New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 02:16 PM

Urdu Section ( 4 Oct 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Educational Journey of Indian Muslims, its Background and Foreground ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی سفر، اس کا پس منظر اور پیش منظر

مبارک کاپڑی

2 اکتوبر،2022

 حصول علم کے محاذ پر معاملہ کہاں بگڑا؟

علم اور حصول علم کی محاذ پر گزشتہ صرف دو صدیوں تک ہماری قوم پر جمود چھایا رہا ۔اس سے قبل ہم ان ادوار کے تمام رائج علوم،معیشت،ٹیکنالوجی،انتظامیہ وغیرہ میں بلا شرکت غیرے امام رہے ۔پھر مغربی استعمار کی یلغار کے سامنے یہ قوم کیوں سپرانداز ہوگئی ،وہ اب بھی تحقیق کا موضوع ہے ۔ بہت غور و فکر کے بعد ہم صرف یہ نتیجہ پر پہونچے کہ شاید ظل الہی اور مہابلی کا خمار ہمارے دل سے اترا نہیں تھا لہذا حصول علم کے ضمن میں جو اعداد و شمار سامنے آتے ہیں ان پر ہمیں رسوائی ہی نصیب ہو رہی ہے کہ(الف)جس امت کو سب سے اول اقراء سے کا حکم دیا گیا تھا اس میں تو خواندگی کی شرح صد فی صد ہونی چایئے تھی اور(ب) دو صدیوں کا جمود جدید علوم کے محاذ پر اس قدر طویل خاموشی؟وجہ کیا ہے اس کی جبکہ اپنی آخری کتاب ہدایت میں ہمیں اللہ تعالی نے آگاہ کردیاتھا کہ علم والے اور بغیر علم والے بر ابر ہو سکتے ہیں ۔(سورہ الزمر)

اس خطے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے وقت ہمیں دو مفکرین کے بڑے احسانات امت مسلمہ پر دکھائی دیتے ہیں ،ایک سر سید جنہوں نے قوم کو جدید علوم کے ہتھیاروں سے لیس ہونے کو ترجیح دینے کی صلاح دی ۔ انکا خیال تھا کہ فرنگیوں نے جدید علوم کی طاقت سے مسلمانوں کے سات سو سالہ دور کا خاتمہ کیا ۔دوسرے تھے شاعر مشرق علامہ اقبال جنہوں نے ضرب کلیم ،زبور عجم اور پیام مشرق کے ذریعہ مغرب کے نظریہ علم اور تصورات تعلیم سے قوم کو ایک صدی پہلے آگاہ کر دیا تھا کہ علم کا اخلاق و اقدار وغیرہ سے غیر متعلق ہونا صرف عذاب ہے ۔

نصاب کے ارد گرد گھومتا نفسا نفسی کا شکار ہمارا موجودہ تعلیمی نظام اسلاف کے اذکار سے خالی ہے ورنہ ہمارے استاد نے اپنے طالب علم کو بتایا ہوتا کہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے لکھا کہ اسے محمد بن تغلق کے دربار میں کئی مہینے رہنے کا اتفاق ہوا تو اس نے دیکھا کہ محمد بن تغلق دستر خوان میں اس وقت تک نہیں بیٹھتا جب تک کم از کم چار سو علماء اور فقہاء اس کے دسترخوان پر موجود نہ ہو ں یعنی بادشاہ کے دربار میں ہمہ وقت چار سو علماء اور فقہاء موجود رہتے تھے ۔نواب سعداللہ خان ایک مدرسہ سے فارغ تھے اور شاہ جہاں کے دور میں 48سال تک اس بر صغیر کے وزیر اعظم تھے ۔اس ملک کے مسلم دور کی ساری عمارات مہندس(یعنی انجینئراورآرکیٹیکٹ) ہمارے دینی مدارس کی چٹائیوں پر بیٹھ کر ریاضی وہندسہ سیکھنے والے طلباء تھے ۔بڑا احسان رہا اس قوم پر امام غزالی (کے احیاء العلوم)اور ابن تیمیہ کی(السیاسۃ الشریعہ ) کا جنہوں نے طب وہندسہ سمیت سارے جدید علوم نافع کا حصول مسلمانوں کے فرض کفایہ قرار دیا تا کہ اس قوم کا احتیاج ختم ہو جائے ۔

حصول علم کے محاذ پر پھر آخر معاملہ بگڑا کہاں؟ جب ملت اسلامیہ کی صفوں میں انتشار پیداکرنے کے لئے واویلا مچانا شروع کیا گیا کہ کو ن سی تعلیم دینی تعلیم یا دنیوی تعلیم ؟ دیکھتے ہی دیکھتے آرپار کی جنگ کے لئے صف بچھ گئیں،کچھ اس حد تک ایک آدھ ہزار سال قبل جب یونانیوں کے علم وفنون وطب کا ترجمہ عربی زبان میں شروع ہوا تو شور غل مچا کہ یہ یونانی علوم مسلمان فضلاء و علماء کیے دریافت کردہ نہیں ہیں ۔ ارسطو اور افلاطون مسلمان نہیں تھے اور انکا تیار کردہ علم منطق وطب مسلمانوں میں مقبول دیکھ کر کچھ افراد تو اس درجہ تلمائے کہ فتاوی جاری کئے گئے کہ یونانی علوم کا سیکھنا حرام ہے ۔ آج ان مضامین کی جگہ سائنس، ٹیکنالوجی اور انگریزی زبان نے لی ہے حالانکہ علم کے گم شدہ میراث کا تعلق سے عالمی سطح عربی قول ہی خوب خوب مقبول ہے :خذ ما صفا ودع ماکدر(جو صاف اور اچھا ہے اسے لے لو اور جو گندہ اور غلط ہے اس کو نظر انداز اور مسترد کردو) البتہ ہم علم نافع پر بھی لا حول کیسے بھیج سکتے ہیں ؟

1857ء میں مسلم قوم پر ہونے والے شب خون کے بعد سنجید ہ کوششیں بھی ہوئیں اس قوم کی نشاۃ ثانیہ کے لئے علی گڑھ مسلم یونیوسٹی،ندوۃالعلماء ،دارلعلوم دیوبنداور جامعہ ملیہ وغیرہ کی مثالیں ہیں مگر اس قوم کی بصیرت اور ویژن  اس درجہ کی کمی کو کیا کیجیئے کہ جب 1857ء میں علی گڑھ تحریک وجود میں آئی ہے اور ٹھیک اسکے 90سال بعد وہ اپنے علحیدہ مملکت کامطالبہ کر اپنے آپ ہیروشیما ناگاساکی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے(ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے ذکر میں شاید کسی کو شدّت نظر اے البتہ 20 برس پہلے پابندی کا شکار طلبہ کے تنظیم ارور اب دو روز قبل یو اے پی  اے جیسے سفاک قانون کے تحت پابندی جھیلنے والی تنظیم کے نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ سے دریافت کر لیجئے کہ کیا وہ کسی ہیرو شیما ناگا ساکی سے کم قیامت سے گزر رہے ہیں)

دراصل ہماری قوم کو جاگیرداری کے اس ظالمانہ نظام کی بیماری بھی لگ گئی جو انگریزی استعمار نے برصغیر میں قائم کیا تھا۔ ناخواندگی کا مرض بھی اسی نظام اور اسی ذہنیت کی پیداوار ہے۔ ناخواندگی کی تعریف دنیا بھر کے لغت میں جو کچھ بھی کی جاتی ہو، اسلامی نقطہ نظر سے ناگریز علم کا نہ ہونا، ناخواندگی ہے۔ ناگزیر علم سے مراد صرف روزی روٹی حاصل کرسکنے والا نہیں ہے بلکہ دانش، فہم و ادراک کا وہ کم سے کم معیار ہے جو انسان کو بیداری ضمیر کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھا دے۔ اس تعریف کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ناخواندگی کا ختم کیا جانا مسلمانوں کا اجتماعی دودینی فریضہ ہے۔

اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کا تعلق ااس ملک کے تعلیمی نظام سے جُڑا رہا اور اس کی تنزلی کی داستان بڑی طویل ہے البتہ آج ہم اس کامختصر جائزہ لیں گے۔ کئی صدیوں تک اس ملک کا تعلیمی نظام مدرسہ اور گروکل پر مشتمل تھا ۔ پھر انگریزی دور شروع ہوا۔ اس دور میں نظام تعلیم میں نمایاں تبدیلی کے لئے سب سے پہلا مشورہ تھامس میکالے نے پیش کیا ۔ وہ بھارت میں 1834 ء سے 1838 ء تک رہا مگر یہاں کے نظام تعلیم پر یورپی چھاپ چھوڑ نے کے لئے اس نے ایک منظم منصوبہ تیار کیا۔ جس میں سرفہرست مشورہ یہ دیا تھا کہ فارسی زبان کو ختم کر کے انگریزی زبان کو تعلیم کامیڈیم اپنایاجائے ۔ اس نے اپنی تحریروں سے پورے برصغیر کو یقین دلایا کہ فارسی، عربی اور سنسکرت زبانیں زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ انگریزی شاعری و ادب کو دنیا کی ساری زبانوں میں سب سے اعلیٰ وارفع ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔میکالے جیسی سوچ رکھنے والوں کی فرنگی حکومت میں کوئی کمی نہیں تھی۔ ان دو صدیوں میں عربوں کی تحقیق کا بھی طوطی بولتا تھا ،مگر انگریزوں نے ان سبھی تحقیقی مقالات اور کتب کو انگریزی زبان میں اپنانے کی دور اندیشی کا مظاہرہ کیا، اس طرح انگریزی زبان کو آب حیات مل گئی۔

1854ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آپ ڈائرکٹرس کے صدر چارلس اوڈے نے ہندوستانی تعلیمی اصلاحات کے لئے جو مراسلہ بھیجا تھا (جسے وڈس ڈسپاچ کہتے ہیں) اس میں اپنی تعلیمی پالیسی کو بالکل واضح کردیا تھا۔ اوڈ نے لکھا تھا کہ ہندوستانیوں کی تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو برطانوی تجارت کے لئے منافع بخش ثابت ہو اور جس سے کمپنی کو قابل اعتبار ملازمین فراہم ہوسکیں۔ جی ہاں انگریزوں نے تعلیمی نظام نہیں بلکہ ملازمتیں فراہم کرنے والی فیکٹریاں قائم کرنے کا ایک سسٹم رائج کیا تھا لہٰذا 1857ء میں مدراس ،ممبئی او رکلکتہ میں جو یونیورسٹیاں انگریزوں نے قائم کیں اس وقت انگریزوں نے ہندوستانیوں کو خواب یہی دکھایا تھا کہ ان یونیورسیٹوں سے جب انہیں سند ملے گی اس سے انہیں برطانوی حکومت کی ملازمتیں ملیں گی۔ یعنی انگریزوں نے اس ملک کو تعلیمی نظام کے نام پر جو مساوات دی وہ ہے : علم جاب۔ظاہر ہے اس مساوات کا نتیجہ ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام صرف روزی روٹی یا ملازمت کے ارد گرد گھوم رہا ہے ۔ اور اسی بنا پر آج معلومات عام ہورہی ہے مگر علم عام نہیں ہورہا ہے۔

2 اکتوبر،2022 ، بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/educational-journey-indian-muslims-foreground/d/128101

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..