New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 05:39 PM

Urdu Section ( 23 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Earthquake in Turkey: A Sign of God's Wrath or Mercy? ترکی کا زلزلہ: اللہ تعالی کا عذاب یا اللہ پاک کی رحمت

ترکی کا زلزلہ ، ظنی افکار و نظریات اور قرآن کریم کی روشنی

غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام

23 فروری 2023

فی الوقت ہم نے زلزلہ کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ حال میں ہی ترکی میں جو زلزلہ آیا ہے اس سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں ۔ بعض یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ زلزلہ اس لیے آیا ہے کہ اب قیامت کا وقت قریب ہو چکا ہے ۔ زلزلہ یقینا اللہ تعالی کی ایک نشانی ہے ۔ قرآن مجید میں بھی زلزلہ کے نام سے ایک سورت ہے ۔ اس سورت کی پہلی آیت میں اللہ رب العزت نے ایک زلزلے کا تذکرہ کیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ‘‘اذا زلزلت الارض زلزالها’’ یعنی جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں جس زلزلے کا ذکر ہے وہ زلزلہ ایسا ہے کہ پوری روئے زمین ہلا دی جائے گی اور کوئی حصہ باقی نہیں رہے گا اور اس کے نتیجہ میں پوری زمین سپاٹ کر دی جائے گی اور یہ واقعہ نفخ ثانی کے بعد ہوگا۔

کتب احادیث و روایات میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس زلزلے سے پہلے دنیا میں چھوٹے چھوٹے زلزلے آتے رہیں گے اور یہ زلزلے قرب قیامت کے وقت بہت زیادہ ہوں گے۔ امام بخاری نے ایک مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا تقوم الساعۃ حتی یقبض العلم و تکثر الزلازل یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ علم کو اٹھا لیا جائے اور زلزلے بہت زیادہ ہونے لگیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الاستسقاء، باب ما قیل فی الزلازل والآیات)

موجودہ زمانہ میں زلزلے کی کثرت کو دیکھ کر عام مسلمان اب یہ سوچنے لگے ہیں کہ زلزلوں کی بہت کثرت ہو چکی ہے ۔ کہیں نہ کہیں زلزلے کی خبر رہتی ہے ۔ قیامت سے قریب زمانہ آ چکا ہے ۔ لہذا ، اس بات کو یاد کرتے ہوئے وہ اپنے اعمال پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں آئیے ملکر اپنا محاسبہ کریں ، اپنے اعمال کو درست کریں اور اللہ تعالی کے فرمانبردار بندے بن جائیں ۔ اس کے برعکس بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ایسے زلزلے آتے رہیں گے اور یہ کہ یہ زندگی عیش و مستی کا نام ہے اور گناہ کرو یا ثواب کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ایسے مقام پر یقینا ایک مومن بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے برے اعمال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالی کے سامنے خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری کرے اور مغفرت و بخشش کا طلبگار ہو جائے ۔

لیکن کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں زلزلے اللہ تعالی کے غضب اور قہر کی نشانی ہے ۔ اللہ تعالی اس کے ذریعے ہمیں یہ درس دے رہا ہے کہ اے میرے بندوں تم نے بہت نافرمانیاں کر لیں ، اب بہت ہو چکا ، اب توبہ کرکے میری طرف آو ، مجھ سے معافی مانگو، میں تمہیں معاف کر دوں گا ۔کیا یہاں یہ پیغام ہے کہ اپنے رب کے عذاب سے خوف کھاتے ہوئے اپنے اعمال کی اصلاح کر لو ، کیونکہ تمہارا رب یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں تمہیں ایک وقتی عذاب کے ذریعے تمہیں ڈراکر تمہاری اصلاح کرے تاکہ تم آخرت کے دائمی عذاب سے محفوظ ہو سکو ؟ یہ بہت نصیحت آموز سوال ہے کیونکہ یہاں یہ سوال ہے کہ کیا رب تبارک و تعالی کی رحمت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ دنیا میں تم پر وقتی مصیبت کو نازل کرکے ایک طرح سے رحمت کی برسات کر رہا ہے کہ تاکہ تم آخرت کے دائمی عذاب سے محفوظ رہ سکو ۔ اس موقع پر ترکی میں ہوئے زلزلے میں عمارتوں اور مکانات سے بچ جانے والوں چھوٹے بچوں کے مناظر کو پیش نظر رکھیں کہ کس طرح وہ گھنٹوں ملبے کے نیچے رہنے کے باوجود زندہ محفوظ ہیں ۔ وہ رب یقینا جسے چاہتا ہے موت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے ۔

 ‘‘قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان الله یغفر الذنوب جمیعا انه هو الغفور الرحیم)

ترجمہ: (اے نبی ، علیہ السلام) تم فرمادو: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر (نافرمانی کرکے) زیادتی کر رکھی ہے، ﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقینی طو رپر جان لو کہ ﷲ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے (اگر تم معافی مانگو تو)۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا ہے اور بڑا مہربان ہے’’ (سورہ زمر ۳۹، آیت ۵۳)

ان خیالات کو قرآن کریم کی آیت کے ساتھ بیان کرنے کے بعد مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اللہ کے حضور توبہ واستغفار کریں اور اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کرنا شروع کر دیں، صدقہ وخیرات کی کثرت کریں، کیونکہ یہ اللہ رب تعالی کو بہت زیادہ پسند ہے اور غربا و مساکین کے درمیان صدقہ کرنے سے اللہ کی ناراضگی دور ہوتی ہے۔

 ایک حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: فان الصدقۃ تطفئی غضب الرب۔ یعنی صدقہ رب العالمین کے غضب کو بجھا دیتا ہے ۔ اور اس طرح وہ مسلمان دعا میں لگ جاتا ہے کہ یا اللہ ، تو ہمارے گناہوں کو معاف فرمادے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم )

ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ الله علیہ نے اپنے گورنروں کو پیغام بھیجا کہ ”سنو! اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں ۔ تم لوگ صدقہ خیرات کرتے رہا کرو اور استغفار میں لگے رہو۔ اس کے علاوہ تم سب حضرت آدم علیہ السلام کی دعا (ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخٰسرین) (اردو ترجمہ 'اے پروردگار !ہم نے اپنی جانوں پر (نافرمانی اور برے اعمال کرکے ) ظلم کیا ہے۔اگر تو ہمیں معاف نہ فرمائے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے) کثرت کے ساتھ پڑھا کرو۔“ (بحوالہ ‘‘الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی: 54-53)

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن مجید میں جس زلزلے کا ذکر ہوا ہے قیامت کے وقت ہوگا اور اس بات پر ہمارا ایمان ہے کیونکہ یہ قرآن کا پیغام ہے ۔ لیکن احادیث کی روایتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ قیامت سے پہلے جو چھوٹے چھوٹے زلزلے واقع ہوں گے ان میں سے ہر ایک زلزلہ بندوں کے برے اعمال کی وجہ سے ہوں گے یہ کلی طور پر اور یقینی طور پر کہنا تھوڑا مشکل ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ احادیث کا مفہوم اس طرح ہو کہ قیامت سے پہلے جو چھوٹے چھوٹے زلزلے آئیں گے ان میں سے اکثر بندوں کے برے عذاب کی وجہ سے ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایک زلزلہ نیک بندوں پر بھی آئے تاکہ ان کے صبر و شکر کا بڑا امتحان ہو جائے ۔ قرآن و احادیث کے کلمات کے معانی کو دل و دماغ سے سمجھنا ضروری ہے ۔ بنا سمجھے یہ نتیجہ نکالنا بھی درست نہیں کہ ہم قرآن کو مانیں گے اور احادیث کو نہیں مانیں گے ۔ اگرچہ متواتر احادیث کو چھوڑکر تمام احادیث سے حاصل ہونے والی معلومات ظنی ہوتے ہیں اور قرآن مجید کی طرح یقینی نہیں ہوتے ہیں لیکن ظنی علوم میں دو جانب ہوتے ہیں ایک ممکن اور دوسرا ناممکن ۔ حدیث جس عالی درجہ اور قوی مستند ہوگی اعتبار اتنا ہی زیادہ ۔ لہذا ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ تمام چھوٹے چھوٹے زلزلے صرف ان کے لیے ہی ان کے برے اعمال کا نتیجہ ہے بلکہ دوسرا امکان بھی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ زلزلے ان کے لیے ان کے صبر کا امتحان ہو ۔ اس نکتہ کو آنے والی عبارت میں واضح طور پر سمجھیں گے ۔

بلا شبہ زلزلہ اللہ تعالی کی نازل شدہ نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ، جنہیں وہ ایک عظیم حکمت کے تحت زمین میں برپا کرتا ہے اورابتدا تا انتہا اللہ تعالی کا حکم ہی چلتا ہے ۔ وہ مالک ہے جو چاہے کرے ۔ ہر چیز اسی کی مرضی سے واقع ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی اپنے بندوں پر بڑا مہربان بھی ہے ۔ اس کی رحمت اس کے غصے پر غالب ہے ۔ اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ۔ مومن ہو کافر ، مسلم ہو یا غیر مسلم، کسی بھی برادری اور کسی بھی ذات اور کسی بھی ملک سے ہو ، ہر ایک پر اس دنیا میں اللہ کی رحمت ہے ۔ لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ اس کی رحمت پر ہی اعتبار کر لیا جائے اور اس کے دنیاوی و اخروی عذاب کو بھول جایا جائے ، اس کے اجر و ثواب پر اعتبار کر لیا جائے اور اس کی سزا سے غافل ہو جائیں ۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اس کی رحمت اور معافی کی امید رکھتے ہوئے تمام برے عقائد اور اعمال کو اپنا لیا جائے ۔

جس طرح سے اللہ تعالی کی رحمت کو یاد کرنا ایک مسلم بندے کے لیے عبادت ہے اسی طرح اس کے عذاب کو یاد کرنا بھی اس کے لیے عبادت ہے ۔ رحمت کو یاد کرکے ایک بندہ اپنے اچھے ایمان و اعمال پر خوش ہوتا ہے اور اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور وہ اللہ کے عذاب کو یاد کرکے برے اعمال کوکرنے سے ڈرتا بھی ہے کہ اس کا رب اس سے ناراض ہو جائے گا ۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے متعدد مواقع پر اپنے عذاب کا ڈر سنایا ہے ۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ ﴿٩٧﴾‏ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ﴿٩٨﴾‏ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٩٩

ترجمہ: ‘‘کیا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سوتے ہوں

‘‘یا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آئے جب وہ کھیل رہے ہوں

‘‘کیا اللہ کی خفی تدبیر سے بے خبر ہیں تو اللہ کی خفی تدبیر سے نذر نہیں ہوتے مگر تباہی والے’’

 (سورہ اعراف ۷ ، ۹۷، ۹۸، ۹۹)

ان آیات کو اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرکے مشکرین مکہ کو تعلیم دی کہ کیا وہ اللہ کے عذاب سے بے خوف ہو گئے ہیں۔ شرک و کفر کو اپنانے کے ساتھ بیشتر برے اعمال اور زمین پر فساد پھیلانے میں وہ کیا اس قدر ملوث ہو چکے ہیں کہ انہیں اب عذاب الہی کا خوف ہی نہ رہا ۔ ان آیات میں انہیں ڈرایا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی غفلت کے اوقات مثلا رات کو سوتے وقت یا دن میں اس وقت جب یہ کھیل کود میں پڑے ہوں اور ان پر اللہ کا عذاب آجائے اور انہیں توبہ و معافی کا موقع بھی نہ مل سکے کیونکہ عذاب الہی اکثر غفلت کے وقت آتاہے اور غفلت زیادہ تر رات کے سوتے وقت اور دن میں مصروف عمل کے وقت ہوتی ہے ۔

ان آیات سے پہلے اللہ تعالی نے قوم نوح ، قوم ثمود اور قوم مدین وغیرہ کے کفار کا تفصیلی اور اجمالی واقعہ بیان فرمایا۔ ان واقعات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس سورہ کے علاوہ دیگر سورتوں میں مختلف مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے ۔ قوم نوح کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایک خدا پر ایمان لانے اور ایک خدا کی عبادت کرنے اور اپنی رسالت کی تصدیق کرنے کی دعوت دی تو ان کی قوم کے بعض لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی ۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ان پر سیلاب کا عذاب نازل فرماکر انہیں ہلاک کر دیا ۔

قوم ثمود کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو ایک خدا کی عبادت کرنے اور زمین پر فساد کرنے سے باز رہنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور پھر مسلسل طرح طرح کے جرائم میں مشغول رہے حتی کہ اللہ تعالی نے ان پر عذاب نازل فرماکر انہیں ہلاک کر دیا ۔

 قوم مدین کا واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت شعیب علیہ السلام نے مدین کے لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کرنے، فساد سے باز رہنے اور اپنی رسالت کی تصدیق کرنے کی دعوت دی تو اس قوم نے حضرت شعیب علیہ السلام کا مذاق اڑایا اور کفر کیا تو اللہ تعالی نے ان پر زلزلے کا عذاب نازل فرماکر انہیں ہلاک کر دیا ۔

اسی طرح قوم لوط اور فرعونیوں کے واقعات کو بھی پیش نظر رکھیں ۔ ان واقعات کو اللہ تعالی نے اپنے پیارے نبی علیہ السلام کے ذریعے سے تمام بستی والوں کے لیے بیان کیا تاکہ وہ پچھلی امتوں کے واقعات پر غور کرکے عبرت حاصل کریں اور اپنے عقائد کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال بھی درست کریں۔

ان آیات میں جہاں کفار کو اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے وہیں ہر دور کے مسلمانوں کے لیے بھی اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہنے ، نیک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔ سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۲ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

ترجمہ: ‘‘اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے’’

قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی عذاب وغیرہ کا ذکر آیا ہے وہاں اس ذکر کا مقصد نفوس انسانیہ کے عقائد اور اعمال کی اصلاح مقصود ہوتا ہے ۔

ہم زلزلے کے موضوع پر بات کر رہے تھے ۔ اس نکتہ کو سمجھنا قرآن کریم کی روشنی میں بہت آسان ہو چکا ہے کہ زلزلے بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ اس سے درس حاصل کریں اور اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کریں ۔ یہاں یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ کسی ایک خاص قوم پر زلزلہ آجائے تو اس وقت اس سے جو درس ملتا ہے وہ صرف اسی خاص قوم کے لیے نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ درس اس زمانے میں رہنے والے تمام انسانوں کے لیے ہوتا ہے ۔ یہاں یہ سبق بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی پر کوئی مصیبت آ جائے تو بجائے اس کا مذاق بنانے کے اس واقعہ کو اپنے لیے درس مانیں، توبہ و استغفار کرکے اپنے عقائد و اعمال کو درست کریں اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا بھی خیال رکھیں ۔

یہاں یہ بات وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ابھی حال ہی میں ترکی میں جو زلزلہ آیا ہے اس دردناک واقعہ سے میں یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکال سکتا کہ ترکوں اور شامیوں نے کوئی بڑا گناہ کیا ہوگا تبھی یقینی طور پر یہ زلزلہ ان پر آیا ۔ مجھے اس بات کا کوئی یقینی علم نہیں بلکہ حقیقت حال اللہ تعالی بہتر جانتا ہے ۔ قرآن وسنت کے مطالعہ سے جو بات ہمیں سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسانوں پر مصیبتیں کبھی تو ان کے برے اعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں اور کبھی وہ مصیبتیں محض امتحان صبر و آزمائش ہوتے ہیں ۔ اوپر ہم نے ملاحظہ کر لیا کہ بعثت اسلام سے قبل پچھلی امتوں پر جو عذاب نازل ہوئے وہ ان کے برے عقائد و اعمال کی وجہ سے تھے اور اس کے علاوہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کبھی مصیبتیں اللہ کے نیک بندوں پر نازل ہوتے ہیں لیکن اس وقت ان مصیبتوں کے وقت صبر کا بڑا امتحان ہوتا ہے ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَيْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَo

ترجمہ: ‘‘اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے تھوڑا خوف دے کر ، کچھ بھوک کے ذریعے سے، کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کو کم کرکے (آزمائیں گے، اور اے حبیب !) تم خوشخبری سنا دو ان لوگوں کو جو (آزمائش پر) صبر کرنے والے ہیں۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۵۵)

 اگر صبر کی فضیلت دیکھنی ہے تو ہمیں صبر ایوب کے واقعہ کو پیش نظررکھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک انتہائی دردناک مرض میں مبتلا کیا ، ان کی ساری دولت چھین لیا ، لیکن حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا حال یہ ہے کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ مصیبت اور خوشحالی کا مالک اللہ تعالی ہے ، اللہ تعالی سب کا مالک ہے اور مالک کو یہ پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جو چاہے دے اور اس سے جو چاہے لے ۔ صوفیائے کرام کی تعلیمات کا اندازہ لگائیں تو معلوم ہوگا کہ مصیبت بھی ایک طرح سے اللہ کی نعمت ہے کیونکہ یہ اللہ کی مرضی سے آتی ہے اور جس چیز میں رب العالمین کی مرضی ہو اس سے اللہ کے محبوب بندوں ہمیشہ راضی رہتے ہیں ، بلکہ شکر بجا لاتے ہیں ۔ تقریبا اٹھارہ سالوں تک حضرت ایوب علیہ السلام اس مرض میں مبتلا رہے اور پھر اللہ تعالی نے ان کے ایک لمبے امتحان کے بعد انہیں پھر سے وہ ساری چیزیں عطا کیں جو ان سے لے لئی گئی تھی ، یعنی ان کی اولاد ، ان کی جوانی اور صحت اور ان کے باغات وغیرہ ۔

ترکی میں جو زلزلہ آیا اس کے تعلق سے ہم یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ زلزلہ ان کے برے اعمال کی وجہ سے آیا یا یہ کہ ان میں نیک بندے بھی ہیں جنہیں اس مصیبت پر صبر و شکر کے کڑے امتحان میں آزمایا گیا ہے ۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔

اللہ تعالی ہم انسانوں پر رحم فرمائے اور ہمیں ایمان کی درستگی کے ساتھ ساتھ اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

-------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/earthquake-turkey-god-wrath-mercy/d/129177

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..