ودود ساجد
26نومبر،2023
40 ہزار ٹن سے زیادہ بم برسانے کے بعد آخر کار وحشی درندہ چار روزہ
جنگ بندی پر راضی ہوگیا۔اسرائیل نے آنے والے سرکاری بیانات کے لہجہ سے معلوم ہوتا
ہے کہ بظاہر وہ اپنے یرغمال شہریوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لئے اس عارضی جنگ
بندی پرراضی ہوا ہے اور فلسطین کے بے قصور شہریوں کی اسے اب بھی کوئی پرواہ نہیں
ہے۔ جنگ بندی کے عملی نفاذ میں ایک دن تاخیر بھی ہوئی او را س دوران اسرائیل کے
درندہ صفت فوجیوں نے مزید شدت کے ساتھ معصوم بچوں اور عورتوں پر بم بھی برسائے۔ اس
موضوع سے متعلق مختلف رپورٹوں اور تجزیوں کا سرسری جائزہ بتاتاہے کہ اسرائیل کو
جنگ بندی پر ’مجبور‘ کرنے کے اور بھی کئی اسباب وعوامل ہیں۔ ان میں حماس کے ذریعہ
برسائے جانے والے راکٹوں کی غیر معمولی تعداد اور خود اسرائیل کی اقتصادیات کو
پہنچنے والے غیر معمولی نقصان کو دو سب سے بڑے اسباب قرار دیا گیا ہے۔
جنیوا میں قائم حقوق
انسانی پرنظر رکھنے والی تنظیم (یورو۔میڈمانیٹر) نے دعوی کیا ہے کہ خود اسرائیل کے
اعترافی بیان کے مطابق وہ دونومبر تک غزہ میں 12 ہزار بم برسا چکاہے۔ اس بمباری کی
زد میں آنے والے فلسطینیوں کی تعداد کی رو سے یہ حساب بھی لگایا گیاہے کہ اسرائیل
نے فی کس فلسطینی کے سر پر دس کلو گرام سے زیادہ باردد برسایا ہے۔ اگست 1945 میں
دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر امریکہ نے جاپان کے شہر ’ہیروشیما اور ناگا ساکی‘ پر
جو بارود برسایا تھا اس کا وزن 15ہزار کلو گرام کے قریب تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
اسرائیل نے غزہ میں تین ہیرو شیما او رناگا ساکی کے برابر تباہی مچائی ہے۔بمباری
کے وقت ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی رقبہ 900 مربع کلو میٹر تھا جب کہ غزہ محض 360
مربع کلو میٹر رقبہ میں مشتمل ہے۔ یہ فرق بھی ملحوظ رہے کہ اب سے 77-78 سال پہلے
وہ عسکری ٹکنالوجی نہیں تھی جو آج ہے۔ لہٰذا تباہی وبربادی کی جو شدت ہیروشیما او
رناگا ساکی میں ریکارڈ کی گئی تھی غزہ میں اس سے کئی گناہ واقع ہوئی ہوگی۔ ابھی اس
کا تجزیہ کیا جانا باقی ہے کہ غزہ میں اس تباہی کے کیا دو ر رس اثرات مرتب ہوں گے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیل بھاری تباہی مچانے والے بم استعمال کرتاہے۔ اس کے پاس 150
کلو سے لے کر ایک ہزار کلو تک کے بم ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع (جنگ) یووا گالانت
نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے دس شہزار بم تو صرف غزہ شہر پر ہی برسائے ہیں۔
حقوق انسانی پر نظر رکھنے
والی مذکورہ تنظیم نے او ربھی کئی خوفناک حقائق کو دستاویزی شکل دی ہے۔مثال کے طور
پر اس نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے عالمی سطح پر ممنوع ہتھیار بھی اہل غزہ پراستعمال
کئے ہیں۔ ان میں کلسٹر بم اور فاسفورس بم شامل ہیں۔ ان سے جو آکسیجن پیدا ہوتی ہے
وہ تین گنا جلن کا احساس کراتی ہے۔رپورٹ کی جزئیات بہت بھیانک ہیں۔ اسرائیل ایک
طرف جہاں بڑی تعداد میں اہل غزہ کو مارنا چاہتاہے وہیں وہ غزہ کی فضا میں ایسے
زہریلے کیمکل گھولنا چاہتاہے کہ زندہ رہ جانے والے فلسطینی موت کی خواہش کریں۔ زیر
بحث 48 روزہ جنگ میں اس نے یہی سب کیا ہے۔ اس کے باوجود وہ نہ صرف حماس کے بلکہ
عام فلسطینیوں کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہا۔ جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی قید سے
چھوٹ کر 39 فلسطینیوں کا جو پہلا گروپ آیا اس کے استقبال کے لئے پورا غزہ سڑکوں پر
نکل آیا۔ جس غزہ میں 13 ہزار سے زیادہ شہداء کے کفن کا خون ابھی اجتماعی قبروں کی
مٹی میں خشک بھی نہیں ہوا وہاں 39 فلسطینیوں کی رہائی پر ایسا جشن اس امر کا غماز
ہے کہ وحشی درندہ کا 40 ہزار ٹن بارود اہل فلسطین کو ان کے اصل مقصد سے نہیں بھٹکا
سکا ہے۔
اسرائیل اپنی زندگی کے
بدترین دور میں ہے۔ اس جنگ نے اسے عدیم المثال اورغیر معمولی نفسیاتی، مالی،
عسکری، اقتصادی، سیاسی اور سفارتی نقصان پہنچایا ہے۔40 ہزار ٹن بارود ہوا میں تیار
نہیں ہوجاتا۔ اسرائیل نے اس بارود کو زیادہ سے زیادہ خطرناک او رمضرت رساں بنانے
کے لئے اپنے دفاعی بجٹ کا کتنا حصہ خرچ کیا ہوگا اس کا اندازہ اسرائیل کے ریزروبینک
کی تشویشات سے لگایا جاسکتاہے۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کا عوامی بجٹ افراتفری کا
شکار ہوگیا ہے اس گھریلو شرح نمو گرگئی ہے اور اس کی کرنسی ’شیکل‘ کی قیمت بہت
نیچے آگئی ہے۔ گو کہ ماہرین اقتصادیات کاخیال ہے کہ جنگ کاماحول ختم ہوتے ہی
اقتصادی احوال میں بہتری شروع ہوجائے گی لیکن عسکری امور کے ماہرین کاکہناہے کہ
2007 کے بعداسرائیل کو حماس کے ساتھ چار جنگوں کے مقابلہ میں اس بار زیادہ بڑی جنگ
کا سامناہے۔ غزہ اور اسرائیل میں عارضی جنگ بندی کے بعد کے عوامی مناظر بتاتے ہیں
کہ یہ جنگ برابری کی سطح پر بھلے ہی نہ لڑی گئی ہو لیکن جنگ کا خاتمہ جب بھی ہوگا
نہ صرف برابری کی سطح پر ہوگا بلکہ بعض امور میں اسرائیل کو زیادہ بڑی ہزیمت
اٹھانی پڑے گی۔
ستمبر 2023 میں نتن یاہو
نے کہا تھاکہ مشرق وسطیٰ میں اب ایک نئے
پر امن اور ترقی وخوشحالی کے دور کا آغاز ہونے والا ہے کیونکہ اب خطہ کے ممالک میں
اس کی ’قبولیت‘ بڑھتی جارہی ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ ایک طرف جہاں متحدہ
عرب امارات جیسے ملک نے اسرائیل سے مراسم قائم کرلیے ہیں وہیں حکومت سعودی عرب نے
بھی یہ انکشاف کیاتھا کہ دونوں ممالک ہر دن ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ یہ درست
ہے کہ ولی عہد بن سلمان نے واضح طور پر کہا تھاکہ مسئلہ فلسطین کا حل’اسرائیل سے
تعلقات کی استواری کامحور ہوگا۔لیکن دوسرے ملکوں نے مسئلہ فلسطین کا ذکر ہی چھوڑ
دیا تھا۔ اسرائیل نے بھی کبھی ایساکوئی اشارہ نہیں دیا کہ اب جب کہ عرب دنیا میں
اس کی ’قبولیت‘ میں اضافہ ہورہاہے تو وہ فلسطین کے مسئلہ کو اولیت کے ساتھ حل کرنے
کی نیت رکھتاہے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل فلسطین کو محسوس ہوا کہ ہر چند کہ عرب چاہتے
ہیں کہ مسئلہ فلسطین حل ہولیکن اسرائیل ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ 7اکتوبر کو
حماس کے غیر متوقع حملہ نے پوری بساط ہی الٹ دی او رجو اسرائیل خطہ میں اپنی روز
افزوں قبولیت کے سہارے پورے خطہ کی غیر معمولی ترقی کی ضمانت لے رہاتھا آج وہ خود
اپنی اقتصادی بدحالی کے بھنور میں ہے۔
یہودی قلم کار ’امی ٹائی
بیل‘ نے لکھا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ کے چار ہفتوں میں ہی اسرائیل کے خواب ٹوٹ
پھوٹ کاشکار ہوگئے ہیں۔ 3لاکھ 60ہزار ریزروفوجیوں کو محاذ جنگ پر بلانے او رخطرہ
کے پیش نظر ڈھائی لاکھ شہریوں سے ان کے مکانات خالی کرانے کے سبب بڑے پیمانے پر
کاروبار بندہوگئے ہیں مال اور اسٹورخالی پڑے ہیں بہت سی ایئر لائنز نے اسرائیل کو
آنے والی سینکڑوں پروازیں منسوخ کردی ہیں ہزاروں سیاحوں نے اسرائیل آنے کا منصوبہ
ترک کردیاہے،قدرتی گیس کا کلیدی ’فیلڈ‘بند کردیا گیا ہے زرعی مزدوروں کی عدم
دستیابی کے سبب بڑے پیمانے پر فصلوں کو ضائع کردیا گیا ہے اور صنعت کاروں نے دسیوں
ہزار نوکریوں کو عارضی چھٹی پر بھیج دیا ہے۔
اسرائیل کو جنگ کے بعد
سنبھلنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔300 بڑے صنعت کاروں نے نتن یاہو او را س کے وزیر
خزانہ کو ہوش میں آنے کے لئے للکارا ہے۔وزارت خزانہ نے پریشان حال صنعتکاروں کو
ایک بلین ڈالر کی مدد کا پروپوزل پیش کیاہے۔ ناقدین نے بہت سے گھریلو پروجیکٹس کو
منسوخ کرکے اس کاپیسہ اقتصادیات کو پٹری پر واپس لانے کے لئے مختص کرنے کو کہا ہے۔
ان پرجیکٹس میں نو آبادکاری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اسرائیل کے نزدیک نو آبادکاری
کا شرارت آمیز منصوبہ بہت اہم ہے۔ غزہ او رمغربی کنارہ سے متصل نو تعمیر بستیوں
میں ایسے شر انگیز یہودیوں کو بسایا جاتاہے جو فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل چھیڑ چھاڑ
کو کرتے رہتے ہیں۔اسرائیل میں ’تمار نیوچرل گیس فیلڈ‘ کا کام بھی روک دیا گیا ہے۔
اینرجی ایکسپرٹ امت مور نے کہا ہے کہ اس فیلڈ کا کام روک دئے جانے سے ہر مہینہ
200بلین ڈالر کانقصان ہوگا۔ گھریلو انڈسٹری یا اسٹارٹ اپ میں 2021 میں 27 بلین
ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔2022 میں وہ تقریباً نصف رہ گئی۔ اس سال کے نصف اوّل
میں سرمایہ کاری 68 فیصد گرگئی ہے۔ عدلیہ کے پر کترنے کی نتن یاہو کی کوششوں کی
بھی صنعتکاروں نے زبردست مخالفت کی ہے۔ نتن یاہو کی حکومت کہتی ہے کہ غیر منتخب
عدلیہ کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے۔ لیکن عدلیہ کی آزادی کے حامی عدلیہ کی طاقت کو
حکومت کو قابو رکھنے کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں۔
اس جنگ کے لئے حماس ہی
نہیں بلکہ بیشتر ممالک بھی امریکہ کو ہی ذمہ دار قر ار دے رہے ہیں۔ بیشتر عرب
ممالک میں اسی کے خلاف عوامی غصہ پھیلا ہوا ہے۔ صدر جوبائیڈن نے جس طرح نتن یاہو
کو بمباری پر اکسایا اور جس طرح اس کی مادی او رعسکری مدد کی اسے مظلوم فلسطینی
فراموش نہیں کر پائیں گے۔امریکہ اسرائیل کو ہر سال 3.8 بلین ڈالر دفاعی بجٹ میں
مدد کے لئے دیتاہے۔ اس جنگ کے لئے بھی اس نے خطیر رقم کی مدد منظور کی ہے۔ لیکن اس
سب کے باوجود حماس نے جس پیمانے کامقابلہ کیاہے اس نے اسرائیل کے ہوش اڑادئے
ہیں۔مختلف رپورٹوں کے مطابق اس وقت حماس کے پاس 30تا 40 ہزار تربیت یافتہ اور مقصد
کے تئیں مکمل طور پر وقف جنگجو ہیں۔ اس جنگ کا حساب کتاب رکھنے والے ماہرین نے
بتایا ہے کہ حماس نے ابھی تک اسرائیل پر سات ہزار راکٹ برسائے ہیں۔ ان میں بہت سے
راکٹ نشانوں پر گرے ہیں او راندرون اسرائیل یہاں تک کہ راجدھانی تل ابیب میں بھی
ان راکٹوں نے بے نظیر نقصان پہنچایا ہے۔ ان میں سے اکثر راکٹوں کو اسرائیل کے
دفاعی سسٹم ’آئرن ڈوم‘ نے فضا میں ہی مار گرایا۔ ایک راکٹ کو مار گرانے پر 60ہزار
ڈالر کا خرچ آتاہے۔اسرائیل کب تک اتنی مہنگی جنگ لڑسکتا ہے؟ اس سوال پر خود اندرون
اسرائیل سیاسی جماعتوں او ر عوامی حلقوں کے درمیان بڑی بے چینی ہے۔
ایک بڑا سوال اسرائیل او
را س کے حامیوں کے سامنے یہ ہے کہ حماس کو اس جنگ میں کتناجانی نقصان پہنچا؟ ان کے
لئے اس کا جواب انتہائی مایوس کن ہے۔ ابھی تک حماس کے کسی قابل ذکر لیڈر تک
اسرائیل کو فورسز نہیں پہنچ سکی ہیں۔ کسی قابل ذکر لیڈر کے مارے جانے کی بھی کوئی
مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ اس کے برخلاف بڑی تعداد میں اسرائیل کے فوجی مارے جاچکے ہیں،
سو سے زائد قیمتی ٹینک اڑادئے گئے ہیں۔ ایک ’میر کافا‘ ٹینک کی قیمت 35لاکھ ڈالر
ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کے میدان جنگ میں ہی حماس نے اسرائیل کو
کتنا مالی نقصان پہنچادیا ہے۔ کرنل(ریٹائرڈ) راجیو اگروال نے لکھا ہے کہ حماس سے
اسرائیل کی طاقت کاکوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسکے باوجود اگر حماس نے اسرائیل
کو نفسیاتی ’اقتصادی‘ سلامتی اور انٹلی جنس کے محاذ پر اتنی بڑی شکست دی ہے تو
اسرائیل کے مستقبل کی صورت گری کا اندازہ لگانامشکل نہیں ہے۔ یہ مرحلہ عرب دنیا کے
لئے بھی آسان نہیں ہے۔عرب حکمرانوں نے پوری دنیا کے انصاف پسندوں کو مایوس کیا ہے۔
وہ 57 ہوکر محض ایک کے سامنے کمزور او ربے بس ثابت ہوئے ہیں۔ اگر یہ مرحلہ ان کے
لئے ایک امتحان تھا تو اس امتحان میں بھی وہ ناکام ہوگئے۔
26 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism