محمد شفیق عالم ندوی
29 جون 2023
عید الاضحی
اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے
جوحضرت ابراہیم ؑ نے خدا کے حضور پیش کی تھی۔ سید نا ابراہیم ؑکی پوری ز ندگی امتحان
وازمائش اور استقامت کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ انھوں نے
عقیدئہ توحیدکی خاطر والدین ، رشتہ دار اور وطن کوتج دیا اور بادشاہ وقت سے نبردآزماہوئے۔
دین کی اشاعت اور سربلندی کی خاطر پوری زندگی سفر میں گزاردی کبھی عراق سے مصر کی جانب
توکبھی مصر سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے حجاز کی جانب رواں دواں رہے، گویا سفرہی
سفر ہے کہیں قیام نہیں ۔ ایک جانب سفر کاسلسلہ ہے تو دوسری جانب آزمائش وامتحان تھمنے
کانام نہیں لے رہاہے۔ آزمائش کاسلسلہ ہنوز جاری ہی تھاکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وہ
آرزو اور دعا جس کااظہار آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں کیا ’’اے میرے رب صالحین
میں سے ایک فرزند عطافرما‘‘(الصافات 37) اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کی دعا قبول فرمائی ،
بڑھاپے اور ناامیدی میں ایک صالح اولاد عطاکی تو پھر ایک آزمائش سے گزرناپڑا۔ اللہ
کی جانب سے لخت جگر اسماعیل ؑ اور بیوی حضرت ہاجرہ ؑکو فاران کی وادی میں چھوڑنے کاحکم
ملا۔ حکم کی تعمیل میں فاران کے بے آب وگیاہ بیابان میں ماں اور بیٹے کوچھوڑکرآگئے۔
جب آپ آزمائش پر کھرے اترے تو اب تیسری آزمائش کی تیاری شروع ہوگئی جوپہلے دونوں
سے قدرے زیادہ سخت تھی۔ حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان
کررہے ہیں۔ آپ ؑ اسے وحی الہٰی سمجھ کر فوراًاس کی تکمیل کے لیے تیار ہوگئے اور اپنے
بیٹے اسماعیل ؑ سے مشورہ کیا تو انھوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سرتسلیم خم
کردیا۔قرآن کریم نے اس کویوں بیان فرمایاہے : ’’پھرجب وہ ( اسماعیل ؑ ) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر ) کو پہنچ گیا
تو (ابراہیم ؑ نے فرمایا: اے میرے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتاہوں کہ میں تجھے ذبح کررہاہوں
سو غور کرو کہ تمھاری کیا رائے ہے ۔ (اسماعیل ؑ نے) کہا اباجان وہ کام (فوراً) کرڈالیے
جس کا آپ کو حکم دیاجارہاہے۔ اگراللہ نے چاہاتو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں
گے۔‘‘۔
جب حضرت ابراہیم ؑ اس عظیم
اور بے نظیر قربانی کے لیے تیار ہوگئے اور آپ نے اسماعیل ؑ کوپیشانی کے بل لٹا دیاکہ
چہرا دیکھ کرپدرانہ شفقت ہاتھوں میں لرزش نہ پیداکردے اور صرف یہ بات چیت کاقصہ نہ
رہ جائے ، اس لیے باپ نے بیٹے کوزمین پر لٹادیا۔ آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ،ہاتھ میںچھری
ہے اور اکلوتے بیٹے کابوڑھاباپ بیٹے کی گردن پر چھری رکھ کر اسے اللہ کی رضا اور خوشنودی
کے لیے ذبح کررہاہے۔ مگر چھری بھی تو اسی ذات کے اختیار میں ہے جس کے اختیار میں آگ
تھی، چھری سے ذبح کرنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے اور آسمان سے آواز آتی ہے: ابراہیم
ؑ تم اس آزمائش میں بھی سرخرو نکلے ۔
اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھاآپ
(اسماعیل ؑ) کی جگہ بہ طور فدیہ قربانی کے لیے جنت سے بھیج دیا۔امت مسلمہ میں قربانی
کی یہ یاد گار دراصل حضرت اسماعیل ؑکافدیہ ہے ،خدا نے اس فدیہ کے عوض اسماعیل ؑکی جان
چھڑائی کہ اب قیامت تک آنے والے فدا کار ٹھیک اسی تاریخ کو دنیا بھر میں جانور قربان
کریں ، اور وفاداری اور جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ کرتے رہیں
۔
قربانی کی فضیلت حدیث کی روشنی
میں
مسند احمد میں ایک روایت ہے،
حضرت زید بن ارقم ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے عرض
کیا یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا قربانی تمھارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے
، صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ اس میں ہمارے لیے کیا اجروثواب ہے ؟ ارشاد
فرمایا ، ہرہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی، صحابہ ؓ نے کہا اور اون کے بدلے یارسول
اللہ ! فرمایا ہاں اون کے بدلے ہرہر رویں کے بدلے میں بھی ایک نیکی ملے گی‘‘۔ (ترمذی،
ابن ماجہ)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا کے نزدیک نحر کے دن (یعنی دسویں
ذوالحجہ کو) قربانی کاخون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں ہے ، قیامت کے روز
قربانی کاجانور اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگااور قربانی کاخون زمین
پر گرنے نہیں پاتاکہ خدا کے یہاں مقبول ہوجاتاہے۔ لہٰذا قربانی دل کی خوشی اور پوری
آمادگی سے کیا کرو‘‘۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)
قربانی کے احکام
اقامت : مقیم ہونا، مسافر پر قربانی
واجب نہیں۔ مال دار: مال دار سے مراد وہی ہے جوصاحب نصاب ہو، جس پر صدقہ فطر واجب ہو۔
وہ شخص جو ساڑھے باون تولہ سونا کامالک ہویاحوائج اصلیہ کے سوا کسی ایک چیز کامالک
ہوجس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی اور ساڑھے سات تولہ سوناکے برابر ہو۔بلوغ : نابالغ
پر قربانی واجب نہیں ہے اگر کرے توبہتر ہے۔وقت: وقت کاپایاجانا یعنی دس ذی الحجہ کوصبح
صادق سے بارھویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے۔ یعنی تین دن اور دوراتیں ۔ ان دنوں
کوقربانی کے دن یاایام النحر کہتے ہیں۔
عیدالاضحی کے مسائل:عیدالاضحی
کے روز غسل کرنا ، خوشبو لگانا اور خوب صورت کپڑے پہننا مستحب ہے۔ عیدالاضحی کے روز
نماز سے واپسی کے بعد کھانا مستحب ہے۔ حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ اس وقت تک
کچھ نہ کھاتے تھے جب تک آپ ؐ عیدگاہ سے واپس نہ آجاتے(ترمذی ، ابن ماجہ)۔ عیدگاہ
جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا مستحب ہے۔ عیدگاہ کاایک راستہ سے جانا اور دوسرے
سے واپس آنامستحب ہے۔
قربانی کی تاریخ
انسانی تاریخ میں سب سے پہلی قربانی
آدم کے دوبیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی ہے ۔ قرآن کریم نے اس کاذکر یوں کیا ہے
۔ ’’ان کو آدم کے دوبیٹوں کاقصہ بھی ٹھیک ٹھیک سنادیجیے ۔ جب ان دونوں نے قربانی کی
تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔(سورۃ مائدہ۔۲۷)۔
قربانی تما م الٰہی شریعتوں
میں مشروع تھی
قربانی کاحکم کوئی نیا نہیں
ہے بلکہ یہ تمام شریعت الٰہیہ میں موجود رہاہے۔ ’’اور ہم نے ہرامت کے لیے قربانی کاایک
قاعدہ مقرر کردیا ہے کہ وہ ان چوپایوں پر نام لیں جواللہ ان کوعطا فرمائے ہیں‘‘۔(سورہ
حج ایت۔۳۴)
قربانی کامقصد
قربانی گوشت اور خون کانام
نہیں ہے ۔ بلکہ اس حقیقت کانام ہے کہ ہمارا سب کچھ خداکے لیے ہے اور اسی کی راہ میں
قربانی ہونے کے لیے ہے ۔قربانی کرنے والا صرف جانوروں کے گلے پر چھری نہیں پھیرتابلکہ
وہ ساری ناپسندیدہ خواہشات کے گلے پربھی چھری پھیر کران کوذبح کرڈالتاہے ۔ اس شعور
کے بغیر جو قربانی کی جاتی ہے وہ ابراہیم اور اسماعیل ؑ کی سنت نہیں ہے بلکہ ایک قومی
رسم ہے جس میں تقویٰ مفقود ہوتاہے ، جوقربانی کی اصل روح ہے ۔ ( اللہ تعالیٰ کو ان
جانوروں کاگوشت اورخون ہرگز نہیں پہنچتابلکہ اس کوتمھاری جانب سے تمھارا تقویٰ پہنچتاہے
(سورہ حج۳۷)۔یہ
انسانی قربانی اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے پہلی قربانی تھی کیوں کہ یہ صرف اللہ
تعالیٰ کے لیے تھی ۔ کسی دیوی یادیوتا کے نام پر نہ تھی۔ باپ اپنے بیٹے کوخود اپنے
ہاتھوں ذبح کرنے کوتیار تھاورنہ عموماً اس کام کو دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں اور یہ
کہ قربان ہونے والا بذات خود تیار تھا ورنہ اس سے پہلے قربانی کے لیے زبردستی پکڑ کر
لایاجاتا تھا۔ یہی وہ سنت ابراہیمی ہے جس کی یاد میں ہرسال مسلمان عیدالاضحی کے موقع
پر قربانی کرتے ہیں ۔
سنت ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتاہے
کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے جس کامقصد صرف اور صرف
اس کی خوشنودی اوررضا کاحصول ہواور اہم بات یہ کہ اس میں ریاکاری نہ ہوکوئی اگر اس
وجہ سے مہنگے جانور خریدتاہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اسے سراہاجائے تو اللہ تعالیٰ
کے پاس اس کاکوئی اجرنہ ہوگا۔ بڑے سے بڑے عدد کواگر صفر سے تقسیم کردیا جائے تو حاصل
ضرب صفر ہوجاتاہے ۔ ا س کے علاوہ اس میں جان ومال ، اولاد ، وقت اور صلاحیتیں وغیرہ
کی بھی قربانی شامل ہیں ۔ جب کہ قربانی کی اصل روح تقویٰ اور اخلاص ہے۔ (ماخوذ از دختران
اسلام جولائی۲۰۲۱ء)۔
29 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism