New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 03:54 AM

Urdu Section ( 29 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Dr. Israr Ahmad and the Islamic philosophy of Jihad ڈاکٹر اسرار احمد اور اسلام کا فلسفہ جہاد

ڈاکٹر اسرار احمد

29 مئی 2023

اسلام کا فلسفہ جہاد ہر دور کے لیے ہے۔ لیکن بدقسمتی سے جہاد کے بارے میں بہت سے مغالطے ہیں جو مسلمانوں میں بھی ہیں اور پھر اسلام کے جو دشمن ہیں انہوں نے مزید بلڈاپ کر کے جہاد کو بہت بدنام بنا دیا،  بلکہ گالی بنا دیا۔

جہاد کے بارے میں یہ جان لیجیے کہ وہ اسلام کے انتہائی اہم اور ضروری احکام میں سے ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: {إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله ثم لم يرتابوا وجاهدوا بأموالهم وأنفسھم في سبيل الله}

یعنی : مومن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسول پر اور پھر شک میں ہرگز نہیں پڑے اور انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ (سورہ الحجرات : آیت ۱۵)

 تو یہ تو ایمان کا جزوے لازم  ہے،  یہ تو اس کا انٹیگرل پارٹ ہے۔

لیکن لوگوں نے اصل میں جہاد کو قتال کے ہم معنی قرار دے دیا ہے کہ جہاد کے معنی جنگ،  حالانکہ قرآن مجید میں جنگ کے لیے دوسری اصطلاح موجود ہے اور وہ قتال ہے۔جیساکہ اللہ نے ارشاد فرمایا:

(إن الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا كأنهم بنيان مرصوص) (۶۱: ۴)

یعنی : یقینا اللہ کو محبت اپنے ان بندوں سے ہے جو اس کی راہ میں  جنگ کرتے ہیں قتال کرتے ہیں ایسے کہ جیسے سیسا پلائی ہوئی دیوار ہے۔

تو جنگ قتال ہے اور جہاد بھی جنگ کے معنی  میں استعمال ہو جائے گا۔

لیکن جہاد بہت وسیع ہے۔ اس میں کیا کیا چیزیں آتی ہیں یہ نوٹ کیجئے۔ سب سے پہلی بات میں عرض کروں گا کہ struggle for existence یعنی جہاد للبقا،  تمام جتنے بھی  living organism  ہیں ان کو زندہ رہنے کے لیے ایک تصادم کے ساتھ اس سے گزرنا پڑتا ہے،  جو بھی ذرائع ہیں،  جو بھی حیات بخش چیزیں ہیں ان پر جو مقابلہ ہوتا ہے،  آپ زیادہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کوئی اور جو ہے اس کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ struggle جو ہوتی ہے ان کے مابین،  اسے آپ کہیں گے struggle for existence۔  یہ بھی ایک  جہاد ہے۔ بندہ مومن جب یہ جہاد کرتا ہے تو وہ اللہ کی شریعت کے مطابق کرتا ہے۔ حلال ذریعے سے کماتا ہے،  حرام سے نہیں کماتا۔ حلال سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے،  حرام سے نہیں کرتا۔ یہ بھی ایک جہاد ہے۔

اس سے آگے انسانی سطح پر جو جہاد آتا ہے ان میں سب سے basic جہاد جو ہے وہ  حقوق کے لیے ہے، struggle to get their rights،  اور اس میں خاص طور پر آزادی کا حصول،  self determination کا حصول،  خود اختیاری کا حصول،  یہ جو  struggle ہے،  یہ اسٹرگل فور فری ڈم ہے ، یہ سب نے کی ہے،  ہندوں نے بھی کی ہے،  مسلمانوں نے بھی کی ہے،  یورپینز نے بھی کی ہے،  امریکنز نے برطانیہ سے نجات پانے کے لیے جنگ لڑی تھی،  یہ سب کے سب لوگ  جنگ کرتے رہے ہیں،  جہاد کرتے رہے ہیں،  تو مسلمان بھی جہاد کرتا ہے۔

مسلمانوں نے افغانستان میں روسی فوج کا مقابلہ کر کے اور اسے وہاں سے واپس جانے پر مجبور کرنے میں جہاد کیا ہے۔ لیکن یہ جہاد کیا تھا؟ یہ جہاد  struggle for existence تھا ، جہاد فی سبیل الحریت تھا ۔

جہاد فی سبیل اللہ،  اس سے اوپر ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ،  اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، تو  اس کے بھی تین level ہیں۔ سب سے پہلے اپنے نفس کے خلاف جہاد کر کے اسے اللہ کا مطیع بنانا،  اور یہ سب سے اعلی درجے کا جہاد ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ  ای جہاد افضل یعنی  یا رسول اللہ،  اے اللہ کے رسول،  یہ فرمائیے کہ سب سے افضل جہاد کونسا ہے،  تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا،  ان تجاہد نفسک فی طاعۃ اللہ، یعنی  سب سے اعلی اور سب سے عظیم رتبے والا جہاد یہ ہے کہ تُو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے اور اسے اللہ کا مطیع بنائے ۔

اسی طرح ماحول جو ہے وہ آپ کو ایک خاص سمت میں لے کے جانا چاہتا ہے جیسے کہ ایک بوب ہوتا ہے وہ آپ کو ایک خاص سمت میں دھکیلتا ہے۔ تو اگر معاشرہ بگڑا ہوا ہے تو وہ آپ کو بگاڑ کی طرف لے کر جائے گا،  برائیوں کی طرف لے کر جائے گا،  تو اس کا مقابلہ کرنا، یہ  بھی جہاد ہے۔

آپ اپنے ماحول سے جہاد کریں جیسے کہ یہ کہا گیا ہے کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ‘‘زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ساز’’ اور ایک یہ کہ نہیں ‘‘زمانہ با تو نسازد، تو با زمانہ ستیز’’۔

 زمانہ اگر تمہارے ساتھ ہم آہنگی نہیں کر رہا ہے تو اس سے جنگ کرو ، تم اپنے موقف پر ڈٹے رہو ،اور اپنے راستے پر چلو،  اس سے اوپر کا جہاد ہے غلط نظریات کے خلاف جہاد،  ظاہر بات ہے دنیا میں گمراہ کن فلسفے بھی ہیں، بڑے گمراہ کن مذاہب بھی ہیں۔ ان کے علم بردار بھی ہیں۔ ایک فکر  مغرب کا فکر ہے۔ اس وقت جو میٹریالیسٹک ہے اس میں دین کا،  مذہب کا، روحانیت کا معاملہ اس میں سے خارج ہو چکا ہے۔ تو اب یہ جو ہے اس غلط نظریات کو اور غلط فکر کو غلط فلسفے کو غلط مذاہب کو ان کی تردید کرنا یہ بھی جہاد ہے۔

 اس میں وقت لگے گا ،محنت لگے گی۔ آپ کو سب سے پہلے سیکھنا ہوگا کہ برٹرینڈرسل  کیا کہتا ہے۔ ژاں پال سارتر نے کیا کہا ہے؟ اور فلان کا فلسفہ کیا ہے؟ فلاطون کا فلسفہ کیا ہے؟

 اور ان  میں حق کیا ہے اور باطل  کتنا ہے؟ اب اس کی پھر نفی آپ کرسکیں گے۔ اسی طرح مذاہب کا مطالعہ کریں گے۔ یہ سب جہاد ہے۔ اس میں وقت بھی لگ رہا ہے۔ جان بھی لگ رہی ہے ۔صلاحیت بھی لگ رہی ہے۔ راتوں کو جاگنا پڑ رہا ہے۔

پہلے صلاحیت حاصل کرنی ہے اور پھر اسے استعمال کرنا ہے۔ سب سے ٹاپ موسٹ ہے  اللہ کے نظام کو قائم کرنا ،

دین کا ایک پورا نظام ، نظام زندگی ،  دین اسی کا نام ہے۔یہ  دین الحق ہے ۔ حضور کے بارے میں فرمایا گیا تین دفعہ قرآن مجید میں کہ ہم نے انہیں بھیجا ہی اس لیے ہے کہ ہمارے دین حق کو غالب کریں ۔اس دین حق کو غالب کرنے کے لیے جدو جہد جو ہے اس میں ظاہر بات ہے پہلے دعوت بھی ہوگی، سب کچھ ہوگا، پھر جو لوگ قبول کریں گے ، ان کی تربیت ہوگی۔انہیں تیار کیا جائے گا ۔پھر ایک جماعت وجود میں بھی آئے گی جو حزب اللہ ہوگی ۔ وہ باطل نظام کے خلاف جہاد کرے گی اور اس لیول پر جہاد میں قتال بھی شامل ہو سکتا ہے اس سے پہلے کا سارا جہاد جو ہے اس میں لڑائی کا،  جنگ کا،  ہتھیار کے استعمال کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ لیکن اس لیول پر آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے کہ آپ نے تیرہ سال تو  تیاری کی ہے، پہلے دعوت دی ہے ،تبلیغ کی ہے جو آگئے، جنہوں نے قبول کر لیا ان کی تربیت کی ہے۔انہیں آرگنائز کیا ہے۔ لیکن پھر اس جمعیت کو لے کر باطل نظام کے خلاف آپ نے تلوار اٹھائی ہے۔

 آج کل یہ ہے کہ اس تلوار اٹھانے کا بدل جو ہے ایک تجویز ہو گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عوامی تحریک جس کو ایک مضبوط جماعت لے کر چل رہی ہو،  تو وہ ایک پرامن  تحریک،  احتجاجی تحریک کے ذریعے سے،  ایجیٹیشنل کے ذریعے سے ، وہ نظام کو بدل سکتی ہے۔ اس کی بہت سے مثالیں آج دنیا میں آ رہی ہیں۔ تو اس لیے اس سطح پر بھی جنگ ہی واحد ذریعہ نہیں ہے۔

لیکن اس سطح پر جنگ ہو سکتی ہے اور وہ جنگ جائز ہوگی اور وہ جہاد فی سبیل اللہ ہوگی۔ لیکن وہ اس تمام پروسسس  سے گزر کر ہوگی۔ ایسے ہی نہیں ۔یہ تمام پروسسس اور اس کے منازل جو ہے اس کے جو لیول ہیں، ان سے گزر کر ہوگی اور اس کا بھی بدل ایک موجود ہے ۔اور وہ ایک عوامی، ایک پرامن عوامی تحریک ، یا آپ اسے کہہ سکتے ہیں کہ ون سائڈیڈ  وار، کہ انسان باہر نکل آئے۔ ظاہر بات ہے کہ کہیں بھی اگر آپ نے سیویل ڈسآبیڈینس کی ،تو آپ پر گولیاں چلے گی، اپنی جانیں دینے کو تیار ہوں، کسی اور کی جان نہ لیں، تو یہ سارا معاملہ جو ہے، یہ ایک امکانی شکل ہے ۔لیکن بہرحال یہ ہے جہاد کا وہ کنسپٹ ،اور قرآن نے اس جہاد کو ایمان کا جزو لاینفق قرار دیا ہے۔ اور اس جہاد کے بغیر قرآن انسان کی فلاح اور کامیابی اور اخروی نجات کی ضمانت نہیں دیتا۔

 چنانچہ سورہ صف میں کہا گیا ہے: (یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(10)تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ) ترجمہ:

اے ایمان والو! کیا میں تمہاری رہنمائی کروں اس کاروبار کی طرف  جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو، یہ تمہارے حق میں بہتر  ہے اگر تم جانو۔ (سورہ صف : ۱۰، ۱۱)

اگر یہ نہیں کرو گے تو پھر اس دردناک  عذاب سے چھٹکارے کی کوئی ضمانت ہماری طرف سے نہیں ہے ۔اور اسی سورت میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اس جہاد کا بلند ترین مقام کونسا ہے ، تو وہ قتال ہے ۔  جب جان ہاتھ پر رکھ کر،  ہتھیلی  پر رکھ کر انسان میدان میں آتا ہے۔چنانچہ اسی سورت میں وہ آیت بھی ہے کہ (إن الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا كأنهم بنيان مرصوص) (۶۱: ۴)

اللہ کو محبت ہے اپنے ان بندوں سے جو اس کی راہ میں  قتال کرتے ہیں ، جنگ کرتے ہیں ، اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر ، جان کا رسک لیکر میدان میں  آ کر باطل کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ گویا کہ سب سے بلند منزل  ہے۔

۔۔۔

اسپیچ لنک: https://www.youtube.com/watch?v=iwJ-MLdoxCE

-------------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/dr-israr-ahmad-islamic-philosophy-jihad/d/129875

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..