اسی لئے کیا کہ مسلمان اس طرح بکھر جائیں کہ پھر کبھی متحد ہو کر مغرب کو چیلنج
کرنے والی طاقت نہ بن سکیں لیکن جب تک انسان اندر سے کمزور نہیں ہوتا باہر کی طاقت
اسے کمزور نہیں کرسکتی، جب جسم کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے، تب باہر سے
بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں؛ اس لئے مسلمانوں کو خود اپنی صورت حال کا جائزہ لینا
چاہئے، اس حقیر کے خیال میں دو ایسی
کمزوریاں ہیں جو ہمارے اختلاف و انتشار کو بڑھاتی جار ہی ہیں، ایک بے برداشت ہونا،
اختلاف رائے کا تحمل نہ ہونا اور تھوڑے سے اختلاف میں بھی مشتعل ہو جانا۔ یہ ایک
نفسیاتی کمزوری ہے، جو اہل مغرب کی زیادتی کی وجہ سے مسلمانوں میں پیدا ہو گئی ہے؛
کیوں کہ فطری طور پر مظلومیت کا احساس انسان کو بے برداشت کر دیتا ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ مسلم
معاشرہ میں ایسے لوگوں کی بڑی کمی ہے جو آپس میں لڑنے والے مسلمان افراد، گروہوں،
جماعتوں اور تنظیموں کے درمیان مصالحت کرانے کا کردار ادا کر سکیں۔ یہ کمی خاندان
سے لے کر ملکوں کی سطح تک ہے۔ جھگڑنے والے موجود ہیں؛ لیکن صلح کرانے والے موجود
نہیں، اختلاف کی کھائیاں بڑھتی جارہی ہیں؛ لیکن اختلاف کو پاٹنے والے لوگ موجود
نہیں، لڑائی جھگڑے کی چنگاری کو شعلہ و
آتش بنادینے والے موجود ہیں؛ لیکن چنگاری کو بجھانے اور اس کو خاکستر کر دینے
والی صلاحیتیں موجود نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اختلاف کی کوئی معمولی بنیاد پڑ
جاتی ہے تو وہ بڑھتی ہی جاتی ہے، ختم ہونے کا نام نہیں لیتی؛ حالانکہ اسلام کی نظر
میں مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا ایسا اہم عمل ہے کہ اسے عبادت پر بھی فوقیت دی
گئی ہے۔ قرآن مجید نے کم سے کم آٹھ مواقع پر صلح کرانے کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔
نکاح پر چونکہ خاندان کی بنیاد اور اساس ہے؛ اس لئے قرآن مجید میں کم سے کم تین
مواقع پر میاں بیوی کے درمیان باہمی کوششوں سے یا خاندان کے بزرگوں کی مداخلت سے
صلح جوئی کی تاکید کی گئی ہے اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر نیک نیتی اور
ایمانداری کے ساتھ صلح کرانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ کوشش نتیجہ خیز اور ثمر
آور ہوگی۔ (النساء : ۳۵) اللہ
تعالیٰ نے مسلمانوں کو خاص طور پر حکم دیا کہ تم لوگ باہمی اختلافات اور کدورتوں
کو دور کرو۔ (الانفال:۱) یہ بھی ارشاد ہوا
کہ اکثر و بیشتر ہونے والی سرگوشیوں اور
ایسی ہی بات چیت میں خیر کا پہلو نہیں
ہوتا؛ لیکن اس سے تین صورتیں مستثنیٰ ہیں: ایک یہ کہ اس کا مقصد خیر کے کام میں
خرچ کرنا ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ نیکی کے کام کی دعوت دی جائے اور تیسری صورت یہ
ہے کہ لوگوں کے درمیان صلح کرائی جائے۔ (النساء: ۱۱۴) افراد کے درمیان صلح
کرانے کی تو اہمیت ہے ہی لیکن اگر مسلمانوں کے دو گروہوں کے در میان نزاع پیدا ہو
جائے تو مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ان کے درمیان صلح کرائیں: (الحجرات :۹) پھر اس پس منظر میں یہ
بات بھی فرمائی گئی کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اگر تم ان کے در میان صلح کرا
دو تو یہ گو یا دو بھائیوں کے درمیان صلح کرانا ہے۔ (الحجرات:۱۰)
رسول اللہ ﷺ نے ایک بار
صحابہؓ سے دریافت کیا کہ کیا میں تم کو روزہ، نماز اور صدقہ سے بھی افضل اعمال
نہیں بتلاؤں؟ صحابہؓ نے عرض کیا : ضرور۔
آپ ؐنے ارشاد فر مایا: باہمی اختلاف کو دور کرنا اور صلح کرانا؛ کیونکہ یہ
اختلافات دین کو برباد کر دینے والے ہیں۔(ابوداؤد، حدیث نمبر: ۴۹۱۹) رسولؐ
الله نے مہاجرین اور انصار کے درمیان ایک
عہد نامہ لکھایا اور اس میں یہ بات لکھی کہ تین اُمور میں وہ ایک دوسرے کی مدد
کریں گے: اول: دیت ادا کرنے میں، دوسرے قیدیوں کا فدیہ دے کر ان کو رہا کرانے میں
اور تیسرے مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے میں۔ (مسند احمد، حدیث نمبر : ۶۹۰۳ ، عن عبد اللہ بن عمرو
بن العاص )
رسول اللہ ﷺ ہمیشہ اس بات
پر توجہ دیتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف ہو تو فوراً اس اختلاف کو
باہمی صلح سے ختم کر دیا جائے۔ ایک بار اہل قبا کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے
درمیان لڑائی ہو گئی ہے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے پر سنگ باری کرر ہے ہیں۔ آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: ہمیں لے چلو تا کہ ہم ان کے درمیان صلح کرادیں۔ (بخاری، حدیث نمبر :
۲۶۹۳) ایک بار آپ ﷺ اپنے
حجرۂ اقدس میں تھے کہ حضرت کعب بن مالکؓ
اور ابن ابی حدرد کے درمیان قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں کچھ کہا سنی ہو گئی اور
آواز اتنی اونچی ہو گئی کہ آپ ﷺتک پہنچ گئی۔ حضرت کعب کا قرض ابن ابی حدرد کے
ذمہ باقی تھا، آپ ﷺ نے حجرۂ مبارک کا پردہ ہٹایا اور حضرت کعب سے فرمایا کہ تم
آدھا قرض معاف کردو، حضرت کعب نے قبول فرمالیا، اب آپؐ نے دوسرے فریق سے فرمایا
کہ تم کھڑے ہو اور ابھی اس کا قرض ادا کر دو ۔
( بخاری، حدیث نمبر : ۲۷۱۰)
مسلمانوں کے درمیان صلح
کرانے کی اہمیت آپ ﷺ کی نظر میں اس درجہ تھی کہ آپ ﷺ ایک بار قبیلہ بنو عمرو بن
عوف میں کچھ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے تشریف لے گئے، اچھی خاصی تاخیر ہوگئی،
نماز شروع ہونے کے بعد آپؐ تشریف لائے اور پہلی صف میں کھڑے ہو گئے، لوگ ہاتھ کی پشت تھپتھپا کر حضرت ابوبکرؓ کو متوجہ
کرنے لگے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نماز میں اتنا خشوع ہوتا تھا کہ گردو پیش
سے بے خبر ہو جاتے تھے ، لیکن بالآخر جب لوگوں نے زیادہ تھپتھپایا تو متوجہ ہوئے اور
دیکھا کہ رسولؐ اللہ شریک ِنماز ہیں، حضور ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو اشارہ کیا کہ وہ
نماز پوری کر لیں لیکن حضرت ابو بکرؓ کو یہ گوارا نہیں ہوا، انہوں نے اس عنایت پر
ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا اور پیچھے آگئے، پھر حضورؐ نے آگے بڑھ کر نماز
پوری فرمائی۔ ( بخاری عن سہل بن سعد، حدیث نمبر : ۲۶۹۰) قابل توجہ بات یہ ہے کہ
صحت اور امن کی حالت میں ہی ایک موقع ہے جس میں آپ ﷺشروع سے شریک نماز نہیں رہے
اور یہ نوبت مسلمانوں کے دو خاندانوں کے در میان صلح کرانے کے لئے پیش آئی، اس سے
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کا عمل رسول اللہ ﷺکی نظر
میں کتنا اہم تھا ؟
28 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism