New Age Islam
Mon May 12 2025, 08:01 PM

Urdu Section ( 2 Apr 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Forty Dreams Shattered as Girls Prefer Hijab to Education چالیس خواب چکنا چور، کیونکہ لڑکیوں نے تعلیم پر حجاب کو ترجیح دی

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم نسواں کے فروغ کے لیے مزید اسکول اور کالج قائم کریں

اہم نکات:

1.   اڈوپی میں 40 مسلم لڑکیاں امتحان میں حصہ نہیں لے رہی ہیں

2.   انہیں حجاب پہن کر امتحان گاہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا

3.   اکثر لڑکیاں حجاب پر امتحانات کو ترجیح دیتی ہیں

----

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

31 مارچ 2022

(Photo: OneIndia for Representative Purpose)

------

کرناٹک میں حجاب کے نزاع نے ان چالیس مسلم لڑکیوں کے تعلیمی مستقل کو نقصان پہنچایا ہے جنہوں نے تعلیم پر حجاب کو ترجیح دی ہے۔ جب انہیں حجاب پہن کر امتحان گاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تو انہوں نے اپنا امتحان ہی ترک کر دیا۔

ان لڑکیوں کے بڑے بڑے سپنےتھے اور وہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، وکیل، جج یا فیشن ڈیزائنر بننا چاہتی تھیں لیکن اب ان کے مستقبل کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ انہیں پردے کے بارے میں جو تعلیم دی گئی تھی اس سے ان کے رویے میں سختی پیدا ہو چکی ہے۔

نوجوان مسلم لڑکیوں کے درمیان پردہ یا حجاب کا رجحان زیادہ پرانا نہیں ہے۔ آج سے بیس برس قبل بھی مسلم لڑکیاں بغیر حجاب کے اسکول، کالج اور یونیورسٹی جاتی تھیں۔ بس وہ ایک مہذب لباس کا خیال رکھتی تھیں۔ والدین کو بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی نہیں کی اس لیے مدارس صرف لڑکوں کے لیے کھولے گئے اور لڑکیوں کو گھر میں ہی تعلیم دی جانے لگی۔

ہندوستان کے ہر قصبے میں لڑکوں یا لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے اسکول علمائے کرام نے نہیں بلکہ سماجی کارکنوں اور ماہرین تعلیم نے قائم کیے تھے جو تعلیم کی اہمیت کو جانتے اور سمجھتے تھے۔ اس کی ایک زندہ مثال سر سید احمد خان ہیں۔ علمائے کرام نے صرف لڑکوں کے لیے ہی مدرسے کھولے۔ اگرچہ وہ رسمی طور پر کہتے تھے کہ تعلیم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ضروری ہے لیکن وہ اس میں کبھی مخلص نہیں تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ خواتین کو صرف اپنے گھر کا کام کاج ہی دیکھنا چاہیے۔ وہ مردوں کے ساتھ مل کر دفاتر میں کام نہیں کر سکتیں اور ان کی کمائی بھی ان کے گھر والے قبول نہیں کر سکتے۔ اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ کافی مشہور ہے۔

لہٰذا آج جو لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ علماء سے متاثر نہیں ہیں کیونکہ علمائے کرام نے انہیں کبھی اسکولوں یا کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب نہیں دی۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو لڑکیاں علماء کی مرضی کے خلاف کالج جاتی ہیں وہ حجاب یا پردے کے بارے میں ان علماء کے افکار سے غیر ضروری طور پر متاثر ضرور ہوتی ہیں۔ امتحانات پاس کرنے اور کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، یہ لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر نکلیں گی اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر ملازمتیں تلاش کریں گی جہاں انہیں مرد پروفیسر یا معلمین کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگر وہ ڈاکٹر بنتی ہیں، تو انہیں مرد ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا اور ہر طرح کے مرد مریضوں کو بھی معالجے کے لیے دیکھناپڑے گا۔ اگر وہ انجینئر بن گئیں تو انہیں بھی اسی کشمکش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور جب مہینے کے اختتام پر وہ اپنی تنخواہ گھر لے کر آئیں گی تو ان کے گھر والے اسے قبول نہیں کریں گے کیونکہ یہ ان کے لیے حرام ہوگا۔

اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ زیادہ تر اسلامی ممالک میں خواتین زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ دیوبند کے فتوے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ جب 1995 میں دیوبند کے اسلامیہ انٹر کالج نے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی تو علماء نے اس کے خلاف اپنی آوازیں بلند کیں لیکن والدین نے اپنی بیٹیوں کو کالج بھیجنا قبول کیا۔ والدین نے علماء کے اعتراضات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

بیس برس قبل طالبات کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ کرناٹک کی لڑکیوں کے ساتھ یہ صورت حال اس لیے درپیش ہے کیونکہ وہاں مذہب کی انتہاپسندانہ تشریح کو زیادہ مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کو زبردستی برقع پہنایا جاتا ہے اور ہندوستان میں لڑکیاں زبردستی اپنے اوپر حجاب مسلط کر رہی ہیں۔

یہ صرف ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی شناخت پر مبنی مذہبیت کا نتیجہ ہے۔ بعض بنیاد پرست اور قدامت پسند علماء چہرے کے مکمل پردے کی بات کرتے ہیں سوائے دائیں آنکھ کے سامنے ایک سوراخ کے، حالانکہ قرآن اور حدیث میں اس قسم کے پردے کا کوئی حکم نہیں ملتا ہے۔ ایک کثیر ثقافتی معاشرے میں جہاں مسلم خواتین دوسرے مذہب کی عورتوں کے ساتھ مساوی نظر آنا چاہتی ہیں، وہ خود پر اس قدر سختی مسلط نہیں کر سکتیں کہ معاشرے میں خود کو پوشیدہ رکھیں۔ خواتین کو پوشیدہ رکھنے کے چکرمیں انہوں نے ان خواتین کو سب کی نظروں میں اجاگر کر دیا ہے جس سے ان کے لیے مسائل پیدا کر ہو گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق آر این شیٹی پی.یو کالج کی 28 میں سے 13 طالبات نے امتحانات میں شرکت کی۔ اڈپی بھنڈارکر کالج کی 5 میں سے 4 لڑکیوں نے امتحانات میں شرکت کی۔ شاردا کالج کی تمام مسلم لڑکیوں نے امتحان میں شرکت کی۔ دو دیگر کالجوں میں، 10 یا 8 میں سے صرف 2 طالبات نے امتحانات میں شرکت کی۔

ظاہر ہے کہ کچھ لڑکیوں کے لیے ان کا مستقبل اور ان کا کیرئیر حجاب سے زیادہ اہم تھا۔ کچھ کالج گرلز کالج ہیں جہاں لڑکیوں کو بغیر حجاب کے امتحان میں شرکت کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔

ان لڑکیوں سے پہلے جنہوں نے حجاب پر پابندی کی وجہ سے اپنا امتحان چھوڑ دیا، کچھ مسلم خواتین نے اپنی ملازمت سے بھی استعفیٰ دیا ہے کیونکہ وہ حجاب نہیں چھوڑ سکتیں تھیں۔ اگر وہ ایک کثیر ثقافتی معاشرے میں حجاب کے اتنے سخت تصور پر عمل پیرا رہیں تو ان لڑکیوں کو ابھی نہیں تو مستقبل میں ضرور اسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مسلم لڑکیوں کے اندر موجودہ ثقافتی تذبذب کے لیے مسلم دانشور بھی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو بھلے ہی دیر سے سمجھا لیکن لڑکیوں کے لیے اسکول اور کالج قائم کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے۔ انہوں نے بس اپنی لڑکیوں کو حجاب پہننے اور اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھنے کی ہی ترغیب دی، لیکن کیا کیا جائے اب تو وہ اپنی لڑکیوں کو غیر مسلموں کے قائم کردہ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے کے لیے بھیجنے پر مجبور ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں تو انہیں ہر شہر میں لڑکیوں کے لیے اسکول اور کالج کھولنے چاہئیں۔ دراصل لڑکیوں کے اسکولوں کو اب مسلم معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہو جانا چاہیے۔

حجاب کے اس موجودہ تنازع سے اب مسلم معاشرے کا اجتماعی شعور بیدار ہو جانا چاہیے۔ تعمیری نقطہ نظر کا کام ہر طرح کے بحران میں موقع تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اور حجاب کے موجودہ بحران میں بھی مسلمانوں کے لیے ایک موقع ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ لڑکیوں کے لیے اسکول، کالج اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قائم کرنے کی ایک طویل مدتی پالیسی بنائیں جہاں مسلمان لڑکیاں تعلیم حاصل کرسکیں اور حجاب اتارنے پر مجبور نہ ہوں۔ اگر کوئی پرادری اپنی مذہبی شناخت اور اپنی خواتین کے بارے میں اس قدر فکرمند ہے تو اسے اپنی خواتین کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہئے اور نہ ہی کسی سے مراعات کا طلب گار ہونا چاہئے۔

English Article: Forty Dreams Shattered as Girls Prefer Hijab to Education

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/dreams-girls-hijab-education/d/126709

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..