ڈاکٹر نیرمسعود
26 دسمبر 2021
۱۹۶۹ء
میں غالب صدی تقریبات عالمی پیمانے پر منائی گئیں جن کے نتیجے میں غالبؔ کی شہرت کا دائرہ دیکھتے دیکھتے نہایت وسیع ہوگیا۔ اسی
کے ساتھ غالبؔ اور ان کے فن سے ہماری واقفیت کا دائرہ بھی وسیع ہوا۔ ان تقریبات کے
دوران غالبؔ کی شخصیت اور فن کے اُن گوشوں
پر بھی روشنی پڑی جن پر ابھی تک زیادہ یا بالکل غور نہیں ہوا تھا۔ اب یہ
غالبؔ کے فن کی قوت اور اُن کی شخصیت کے
پیچ و خم کا کرشمہ تھا کہ سیکڑوں کتابیں اور ہز اروں مضمون مل کر بھی اُن کو کسی
دائرے میں گھیر نہیں سکے، البتہ ان مطالعوں نے غالبؔ کو ہمارے ذہنوں سے قریب تر
کردیا اور انہیں بہت سے ایسے ذہنوں تک بھی پہنچا دیا جن کو عام حالات میں غالبؔ سے
مانوس ہونے کا مو قع شاید نہ ملتا۔ یہ غالبؔ کی تازہ مقبولیت کی ایک صورت تھی جو
غالبؔ صدی کے ذریعے انہیں حاصل ہونے والی شہرت کی آوردہ تھی لیکن شہرت بالعموم دیرپا مقبولیت کی ضمانت
نہیں ہوا کرتی۔ غالبؔ کی یہ تازہ مقبولیت
بھی ایک حد تک عارضی تھی اور اس کا بڑا حصہ غالبؔ صدی کی ہماہمی ختم ہونے کے بعد
زائل ہوگیا۔
اس ہنگامی مقبولیت کے
متوازی غالبؔ کی وہ استمراری مقبولیت ہے جو اُن کے دورانِ حیات سے لے کر آج تک
چلی آرہی ہے۔ اگرچہ یہ خیال آج بھی بعض ذہنوں میں راسخ ہے کہ غالبؔ کے اپنے عہد
نے اُن کی قدر نہیں کی۔ یہ غلط فہمی (غالبؔ کے بارے میں بیشتر دوسری غلط فہمیوںکی
طرح) خود غالبؔ کی پھیلائی ہوئی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کو اپنی زندگی ہی میں
جتنی مقبولیت حاصل ہوگئی تھی اتنی اقبالؔ کے سوا شاید کسی اور اردو شاعر کو جیتے
جی نہ مل سکی۔
ظاہر ہے اس استمراری مقبولیت
کی بنیاد غالبؔ کی شاعری پر قائم ہے جس کی مختلف خصوصیتیں مختلف زمانوں اور مختلف
حلقوں میں اُن کو اردو کا صف ِ اوّل کا شاعر تسلیم کراتی رہیں اور ایک مدت تک
غالبؔ کو یہ امتیاز حاصل رہا کہ اردو کے کسی اہلِ قلم پر اُن سے زیادہ کتابیں اور
مضامین نہیں لکھے گئے (اب اس خصوص میں اقبالؔ غالبؔ سے آگے ہیں)۔
لیکن غالبؔ کی شاعری میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جن کی
موجودگی میں یہ شاعری مجموعۂ اضدادنظر آنے لگتی ہے اور یہ ایک عجیب بات معلوم
ہوتی ہے کہ جو شاعر ایسے شعر کہہ سکتا ہو:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم
کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ
گفتگو کیا ہے
زندگی یوں بھی گزر ہی
جاتی
کیوں ترا راہگزر یاد آیا
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے
اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے،
پہ تماشا نہ ہوا
میں نے کہا کہ ’’بزم ناز
چاہئے غیر سے تہی‘‘
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو
اٹھا دیا کہ یوں!
اُسی شاعر نے ایسے شعر
بھی کہے ہیں:
عشق بے ربطی ٔ شیرازۂ
اجزائے حواس
وصل زنگارِ رخِ آئینۂ
حسنِ یقیں
بے خون دل ہے چشم میں
موجِ نگہ بار
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے
سراغ کا
ہے کشادِ خاطرِ وابستہ در
رہن ِ سخن
تھا طلسم قفل ِ ابجد
خانۂ مکتب مجھے
معلوم ہوا حالِ شہیدانِ
گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر
نما ہے
بلکہ یہی شاعر ایسے شعر
بھی کہہ چکا تھا:
کرتی ہے عاجزی سفرِ سوختن
تمام
پیراہن ِخسک میں غبارِ
شرر ہے آج
کرے ہے لطف انداز برہنہ
گوئی خوباں
بہ تقریب ِ نگارش ہائے
سطرِ شعلہ یاد آتش
نگہ معمارِ حسرت ہامچہ
آبادی، چہ ویرانی
کہ مژگاں جس طرف وا ہو بہ
کف دامانِ صحرا ہے
عرصے تک اردو کا تنقیدی
مزاج اور ہمارا ادبی مذاق غالبؔ کے اس
کلام سے ہم آہنگ نہ ہوسکا۔ یہاں غالبؔ نے
نامانوس، خلافِ محاورہ اور فارسی نما اردو میں پیچ در پیچ استعاروں کے ذریعے ایسے
غریب مضامین باندھے اور ایسے انوکھے شعری پیکر خلق کئے تھے جن کا ہماری مانوس دنیا
کی حقیقتوں سے بظاہر کوئی تعلق نہ تھا اور اسی وجہ سے ان شعروں کو مشکل اور مبہم
ہی نہیں، مہمل کہہ کر بھی مسترد کیا جاتا تھا۔ خود غالبؔ نے معذرت کے انداز میں اِن ’’مضامین ِ خیالی‘‘
سے اپنی وقتی دل بستگی کا اعتراف کیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ بعد میں وہ راہ راست پر آگئے۔ اپنے شعری رویہ ّ میں تبدیلی کا
مزید اور مستحکم تر ثبوت انہوں نے اس طرح
فراہم کیا کہ اپنا بہت سا کلام خود مسترد کردیا اور کہا کہ انہوں نے اپنے اس قسم
کے شعروں والے ابتدائی ’’دیوان کو دور کیا، اوراق یک قلم چاک کئے، دس پندرہ شعر
واسطے نمونے کے دیوانِ حال میں رہنے دیئے۔‘‘ اپنے اس منتخب اور متداول دیوانِ حال
کے دیباچے میں غالبؔ نے یہ بھی اعلان
کردیا کہ جو شعر اس دیوان میں شامل نہیں ہیں انہیں میرے ’’آثارِ تراوشِ رگِ کلک‘‘
میں نہ سمجھا جائے اور مجھ کو ان شعروں کی تحسین سے ممنون اور تنقیص میں ماخـوذ
نہ کیا جائے۔
اس طرح غالبؔ نے وقتی طور
پر ادبی دنیا کو ایک بڑے مغالطے میں ڈال دیا۔ وہ یہ کہ اُن کا وہ مشکل کلام، جسے
سہولت کی خاطر ’’بیدلانہ‘‘ کلام کہا جاسکتا ہے، عمدہ اور اصلی شاعری کے معیار پر
پورا نہیں اترتا اور خود غالبؔ کے اعلانِ برأت کے بعد قابلِ اعتناء نہیں رہ جاتا۔
یہ سراسر آورد کی شاعری ہے جس کے پس پشت شاعر کے حقیقی جذبات و خیالات کارفرما
نہیں ہیں اور یہاں غالبؔ مناسب پیرایۂ اظہار میں عام انسانی واردات کی عکاسی کرنے
کے بجائے اپنے غیرمتعدل اور پیچیدہ ذہن کی بھول بھلیاں میں بھٹکنے لگے ہیں اور کم
عمری کی وجہ سے عجزِ بیان کا شکار ہوئے ہیں۔
لیکن عہدِ جدید میں یہی
کلام غالبؔ کی مقبولیت کاتازہ سبب بنا اور جن عناصر کی بنا پر ابھی تک اسے لائق
اعتناء نہیں سمجھا گیا تھا، انہی عناصر نے اسے جدید ذہن کے لئے سب سے زیادہ قبل
توجہ اور قابل قبول ٹھہرایا۔ اس انقلاب کا بڑا سبب اردو ادب میں جدیدیت کا فروغ
اور اس سے وابستہ تنقیدی نظریات ہیں۔ ان نظریات کے تحت شعر میں اظہار و ابلاغ کے
مسائل خاص طور پر زیربحث آئے اور جدید نقادوں نے جن امور پر زیادہ زور دیا وہ مجملاً یہ ہیں:
ضروری نہیں کہ شعر کے جو
معنی شاعر کے ذہن میں ہوں وہی قاری کی بھی سمجھ میں آئیں۔ مکمل ابلاغ، یعنی بات
کو اس طرح کھول کر کہہ دینا کہ وہ فوراً اور پوری کی پوری واضح ہوجائے، شعر کی
خوبی نہیں۔ شعر کی خوبی یہ ہے کہ اسے سمجھنے کے بعد بھی اس میں کچھ مفاہیم باقی رہ
جانے کا احساس ہو۔ کسی بھی کلام کو یقین کے ساتھ مہمل نہیں کہا جاسکتا، علی الخصوص
مبہم کلام کو۔ ابہام شعر کا عیب نہیں، حسن ہے ۔ مبہم شعر ٹھیک سے سمجھ میں نہ آنے
کے باوجود اچھا معلوم ہوسکتا ہے اور مختلف النوع تاثر پیدا کرسکتا ہے۔ شعر کی زبان
کو زیادہ سے زیادہ غیررسمی اور نثر کی زبان سے زیادہ سے زیادہ دور ہونا چاہئے۔
بالواسطہ، استعاراتی اور علامتی پیرایہ شعر کا بہترین پیرایہ ہے، وغیرہ۔ مثالیں
دینے کی ضرورت نہیں، ان کے بغیر بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ سارے تنقیدی خیالات
غالبؔ کے بیدلانہ کلام کا جواز فراہم کررہے ہیں، درحالیکہ ان کا اصل مقصد جدید
شاعری کا جواز فراہم کرنا اور اُن الزاموں کا رفع کرنا تھا جو شروع میں جدید
شاعروں پر بہ کثرت وارد ہورہے تھے اور جن کا لب لباب یہ ہے کہ ان شاعروں کے کلام
کا بیشتر حصہ چیستانی، مبہم بلکہ مہمل ہے۔ انہیں زبان کے استعمال کا سلیقہ نہیں
اور وہ مطابق محاورہ فصیح زبان کے بجائے
مصنوعی اور نامانوس زبان استعمال کرکےعجز بیان کا ثبوت دے رہے ہیں یعنی جدید
شاعروں کو بھی انہیں اعتراضوں کا سامنا کرنا پڑا جن سے غالبؔ دوچار ہوئے تھے۔ اس
طرح فطری طور پر غالبؔ جدید شاعروں اور نقادوں کے مزاج کے قریب آگئے اور ان کی
استمراری مقبولیت نے عہدِ جدید میں اپنے لئے تازہ اسباب پیدا کرلئے۔ لیکن اس سے یہ
غلط فہمی نہ ہونا چاہئے کہ عہد جدید کا ذہن غالبؔ کے صرف بیدلانہ شعروں کی بناء پر
ان کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ ذہن ان شعروں کو قبول کرتا اور لائق تحسین مانتا ہے اگرچہ
اسے ان شعروں کے مفاہیم روشن نہ ہونے کا اعتراف بھی ہے، لیکن ان شعروں سے قطع نظر
غالبؔ کے نسبتاً صاف اور سہل شعروں نے بھی عہدِ جدید کے سیاق و سباق میں نئی
معنویت پیدا کرلی ہے اور مجموعی حیثیت سے بھی نیا عہد دوسرے تمام کلاسیکی شاعروں
سے زیادہ غالبؔ کو اپنے ذہن کے قریب پاتا اور غالبؔ کو جدید ذہن کا مالک جانتا ہے،
اس لئے کہ تفکر، تشکیک اور ناآسودگی کے احساس کی وہ صورتیں جو عہدِ جدید کا خاصّہ
ہیں ، غالبؔ کے یہاں بھی مل جاتی ہیں۔ اسی
لئے شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں:
’’اردو کے تمام بڑے شاعروں میں غالبؔ سے زیادہ کائناتی المیے کا
احساس کسی کو نہیں تھا اور بیسیویں صدی کے ذہن کی جیسی پیش آمد (Anticipation) غالبؔ کے یہاں ہے ویسی بیسویں صدی کے بھی بہت
سے شعراء کو نصیب نہیں ہوئی۔‘‘
آخر میں اس نئی صورت ِ
حال کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ عہدِ جدید میں غالبؔ نے بیرون ملک بھی ذہنوں کو
متاثر کیا ہے اور اس اثراندازی کے اسباب غالبؔ کی شخصیت اور شاعری کی طرح مختلف
بلکہ متضاد ہیں۔ روسی نقاد غالبؔ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہیں سماجی شعور، عوام
دوستی اور سامراج دشمنی میں اپنے معاصروں سے آگے پاتے ہیں۔ جدید امریکی شاعرہ
ایڈرین رِچ کو جب غالبؔ کی کچھ غزلوں کے انگریزی ترجمے دیئےگئے تو اُسے ان غزلوں
میں خیال کے ارتکاز اور ہمہ گیری کی بہ یک وقت موجودگی نے حیران کردیا۔ اس نے ان
اشعار کے مضامین کو انگریزی میں نظم کیا اور اعتراف کیا کہ غالبؔ کے شعروں کو انگریزی نظم کے سانچے میں
ڈھالنے کے لئے اُسے ایسے واضح نقوش اور پیکر تیار کرنے ضرورت محسوس ہوئی جن کے
پیچھے پرچھائیوں، بازگشتوں اور عکس درعکس کا ایک سلسلہ موجود ہو، اور ان نظموں کا
اجمال اور چستی مغربی قارئین کو جاپانی ہائیکو یا الیگزینڈر پوپ یا یونانی شاعروں
کی بَیتوں کے اجمال اور چستی سے بالکل مختلف محسوس ہو۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا
ہے کہ عہدِ جدید میں غالبؔ کی مقبولیت نے اپنے لئے نئے میدان تلاش کرلئے ہیں اور
آئندہ زمانوں میں بھی غالبؔ کا انتظار
کررہی ہے۔
26 دسمبر 2021، بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
Related Article:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism